مشہور برطانوی سفارتکار اور سیاستدان، مارک لائل گرانٹ، نے معروف مغربی جریدے "فوربس میگزین" کے تازہ شمارے میں اپنے مفصل آرٹیکل میں دردمندی سے لکھا ہے کہ جنوبی ایشیا کا امن، خوشحالی اور پاک بھارت تعلقات کی پائیداری مسئلہ کشمیر کے کسی کامل اور متفق علیہ حل سے وابستہ ہے۔
جاپان سے شایع ہونے والے دُنیا کے سب سے بڑے اخبار "نکی ایشیا ریویو" نے بھی چند دن پہلے اپنے دو تجزیہ کاروں کی طویل رپورٹ میں کہا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری اس امر میں پوشیدہ ہے کہ (۱) بھارت کشمیریوں کا استحصال بند کرے (۲) پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ رُکی تجارت کا پہیہ پھر سے گردش میں لایا جائے!! یہ دونوں تازہ ترین عالمی تجزیے اپنی جگہ درست محسوس ہوتے ہیں۔ پاکستان تو بھارت سے تعلقات استوار اور بحال کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے لیکن بھارت اپنی بالادستی کے حصول اور ضد نبھانے کے لیے پاکستان کی طرف سے بچھائی گئی امن کی بساط ہی لپیٹ دینا چاہتا ہے۔
بھارت کو حالیہ تکلیف یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے خلاف 5 اگست کے ظالمانہ اور غاصبانہ بھارتی اقدام کو پاکستان دُنیا کے ہر فورم پر چیلنج کرنے کی جسارت کیوں کر رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پچھلے ساڑھے تین ماہ کے دوران پاکستان کی مساعی کی بدولت دُنیا بھر میں مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی مظلومیت زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں عالمی آگاہی کا دائرہ پھیلا ہے۔ بھارت کو جواب دینا پڑ رہا ہے اور یوں ندامت کا مارا بھارت سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان خاموش ہو جائے تو اُسے شرمندگیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے لیے مگر یہ ناممکن ہے کہ وہ کشمیریوں کو تنہا و بے یارومدگار چھوڑ کر مہر بہ لب ہو جائے۔
پاکستان ہی کیا، اب تو بھارت کے باضمیر انسان بھی چیخ اُٹھے ہیں کہ ( مقبوضہ) کشمیر کی حالت بد تر ہے اور یہ کہ مودی سرکار کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ "کشمیر میں حالات نارمل ہیں۔" کشمیر کے حالات اگر "نارمل " ہیں تو اِسی دعوے کا جائزہ لینے کے لیے بھارتی سول سوسائٹی کے پانچ سینئر ارکان کا ایک وفد 25 نومبر 2019 کو سری نگر پہنچا۔ اس وفد کی قیادت بھارت کے سابق مرکزی وزیر، یشونت سنہا، کر رہے تھے۔
انھوں نے 25 نومبر کی دوپہر سری نگر پہنچتے ہی بھارتی میڈیا پر یہ حقیقت عیاں کر دی کہ "ہمیں فوج اور پولیس سری نگر سے باہر نکلنے اور حالات کا آزادانہ جائزہ لینے کی اجازت نہیں دے رہی۔" یہ تازہ شہادت ایک سینئر بھارتی سیاستدان کی طرف سے آئی ہے جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات قطعی نارمل نہیں ہیں۔
اس سے قبل بھارت نے کچھ امریکی سینیٹروں کو بھی مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ مبادا بھارت کے اس دعوے کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات نارمل ہیں۔ فن لینڈ ایسے معتدل اور غیر وابستہ ملک کے وزیر خارجہ (Pekka Haavisto) نے بھی بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ اقوامِ اقوامِ متحدہ کے مبصرین اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے سینئر وابستگان کو (مقبوضہ) کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے لیکن بھارت نے انھیں بھی انکار کر دیا ہے۔
اِن سنگین اور مایوس کن حالات میں بھی پاکستان نے اُمید کا چراغ روشن کر رکھا ہے، یوں کہ پاکستان کی جینوئن خواہش ہے کہ بھارت سے ٹوٹے تعلقات پھر سے جُڑ جائیں۔ بھارت مگر پاکستان کے مخلصانہ جذبات کو مسترد بھی کر رہا ہے اور پاکستان کے خلاف سازشیں بھی کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر (۱)21 نومبر2019 کو فرینکفرٹ (جرمنی) سے مقامی حکومت نے "را"کے دو بھارتی ایجنٹوں (منموہن اور اُس کی بیوی کنول) کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا ہے۔
