ناروے ایسے پُرسکون اور امن پسند ملک، جہاں صرف دو لاکھ مسلمان بستے ہیں، میں یہ سانحہ پیش آیا ہے تو دُنیا کے کونے کونے میں بسنے والے ہر مسلمان کا دل دہل گیا ہے۔ یہ سانحہ دل آزار ہی نہیں، دلدوز بھی ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دوران ناروے میں مسلم آبادی میں اضافہ ہُوا ہے تو ساتھ ہی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف واقعات میں بھی خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
چند ایسی تشدد پسند تنظیمیں بھی سامنے آ گئی ہیں جو اسلامو فوبیا کا شکار ہو کر مسلمانوں کی دل شکنی کا باعث بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر SIAN نامی تنظیم۔ اس کا تو نعرہ ہی یہ ہے :Stop Islamisation of Norway اسی تنظیم سے وابستہ ایک متشدد شخص، لارس تھورسن، نے 22نومبر2019 کو ناروے کے ایک چھوٹے سے شہر ( کرسٹین سینڈ) میں ایسا ہی واقعہ ہوا۔ اللہ اُس نارویجن مسلمان نوجوان ( الیاس) کی دُنیا و آخرت سنوارے جس نے اپنی جان پر کھیل کر اس بد بخت شخص کو توہین میں مزید آگے بڑھنے سے روک دیا۔ مبینہ الیاس نامی مسلمان نوجوان اگرچہ اب گرفتار ہو چکا ہے لیکن ہمیں اُمید ہے کہ ناروے حکومت اُس کے خلاف کوئی سنگین مقدمہ نہیں چلا سکے گی کہ یہ حکومت بھی مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کچھ نہ کچھ آگاہی رکھتی ہوگی۔
حکومتِ پاکستان نے سرکاری سطح پر اس حوالے سے ناروے سے سخت احتجاج کیا ہے۔ نارویجن سفیر کو دفترِ خارجہ بھی طلب کیا ہے۔ افواجِ پاکستان کی طرف سے بھی توہین کے مرتکب لارس تھورسن کی مذمت کی گئی ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آرکی طرف سے کہا گیا ہے کہ اسلامو فوبیا عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ ہم سب توقع رکھتے ہیں کہ ناروے کی حکومت اس بد بخت شخص، لارس تھورسن، کے خلاف مقدمہ چلا کر اُسے سزا دے گی۔
مغربی دُنیا میں جب بھی توہینِ اسلام کا کوئی سانحہ پیش آتا ہے، پاکستان کے عوام اور ہمارے حکمرانوں نے فوری اس کے خلاف اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہُوئے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ ردِ عمل میں تو کئی بار کئی پاکستانی شہید بھی ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی مسلمان حرمتِ قرآن اور حرمتِ رسولﷺ پر اپنی جان قربان کرنا بہت بڑی سعادت سمجھتا ہے۔
پاکستان اور عالمِ اسلام کی کئی وارننگز کے باوصف مگر مغرب میں توہین کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ کبھی تھوڑا سا وقفہ اگر آتا بھی ہے تو پھر اِسی ضمن میں کوئی نیا سانحہ جنم لے لیتا ہے۔ اسے وہ "آزادیِ اظہار" کا نام دیتے ہیں لیکن یہ آزادی اظہار نہیں بلکہ انسانیت سے گری ہُوئی حرکاتِ بد ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان نے بھی 27ستمبر2019کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے مشہور خطاب میں مغربی دُنیا کو اس طرف متوجہ کرتے ہُوئے بجا کہا تھا : "اسلاموفوبیا کا تصور مغرب کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کو کیسے انتہا پسند اور دہشتگرد کہا اور سمجھا جا سکتا ہے؟ نائن الیون کے بعد دنیا میں اسلاموفوبیا بہت تیزی سے پھیلایا گیا۔
اس سے تفریق پیدا ہوئی۔ مسلمان خواتین کے حجاب تک پہننے کو مسئلہ بنا دیا گیا۔ مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا سے دکھ ہوتا ہے۔ مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ اسلام کی توہین کی کوئی بھی کوشش مسلمانوں کے لیے بہت بڑا معاملہ ہے۔ اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ توہین کے واقعات سے مسلمانوں کے دل مجروح ہوتے ہیں۔ یہ آزادی اظہارِ رائے نہیں، دل آزاری ہے۔"
