معیشت کے سرکاری اعداد و شمار عوام کی سمجھ میں کبھی نہیں آتے۔ اقتصادیات کی دُنیا اچھے اچھوں کی سمجھ میں نہیں آتی تو عوام کس قطار شمار میں ہیں؟ اچھی معیشت عوام کی سمجھ میں اُسی صورت میں آتی ہے جب کچن، بجلی، تعلیم، پٹرول وغیرہ کے مصارف عام آدمی کی سہل دسترس میں ہوں۔
ہر حکومت کو مگر اپنے اقتصادی کارناموں کی ڈفلی بجانے کا پورا ستحقاق ہے۔ عمران خان کی حکومت اور اُن کے مالیاتی وزیر و مشیر اگر یہ اعلان کر رہے ہیں کہ عالمی مالیاتی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ( موڈیز انویسٹرز سروس) نے درجہ بندی میں پاکستانی بینکوں اور معیشت کی درجہ بندی منفی سے مستحکم کر دی ہے اور یہ کہ اِسی "موڈیز" نے پاکستان کا معاشی منظر نامہ (آؤٹ لک) منفی سے مثبت قرار دے دیا ہے تو ہمیں حکومت کے اس اعلان پر یقین کر لینا چاہیے۔ حکومت آخر جھوٹ اور کذب سے کام کیوں لے گی؟
بیان میں بتایا گیا ہے کہ آؤٹ لک میں یہ مثبت تبدیلی حکومتِ پاکستان کی طرف سے ادائیگیوں میں توازن، پالیسی ایڈجسٹمنٹ کی حمایت اور کرنسی کی لچک کے باعث سامنے آئی ہے۔ ہماری وزارت خزانہ نے اس عالمی تحسین کا خیرمقدم کیا ہے کہ کہیں سے تو خدا خدا کر کے تعریفی جھونکا آیا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر خزانہ، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، نے مسرت سے پریس کانفرنس بھی کی ہے۔
پورے 17 ماہ بعد پاکستان کو یہ معاشی خوشی ملی ہے۔"موڈیز" نے جون 2018 میں پاکستان کے معاشی منظرنامے کو، غیر ملکی زرِمبادلہ کی کمی کے باعث، مستحکم سے منفی قرار دیا تھا۔ اب تازہ کامیابی پر اگر وزیر اعظم عمران خان اپنی معاشی ٹیم کو شاباش دیتے نظر آ رہے ہیں تو یہ شاباش بجا خیال کی جانی چاہیے۔
امریکی محکمہ خارجہ میں جنوبی ایشائی اُمور کی انچارج، ایلس ویلز، نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں پاکستان کے تازہ معاشی منظر نامے میں بہتری کی خبر پر تعریف کی ہے۔ فیس بک کے بانی و مالک ( مارک زکر برگ) کی ہمشیرہ، رینڈی زکر برگ (جو خود بھی فیس بک کمپنی کی ایک اعلیٰ عہدیدار رہی ہیں ) نے بھی عمران خان کی حکومت پر زبردست انداز میں اظہارِ اعتماد کیا ہے۔ جو لوگ فیس بک کی عالمی اہمیت سے آگاہ ہیں، وہ رینڈی زکر برگ کے پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے لیے تحسینی کلمات کی عالمی اہمیت سے بھی آگاہ ہوں گے۔
رینڈی زکر برگ کے حوالے سے پاکستان اور خان صاحب کی حکومت کے بارے میں مثبت بیان عین اس وقت سامنے آیا ہے جب وزیر اعظم عمران خان کی دعوت پر تانیہ ایدروس صاحبہ بھی پاکستان آ گئی ہیں۔ تانیہ ایدروس سنگا پور میں "گوگل" ایسے عالمی شہرت یافتہ سرچ انجن، جس نے انفارمیشن کی دُنیا میں ہر شخص کو اپنا محتاج بنا رکھا ہے، میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھیں۔ وہ اب وزیر اعظم عمران خان کے ڈیجیٹل پاکستان منصوبے کی سربراہی کریں گی۔ پاکستان اور موجودہ حکومت کا چہرہ روشن نہ ہوتا تو تانیہ ایدروس اپنا اعلیٰ عہدہ چھوڑ کر کبھی پاکستان آنے کے لیے تیار نہ ہوتیں۔
اب ہمیں دعا یہ کرنی چاہیے کہ تانیہ ایدروس کا بھی سرکاری سطح پر وہی حشر نہ ہو جو لاہور میں گردہ امراض کی شفا کے لیے بننے والے اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال کی سربراہی کے لیے امریکا سے دعوت پر بلائے جانے والے عالمی شہرت یافتہ نفرالوجسٹ ڈاکٹر سعید اختر صاحب سے کیا گیا۔ ڈاکٹر سعید صاحب خجل خواری کے بعد، مایوس ہو کر اب امریکا واپس جا چکے ہیں۔ اب تانیہ ایدروس ایسی بین الاقوامی شہرت یافتہ خاتون کی طرف سے پاکستانی چہرہ مزید سنوارنے کرنے کے لیے پاکستان تشریف لانا درحقیقت عمران خان ہی کی کامیابی ہے۔
وزیر اعظم کی کوئی بھی کامیابی پاکستان سے علیحدہ نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی کی ڈولتی ڈگمگاتی معاشی کشتی کو سہارا اور سنبھالا دینے کے لیے پچھلے ڈیڑھ سال سے عمران خان خاصی بھاگ دوڑ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ ایک برس کے دوران اگر 10 ارب ڈالر کے نئے قرضے لیے ہیں تو (بقول اُن کے) اربوں ڈالر کے پرانے قرضے واپس بھی کیے ہیں۔ اس اقدام سے ہماری قومی معیشت کو کچھ سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ واضح نظر آ رہا ہے کہ بدلتے اور نئی کروٹیں لیتے پاکستان پر عالمی اعتبار اور اعتماد بڑھ رہا ہے۔