یہ جوڑا جرمنی میں مقیم کشمیریوں، پاکستانیوں اور پاکستان کے خلاف بھارت کے لیے جاسوسی کر رہا تھا۔ اس خبر سے ایک بار پھر عیاں ہُوا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کس کس رُخ سے پاکستان کے خلاف جال تیار کر رہی ہے (۲) بھارتی میڈیا یہ خبر اچھال رہا ہے کہ 11 دسمبر 2019 کو جرمنی کے شہر، برلن، میں پاکستان کے کچھ ( مفرور) لوگ پاکستان میں "انسانی حقوق کی شدید پامالی" کے زیر عنوان کانفرنس منعقد کر رہے ہیں۔
یہ خبر بھی "را" کی تخلیق کردہ ہے اور "را" ہی برلن کی اس مبینہ کانفرنس کو اسپانسر کر رہا ہے۔ حقیقتِ حال مگر اہلِ برلن بھی جانتے ہیں، عالمی میڈیا بھی اور متعلقہ ادارے بھی کہ برلن میں بروئے کار یہ پاکستان مخالف گروہ کس قدر اپنے دعوؤں میں سچا ہے اور یہ بھی کہ اسے کس کی پشت پناہی حاصل ہے (۳) پاکستان نے کرتارپور صاحب کوریڈور کھول کر بھارتی و عالمی سکھ کمیونٹی کے لیے اپنے دل اور دروازے کھول دیے ہیں۔ ایک دُنیا پاکستان کی اس رواداری اور محبت پر یقین کر رہی ہے۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ، کیپٹن امریندر سنگھ، بھی کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب میں مدعو اور شریک تھے۔
مگر بھارت اور امریندر سنگھ کو اس میں بھی پاکستان کی شرارت نظر آ رہی ہے ؛ چنانچہ ہمیں یہ سُن کر دکھ ہوتا ہے کہ چند دن پہلے کیپٹن امریندر سنگھ نے یہ کہا ہے کہ " کرتار پور راہداری کھول کر پاکستان دراصل 2020 میں سکھوں کی طرف سے قیامِ خالصتان کے لیے ریفرنڈم کے مطالبے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔" یہ الزام انتہائی بودا اور بے بنیاد ہے۔ اس الزام کے باطن میں دراصل بھارت کے اپنے جرائم بول رہے ہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے کشمیر اور مشرقی پنجاب میں سکھوں اور کشمیریوں پر جو ظلم روا رکھے ہیں، ان کے ممکنہ نتائج نے اُسے خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے نئے اذیت ناک ہتھکنڈوں اور کشمیریوں کو 11 ہفتوں سے بھی زیادہ عرصے سے مسلسل محصور کیے جانے کے غیر انسانی اقدام پر دُنیا نے جو ردِ عمل دیا ہے، بھارت یہ عالمی تپش بُری طرح محسوس کر رہا ہے ؛ چنانچہ بھارت کی کوشش ہے کہ ہر وہ عالمی شخصیت یا ادارہ جو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی مذمت کرتا ہے، اُسے آڑے ہاتھوں سے لیا جائے۔ مثلا ً(۱) جب ملائشیا کے وزیر اعظم، مہاتیر محمد، نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت کی مذمت کرتے ہُوئے کشمیریوں کی کھلی حمایت کی تو بھارت نے فوری اعلان کیا کہ ہم ملائشیا سے اربوں ڈالر کی پام آئل تجارت بند کر رہے ہیں۔
شیر دل مہاتیر محمد نے مگر اس کی کوئی پروا نہ کی۔ بھارتی بغض مگر تھما نہیں۔ 18نومبر 2019 کو بھارتی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے سری نگر میں سینئر انفرمیشن آفیسر، وکرم سہائے، نے مقبوضہ کشمیر کے تمام کیبل آپریٹرز کو حکم دیا کہ ملائشیا کے پروگرام نہ دکھائے جائیں (۲) برطانوی پارلیمنٹ کے سکھ رکن، تن منجیت سنگھ، نے نومبر 2019 کے آغاز میں برٹش پارلیمنٹ میں بھارت کی سخت الفاظ میں گرفت کرتے ہُوئے کشمیریوں کی کھلم کھلا حمایت میں ایک تفصیلی خطاب کیا تو چند دن بعد ہی انھوں نے برٹش میڈیا سے آن دی ریکارڈ شکائت کہ انھیں برطانیہ میں مقیم بی جے پی کے ارکان کی طرف سے سخت دھمکیاں دی جا رہی ہیں (۳) بھارت میں بروئے کار ایمنسٹی انٹرنیشنل کے کارکنوں نے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی ہے تو نریندر مودی کی حکومت نے ایمنسٹی کے دفتر پر دھاوا بول دیا۔
اس دعوے کے ساتھ کہ "یہاں مشکوک سرگرمیاں جاری ہیں۔" اس حملے پر بھارت کو سخت عالمی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے (۴) اُنیس نومبر 2019 کو کمبوڈیا کے دارالحکومت میں ایشیا پیسفک کانفرنس میں پاکستان کی نیشنل اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر، قاسم سوری، نے اپنے خطاب میں کشمیریوں کی حمایت میں لب کشائی کی تو کانفرنس میں شریک بی جے پی کے رکنِ اسمبلی، وجے جولی، غصے سے اُٹھے اور اسٹیج پر جا کر قاسم سوری کی تقریر روکنے کی بیہودہ کوشش کی۔ فوری طور پر گارڈز لپکے اور عالمی آداب سے عاری وجے جولی کو ہال سے باہر نکال پھینکا۔ بھارت اب تک شرمندگی میں ڈوبا پڑا ہے لیکن پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف سازشیں کرنے سے باز نہیں آ رہا۔