لیکن لگتا ہے اہلِ مغرب نے ہمارے وزیر اعظم کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی ہے اور نہ ہی مغربیوں نے اپنے ہاں بسنے والی مسلمان خواتین کے حجاب اوڑھنے کو ہضم کیا ہے۔ 22نومبر2019کو مغرب میں مسلمانوں سے نفرت، حجاب اوراسلامو فوبیا کے حوالے سے ایک عجب خبر آئی :سڈنی (آسٹریلیا) میں ایک شخص نے کیفے میں بیٹھی ایک مسلمان حاملہ خاتون کو بغیر کسی وجہ کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ انتہاپسند حملہ آور متاثرہ خاتون کے پاس جا کر اسلام مخالف نعرے بھی لگاتا رہا۔ جرمن نشریاتی ادارے "ڈاؤچے ویلے " کی ایک رپورٹ کے مطابق: "وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سڈنی کے ایک ریستوران میں تین مسلمان خواتین بیٹھی ہیں اور انھوں نے سر پر اسکارف اوڑھ رکھے ہیں۔
ایک شخص اُن کی میز کے قریب آ کر مشتعل انداز میں گفتگو کرنے لگتا ہے۔ تینوں خواتین اطمینان سے اُس کے سوالوں کا جواب دیتی ہیں کہ اچانک وہ شخص اُن میں سے ایک خاتون پر حملہ کر کے اُس پر گھونسوں اور لاتوں کی بارش کر دیتا ہے۔ حاملہ خاتون زمین پر گر جاتی ہے لیکن حملہ آور اُس خاتون پر مسلسل تشدد جاری رکھتا ہے۔ اِسی دوران وہاں موجود دیگر افراد خاتون کو بچانے آتے ہیں اور حملہ آور کو پکڑ لیتے ہیں۔ واقعے کے فوری بعد مقامی پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر43 سالہ حملہ آور کو حراست میں لے لیا جب کہ تشدد کا شکار بننے والی حاملہ مسلمان خاتون کو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ آسٹریلوی پولیس نے حملہ آور کے خلاف نہ صرف حملے اور جسمانی تشدد کا مقدمہ درج کیا ہے بلکہ اُس کی ضمانت بھی مسترد کر دی گئی ہے۔ آسٹریلیا کی معروف اسلامی تنظیم، آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک کونسل، نے اسے اسلامو فوبیا قرار دیا ہے۔
مشہور آسٹریلین جامعہ، چارلس اسٹورٹ یونیورسٹی، کی ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا میں اسلامو فوبیا ایک مستقل رحجان کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اسکارف پہننے والی خواتین کو خاص طور پر اس سے خطرہ لاحق ہے۔ رپورٹ مطابق، اس طرح کے 113 واقعات میں جن خواتین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان میں سے چھیانوے فیصد نے اسکارف یا حجاب پہن رکھا تھا۔
آسٹریلیا میں اِس وقت مسلمانوں کی آبادی تقریباً 6لاکھ ہے۔ ان میں 42فیصد مسلمان سڈنی میں رہتے ہیں، 31 فیصد میلبورن اور 8فیصد پرتھ میں رہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں آسٹریلوی مسلم آبادی میں 15فیصد اضافہ ہُوا ہے۔ ایک سروے کے مطابق، آسٹریلوی مسلمانوں کی آبادی میں سے36فیصد وہ لوگ ہیں جو آسٹریلیا میں پیدا ہُوئے ہیں۔
آسٹریلیا کے بعض متشدد اور متعصب باشندوں (اگرچہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے) کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہُوئی یہ آبادی خود آسٹریلیا کی معیشت اور کلچر کے لیے "خطرہ"ہے۔ جرمنی، ناروے اور ہالینڈ کی مسلمان دشمن تنظیموں کی دیکھا دیکھی آسٹریلیا میں بھی کئی ایسی تنظیمیں (مثال کے طور پر:دی یونائٹڈ پیٹریاٹس فرنٹ) سر اُٹھا رہی ہیں جو اسلامو فوبیا کا شکار ہو کر مقامی ( لیکن مہاجر) مسلمانوں کے لیے سنگین خطرے کا باعث بن رہی ہیں۔
ان واقعات و سانحات کے انسداد کے لیے آسٹریلیا میں بروئے کار کئی اسلامی تنظیمیں اور ادارے سنجیدگی سے کوششیں تو کررہے ہیں لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اسلامو فوبیا میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے؛ چنانچہ اس کے ردِ عمل میں آسٹریلین مسلم نوجوانوں کی بھی کئی ایسی تنظیمیں پیدا ہو گئی ہیں، نقصان مگر اس کا یہ ہُوا ہے کہ اس ردِ عمل نے مقامی آسٹریلین شہریوں کو مسلمانوں کے خلاف مزید بھڑکا دیا ہے۔ چند دن پہلے ہالینڈ میں بھی مہاجر مراکشی مسلمان نوجوانوں اور مقامی سفید فام ڈچ نوجوان کے درمیان مار کٹائی ہُوئی ہے۔ ڈچ میڈیا نے اس واقعہ کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا ہے۔ مغربیوں میں اسلامو فوبیا کا مرض روز افزوں ہے۔