یوں پاکستان کا اجتماعی چہرہ بھی نکھر رہا ہے اور خانصاحب کا چہرہ بھی تمتما رہا ہے۔ پاکستان کا چہرہ نکھارنے اور وطنِ عزیز کی پُر امن صورت کو دُنیا پر ثابت کرنے کے لیے ہماری تمام سیکیورٹی فورسز نے بھی انتھک محنت اور کمٹمنٹ سے کام لیا ہے۔ پاکستان پر تیزی سے بڑھتے عالمی اعتماد کی وجہ سے ہماری سیاحت بھی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کا پُرامن اور پُرکشش چہرہ نمایاں ہونے ہی کا نتیجہ ہے کہ حالیہ ایام میں دُنیا کے کئی شاہی خاندانوں کے اہم ترین افراد نے پاکستان کے دَورے کیے ہیں۔ ان دَوروں کا نہایت مثبت پیغام ساری دُنیا تک پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر:
سب سے پہلے پاکستانیوں میں (آج بھی) مقبول آنجہانی برطانوی شہزادی، ڈیانا، کے بیٹے شہزادہ ولیم اور بہو (کیٹ مڈلٹن) اسلام آباد پہنچے تھے۔ اُن کا یہ دورہ 14 تا 18 اکتوبر 2019تک تھا۔ برطانوی شہزادے اور ان کی اہلیہ نے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول (یونیورسٹی کالونی) اسلام آباد کا دورہ کر کے Teach For Pakistan مہم کے اثرات کا جائزہ لیا تھا۔ شاہی جوڑے نے ایوانِ صدر میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات بھی کی اور اس کے بعد ظہرانے میں شرکت کے لیے وزیر اعظم ہاؤس پہنچا تو وزیر اعظم عمران خان نے خود اُن کا پُرتپاک استقبال کیا تھا۔
شہزادے کی آنجہانی والدہ، شہزادی ڈیانا، نے عمران خان اور اُن کی سابقہ اہلیہ (جمائما خان) سے مل کر لاہور اور اسلام آباد میں شوکت خانم اسپتال کے لیے ڈونیشنز کی کئی مہمات میں شاندار کردار ادا کیا تھا۔ اسلام آباد میں یادگارِ پاکستان میں منعقدہ ایک خوبصورت تقریب میں برطانوی شہزادہ ولیم اور اُن کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن روایتی مشرقی لباس زیب تن کیے (ٹرک آرٹ سے سجے رکشے میں سوار ہو کر) پہنچے تھے۔ اس تقریب کی رپورٹنگ بازگشت بن کر ساری دُنیا میں سنائی دی گئی جس نے پاکستان کا مثبت چہرہ بھی اجاگر کیا اور پاکستانی سیاحت کے لیے پُر کشش پیغام بھی بن گیا۔ شہزادہ ولیم اپنی اہلیہ کے ہمراہ چترال بھی گئے جہاں انھیں روایتی چترالی ٹوپی اور شال کا خاص تحفہ بھی دیا گیا تھا۔ برطانوی معزز مہمان جوڑا لاہور کی سیر سے بھی محظوظ ہُوا۔
برطانوی شاہی جوڑے کے دَورئہ پاکستان کے بعد 25 نومبر 2019 کو نیدرلینڈز کی ملکہ، میکسیما، 3 روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائیں۔ ملکہ میکسیما اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتیرس، کی خصوصی ایڈووکیٹ فنانس فار ڈیویلپمنٹ کی حیثیت سے پاکستان آئیں۔ دورہ پاکستان کے دوران ملکہ صاحبہ نے صدرِ مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتیں کرنے کے ساتھ پاکستان کے کئی مالیاتی اداروں کا بھی دَورہ کیا۔ ملکہ میکسمیا نے فروری 2016 میں بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا اور واپسی پر پاکستان کے بارے میں مثبت رپورٹ جاری کی تھی۔
اس رپورٹ سے پاکستان کو اقتصادی اعتبار سے خاصا فائدہ ملا تھا۔ ہم سب اُمید کرتے ہیں کہ اِس بار بھی وہ پاکستان کے بارے میں اچھی رپورٹ ہی جاری کریں گی۔ برطانیہ اور نیدر لینڈز کے شاہی خاندانوں کے تین اہم ترین افراد کے دَوروں کے بعد27 نومبر 2019 کو اُردن کی شہزادی، سارا زید، نے پاکستان میں قدم رکھا۔ وہ سیدھی بلوچستان تشریف لے گئی تھیں۔ شہزادی سارا زید صاحبہ اقوامِ متحدہ کی مشیرِ خاص برائے ورلڈ فوڈ پروگرام کی حیثیت سے پاکستانی ماؤں اور بچوں کی صحت و غذائیت کا جائزہ لینے خاص طور پر پاکستان تشریف لائی تھیں۔
اس بار اُن کی توجہ زیادہ تر بلوچستان کی خواتین کی فلاح و بہبود پر مرتکز تھی۔ ہم سب دُنیا کے تین شاہی خاندانوں کے اہم ترین افراد کے شکر گزار ہیں کہ جن کے سبب پُر امن پاکستان کا پیغام ساری دُنیا تک پہنچا ہے۔ اس پیغام میں کرتار پور راہداری کا کھولا جانا دراصل پاکستان کے روادار چہرے کو دُنیا پر واضح کرنے کے مترادف ہے۔ اس مبارک پیغام کا کریڈٹ ہماری سیکیورٹی فورسز اور خانصاحب کی حکومت کو بھی ملنا چاہیے۔