اگرچہ "پرانے امریکی صدر" ڈونلڈ ٹرمپ ابھی جنوری2021کے پہلے ہفتے تک اقتدار میں ہیں اور دُنیا کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن جوبائیڈن بھی نئے صدر منتخب ہو کر سامنے آ چکے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو 3نومبر2020کے صدارتی انتخابات میں ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ یوں تو ٹرمپ صاحب کی شکست کے بارے میں دُنیا بھر کے میڈیا نے بڑے دلچسپ پیرائے میں تبصرے کیے ہیں لیکن ایک اہم برطانوی اخبار نے جو کمنٹ کیا ہے، وہ سب سے سوا ہے۔ کہا:" ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست سے یوں محسوس ہُوا ہے جیسے دُنیا بھر کے سر سے بوجھ اُتر گیا ہے۔"یہ بھی لگتا ہے جیسے ٹرمپ کی شکست کا سب سے زیادہ انتظار ٹرمپ کی بیوی، میلانیا ٹرمپ، کو تھا۔
معروف مغربی اخبار(ڈیلی میل) نے اپنی خصوصی خبر میں انکشاف کیا ہے کہ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، امریکی خاتونِ اوّل، میلانیا ٹرمپ، تو ایک ایک دن گن رہی ہیں کہ کب ڈونلڈ ٹرمپ کی مکمل چھٹی ہوتی ہے اور وہ کب وائیٹ ہاؤس سے نکلتے ہیں۔ مگر کیوں؟ اخبار نے اندر کی خبر باہر لاتے ہُوئے لکھا ہے:" میلانیا ٹرمپ نے فیصلہ کررکھا ہے کہ جونہی مسٹر ٹرمپ ایوانِ صدر سے نکلیں گے، میلانیا ٹرمپ انھیں طلاق دے دیں گی۔"
یہ بم خبر اخبار مذکور کے رپورٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک سابق مشیر (Omarosa Manigault Newman)کے حوالے سے دی ہے۔ دُنیا تو ڈونلڈ ٹرمپ کی نفرت انگیز سیاست سے تنگ اور عاجز تھی ہی لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اُن کی گھر والی بھی اُن سے اتنی عاجز آ چکی ہے کہ نوبت طلاق تک پہنچ چکی ہے۔ واضح رہے کہ میلانیا ٹرمپ اپنے شوہر سے 24سال چھوٹی ہیں۔
واقعہ یہی ہے کہ دُنیا کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ کی امتیازی اور نفرت کو فروغ دینے والی سیاست اور اقتدار سے خائف بھی تھا اور تنگ بھی۔ ٹرمپ جب یہ کہتا تھا کہ "مَیں خنزیر کے خون میں گولیاں بھگو کر مسلمان انتہا پسندوں کو مارنا چاہتا ہُوں " تو ہم اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس امریکی صدر کی اصل ذہنیت کیا تھی؟
ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دَور میں اسلامی جمہوریہ ایران کا جس بُری طرح گلا گھونٹنے اور لیبیا، شام اورعراق میں نئے سرے سے ہلاکت خیز آگ لگانے کی ہر ممکن کوشش کی، یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ یہ شخص مجموعی طور پر عالمِ اسلام کے بارے میں کیسے خیالات کا مالک تھا۔ یہ وہی ٹرمپ صاحب ہیں جنھوں نے طاقت و تکبر کے نشے میں یہ بڑ بھی ہانکی تھی کہ "اگر امریکا، ایک عرب شاہی خاندان کی پشت پناہی سے پیچھے ہٹ جائے تو اُن کا اقتدار چند ہفتوں ہی میں گر جائے گا۔"
اگر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی اتحادی کے بارے میں یہ مسموم اور شرمناک خیالات تھے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بقیہ عالمِ اسلام بارے وہ کس اسلوب میں سوچتا ہوگا؟ اسلام، مسلمانوں اور عالمِ اسلام کے بارے میں ٹرمپ کی باطنی چنگیزیت کو چند دن پہلے لندن کے مسلمان میئر، صادق خان، نے بھی بے نقاب کیا ہے۔ صادق خان نےLBCریڈیو کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے:"اپنے چار سالہ دَورِ صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مجھ پر ہمیشہ اس لیے بے رحم تنقید کی کہ مَیں مسلمان ہوں۔ ان پچھلے چار برسوں میں یورپ و امریکا میں رہنے والے مسلمان(ٹرمپ کی وجہ سے) اذیت میں رہے۔
