نام اُس کا محمد اخلاق سلیمانی ہے۔ شہریت بھارتی، عمر28 سال، پیشہ حجام، رہنے والا سہارنپور کا۔ پچھلے ماہ، اگست کی 24تاریخ کو، وہ غربت و عسرت سے تنگ آکر ملازمت اور کام کی تلاش میں سہارن پور سے نکلا اور پانی پت روانہ ہوگیا۔
پانی پت کے مضافات میں کٹر ہندوؤں کا ایک محلہ " کشن پورہ" ہے۔ کشن پورہ پہنچ کر اخلاق سلیمانی سستانے کے لیے ایک چھوٹے سے پارک میں بیٹھا تھا کہ چار پانچ نوجوان ہندو غنڈے بھی وہیں آ ٹپکے۔ انھوں نے اخلاق سے اُس کا نام اور اتہ پتہ پوچھا۔ یہ معلوم کرکے کہ یہ شخص مسلمان ہے اور اجنبی ہے، اُس پر ٹوٹ پڑے۔ تشدد میں محمد اخلاق سلیمانی بے ہوش ہو گیا۔ ہوش آیا تو وہ کراہتا ہُوا پارک کے سامنے ایک مکان کے پاس پہنچا اور دروازے پر دستک دی تاکہ پانی مانگ سکے۔ دروازہ کھلا تو گھر کے ہندو مکین مردوں نے اخلاق کا جائزہ لیا اور اُسے گھسیٹ کر اندرلے گئے۔
سب سے پہلے یہ پوچھا کہ یہ تم نے اپنے دائیں بازو پر 786کیوں کھدوا رکھا؟ اخلاق سلیمانی نے جھجکتے ہُوئے بتایا: ہم مسلمان بسم اللہ شریف لکھنے کے بجائے بعض اوقات برکت کی خاطر یہ 786لکھ لیتے ہیں۔ یہ سن کر کشن پورہ کے ہندو آگ بگولہ ہو گئے اور مغضوب الغضب ہو کر محمد اخلاق سلیمانی کا وہ دایاں بازو کلہاڑی سے کاٹ ڈالا جس پر 786کھدوایا گیا تھا۔ ظالم ہندو نوجوان پھر اپنے شکار کو اٹھا کر ساتھ گزرنے والی ریل کی پٹڑی پر لے گئے اور وہیں پھینک دیا، یہ سوچ کر کہ لوگ سمجھیں گے کہ کسی گزرتی ریل گاڑی نے اس کا بازو کاٹ پھینکا ہے۔
شدید درد اور تشدد میں محمد اخلاق بیہوش ہو چکا تھا۔ وہ خوش قسمت تھا کہ اس دوران وہاں سے کوئی ٹرین بھی نہیں گزری تھی۔ ہوش آیا تو اُس نے ایک راہگیر کو مدد کے لیے پکارا۔ منظر دیکھ کر راہگیر پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اُس نے پولیس کو مطلع کیا۔ پانی پت کی پولیس آئی، اخلاق سلیمانی کو اٹھایا اور ہلکی سی مرہم پٹی کروا کر اُسے زبردستی سہارن پور روانہ کر دیا۔
غربت رسیدہ گھر والوں نے محمد اخلاق سلیمانی کی یہ حالت دیکھی تو غضبناک ہو گئے۔ اخلاق کا چھوٹا بھائی، اکرام، پولیس اسٹیشن گیا۔ بڑی مشکل سے 7ستمبر2020 کو ایف آئی آر کٹی لیکن پانی پت کا سینئر پولیس آفیسر، ستیش کمار، یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اخلاق سلیمانی کا بازو متشدد ہندوؤں نے محض اس لیے کاٹ ڈالا ہے کہ وہاں 786لکھا گیا تھا۔ اُلٹا ستیش کمار نے اپنی تفتیشی رپورٹ میں لکھا: " اخلاق سلیمانی نے اپنے محلے کے ایک کمسن بچے سے بد اخلاقی کی تھی۔
پکڑے جانے کے خوف سے بھاگ نکلا۔ بد حواسی کے عالم میں ریل کی پٹڑی پر گرا اور اپنا بازو کٹوا لیا۔" سہارن پور سے منتخب ہونے والے مسلمان رکن اسمبلی، فضل الرحمن، بھی ابھی تک مظلوم و مجروح اور مضروب اخلاق رحمانی کی کوئی مدد نہیں کر سکے ہیں۔ بھارت کے تقریباً سارے مین میڈیا نے یہ سانحہ رپورٹ کیا ہے لیکن کوئی بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ محمد اخلاق سلیمانی کو بازو پر صرف 786لکھنے کی سزا دی گئی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ سہارن پور کے غریب اوربے نوا مسلمان حجام، محمد اخلاق سلیمانی، پر جو ظلم ہُوا ہے، ہم پاکستان میں اپنی محترم اقلیتوں کے کسی فرد کے بارے میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ممکن ہے پاکستان میں اقلیتوں کے لیے حالات آئیڈیل نہ ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری اقلیتیں بھارت میں بسنے والی جملہ اقلیتوں سے بدرجہا بہتر، آزاد اور خوشحال ہیں۔ اس کی حالیہ مثال رواں مہینے ہی سامنے آئی ہے جب 14افراد پر مشتمل پاکستانی ہندوؤں کا ایک خاندان دوبارہ پاکستان پہنچا ہے۔
یہ خاندان کئی ماہ پہلے بہتر اور آئیڈیل مستقبل کی تلاش میں پاکستان سے ہجرت کرکے بھارت چلا گیا تھا۔ مذکورہ خاندان کے دونوں سربراہوں ( کنہیا لال اور مانک رام) نے بھارت سے تنگ آ کر واہگہ بارڈر کراس کرتے ہی پاکستانی سرزمین پر پاؤں رکھتے ہُوئے کہا: "ہم نرکھ( جہنم) سے نجات حاصل کر کے دوبارہ سورگ( جنت) میں داخل ہو گئے ہیں۔"
کنہیا لال صاحب اور مانک رام صاحب کا یہ اعتراف در حقیقت اس امر کا بھی اظہار ہے کہ پاکستان صرف پاکستانی مسلمانوں کے لیے ہی نعمتِ کبریٰ نہیں ہے، یہ ملک پاکستانی ہندوؤں، پاکستانی مسیحیوں اور پاکستانی سکھوں کے لیے بھی عظیم نعمت ہے۔ پاکستان کی چھتر چھایا دراصل پاکستان کے غریب طبقات کے لیے تو خاص طور پر بیش بہا نعمت ہے کہ انھیں اِسی پاک سرزمین میں جینا اور مرنا ہے، اِسی کا دم بھرنا ہے اور اِسی سے وفا داری کے گیت گانے ہیں۔ اِسی لیے تو کنہیا لال اور مانک رام نے پاکستان واپس آتے ہی کہا: "بھارت کی سرزمین ہمارے لیے سراب ثابت ہُوئی "۔
اس پس منظر میں اسپیکر پنجاب اسمبلی، چوہدری پرویز الٰہی، نے بجا کہا ہے کہ "بھارت سے ہندو خاندان کی پاکستان واپسی دراصل پاکستان کے پُر امن ہونے کا ثبوت ہے۔"یہ الفاظ چوہدری صاحب نے اُس وقت کہے جب بشپ آف پاکستان (سبسٹین فرانسس) کی قیادت میں کئی مسیحی لیڈرز اسپیکر صاحب سے ملنے گئے تھے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستانی ہندوؤں کا ایک اور قافلہ بھی بہتر سماجی اور معاشی مستقبل کی خاطر بھارت جا بسا تھا۔ یہ کئی افراد پر مشتمل تھا۔ پچھلے دنوں خبر آئی کہ ان پاکستانی ہندوؤں کے گیارہ افراد بھارتی ریاست (راجستھان) کے علاقے "جودھ پور" میں مبینہ طور پر بھوک کے مارے موت کا لقمہ بن گئے۔
یہ تعلیم یافتہ پاکستانی ہندو مالی تنگدستی کے ہاتھوں جودھ پور کے کھیتوں میں محنت مزدوری کرنے پر لگا دیے گئے۔ وہیں بالآخر جان کی بازی ہار گئے۔ اب بھارت شرمندگی اور خوف کے مارے پاکستان کو ان مرنے والے ہندوؤں کی تفصیلات دینے سے بھی گریزاں ہے۔
یہ بھی خبریں ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی نے ان مہاجر ہندوؤں کو پاکستان کے خلاف اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کی۔ انکار پر مبینہ طور پر انھیں مار ڈالا گیا۔ ابھی 26ستمبر2020 کو "پاکستان ہندو کونسل " کی اپیل پر اور ڈاکٹر رمیش کمار کی قیادت میں درجنوں پاکستانی ہندوؤں نے اسلام آباد میں ڈپلومیٹک انکلیو کے سامنے بھارت کے خلاف دو روزہ دھرنا دیا ہے۔
ان سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ بھارت جودھ پور میں قتل کیے جانے والے پاکستانی ہندوؤں کا حساب دے۔ بھارتی حکومت مگر حساب دینے کے بجائے فرار کا راستہ اختیار کررہی ہے۔ بھارت نے وزیر اعظم نریندر مودی کی متعصبانہ قیادت میں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے بھارت جانے والے ہندوؤں، سکھوں اور مسیحیوں کو "تیزی سے" بھارتی شہریت دینے کا ایک ڈھونگ ضرور رچایا تھا لیکن اب اس ڈھول کا پول بھی پوری طرح کھل چکا ہے۔