پہلی بار یہ ڈونلڈ ٹرمپ ایسے کسی مغربی سیاستدان کی طرف سے یہ بیانات آئے کہ مغربی دُنیا میں اسلام اور مغرب ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ رویہ دل آزار اور امتیازی تھا۔" 2017 میں جب لندن میں، لنڈن برج، کا دہشت گردانہ حملہ ہُوا تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لندن کے میئر، صادق خان، کے بارے میں نہائت دلشکن بیان دیا تھا۔ اس پر صادق خان نے کہا ہے:" میرے مسلمان ہونے کو بنیاد پر اور سب سے الگ کر کے ٹرمپ مجھ پر حملہ آور ہُوئے۔"برطانیہ کی "مسلم کونسل" نے بھی ٹرمپ کے اس بہیمانہ بیان کی مذمت کی تھی اور صادق خان نے برطانیہ آنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کا استقبال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اب یہ پھڈے باز ڈونلڈ ٹرمپ انتخاب میں شکست کھانے کے بعد داستانِ پارینہ بننے والا ہے۔ پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے تقریباً سبھی ممالک نئے امریکی صدر، جو بائیڈن، کو مبارکبادیں دے چکے ہیں۔ مسلمانوں نے ٹرمپ کی شکست پر سکھ کا سانس لیا ہے۔
ہمارے محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان نے جو بائیڈن کو مبارکباد دیتے ہُوئے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ (۱) ہم نئے امریکی صدر کے ساتھ کام کرنے کے خواستگار ہیں (۲) پاکستان چاہے گا کہ امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا جائے۔ اس پر نقادوں نے کہا ہے کہ جناب عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ افغانستان کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کی بات بھی کرتے۔ ہم سب کو مگر یقین ہے کہ نئے امریکی صدر کے ساتھ چلنے کی خواہش رکھنے والے خانصاحب کے دل و دماغ سے مسئلہ کشمیر اور مظلوم کشمیریوں کی چیخیں غائب نہیں ہُوئی ہیں۔
پاکستان یقیناافغانستان میں امن کے چراغ روشن ہونے کی شدید ترین آرزُو رکھتا ہے کہ خانہ جنگی سے اُدھڑا ہمارا ہمسایہ برادر مسلم افغانستان، پاکستان کے لیے سنگین مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے اکثر ممالک نے جو بائیڈن سے جو بلند توقعات ابھی سے وابستہ کر لی ہیں، کیا یہ درست ہیں؟ کیا نیا امریکی صدر مجموعی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ سے قطعی مختلف ثابت ہوگا؟ واقعاتی دُنیا میں حالات کچھ خاص اُمید افزا نہیں ہیں۔ خصوصاً پاکستان ایسا ملک جس کا رواں لمحوں میں سب سے بڑا دوست ملک چین ہو۔
جو بائیڈن ڈیمو کریٹس پارٹی کے صدر منتخب ہُوئے ہیں اور امریکی ڈیموکریٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ دُنیا کی اہم جمہوریتوں اور جمہوری اداروں کے ساتھی اور ساجھی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم دل کی گہرائیوں سے یہ سمجھتے ہیں کہ اِس وقت واقعی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا پھریرا لہرا رہا ہے اور ہمارے ہر قسم کے حکمران جمہوری رویوں کے حامل اور مالک ہیں تو ہمیں جو بائیڈن سے اچھی توقعات وابستہ کرنی چاہئیں۔ بصورتِ دیگر؟
نئے امریکی صدر صاحب کے معتمد مشیروں اور پالیسی سازوں نے اعلان کیا ہے کہ جو بائیڈن اپنی صدارت کے پہلے ہی سال میں ایک Global Summit for Democracy( جمہوریت کی عالمی سربراہی کانفرنس) بلانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ مقصد؟ To renew the spirit and shared purpose of the nations of the free world۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب اور پاکستان کی مستقل مقتدرہ کو اس بات پر غورو فکر کرنا ہوگا کہ اس سمّٹ میں شریک ہونے کے لیے امریکا بہادر کے نئے صدر اور اُن کے" عالی دماغ" مشیروں نے جن شرائط کو ضروری اور بنیادی قرار دیا ہے، آیا اسلامی جمہوریہ پاکستان ان شرائط پر پورا اُترتا ہے؟
کیا اسلامی جمہوریہ ایران، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست پر بجا طور پر خوش ہے، بھی ان شرائط پر پورا اُترنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا امریکا، ٹرمپ کے برعکس، ایران کا ناطقہ بند کیے رکھنے کی روش سے باز آ جائے گا؟ کیا نیا امریکی صدر بھی سعودی شاہی خاندان سے بہتر تعلقات استوار رکھے گا؟ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے باطن سے واقفیت رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کی یہ "جمہوریتوں کی عالمی کانفرنس" دراصل نئے انداز سے چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہی ہے تو پاکستان کیونکر جو بائیڈن صاحب کا سنگی ساتھی ثابت ہو سکے گا؟ ذرا غور فرما لیجیے!