Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pehle Tayyip Erdogan Aur Ab Antonio Guterres

Pehle Tayyip Erdogan Aur Ab Antonio Guterres

صرف دو دن کے وقفے میں دوسری بڑی عالمی شخصیت پاکستان کے دَورے پر ہے۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی بھی ہے اور بین الاقوامی برادری کا پاکستان پر اعتبار بھی۔ پچھلے ہی ہفتے پاکستان کے معتمد اور معتبر دوست ملک، ترکی، کے عظیم صدر، جناب طیب اردوان، نے پاکستان کا کامیاب دَورہ کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے جس طرح خود اپنے معزز ترک مہمان کی گاڑی ڈرائیو کی، اس سے بھی اپنائیت جھلکتی ہے۔

لاریب پاکستان اور ترکی اخوت و محبت کے دیرینہ اور مضبوط تعلقات کی ایک دلنواز کہانی ہے۔ ترکی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اور ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارمز پر جس طرح پاکستان کی حمایت اور دستگیری کی ہے، ہم سب عوامی جمہوریہ ترکیہ اور عظیم ترک صدر کے شکر گزار ہیں۔

ملائیشیا کی مانند ترکی نے بھی ہر عالمی پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کی کھلے دل سے حمایت کرکے پاکستان اور اہلِ پاکستان کے دل موہ لیے ہیں۔ طیب اردوان گذشتہ ہفتے پاکستان تشریف لائے تو جہاں انھوں نے حکومتِ پاکستان کے ساتھ 13 مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، وہاں جناب اردوان نے مسئلہ کشمیر کو "اپنا مسئلہ" بھی قرار دیا ہے۔ بلاشبہ مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین کے مظلومین کے حق میں جناب طیب اردوان کی اُٹھنے والی آواز میں کوئی شبہ ہے نہ کوئی لرزش۔ جس کھلے اور بیباک لہجے میں اردوان صاحب نے مسئلہ کشمیر کی حمایت کی ہے، لندن میں براجمان میاں شہباز شریف نے بھی اس کی ستائش کی ہے۔ یہ جرأتمند لہجہ ہے بھی قابلِ ستائش۔ لیکن ہمارے ہاں کسی کا یہ کہنا شائد بجا نہیں تھا کہ طیب اردوان اگر پاکستان میں الیکشن لڑیں تو بھاری ووٹوں سے جیت جائیں۔ ہمیں اپنے وفور اور محبت کی لگام کو کھینچ کر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔

اندازہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر اور کشمیریوں بارے طیب اردوان صاحب نے جس دبنگ لہجے میں بات کی ہے، بھارت کی طرف سے فوری ردِ عمل بھی آئے گا؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ردِ عمل آیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، رویش کمار، نے کہا ہے :" جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ اور جزوِ لاینفک ہے، اس لیے ترک قیادت کو چاہیے کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔"بھارت نے پچھلے ڈیڑھ ماہ سے مقبوضہ کشمیر کا جس طرح ظالمانہ محاصرہ کررکھا ہے، اِس سے بھی ساری دُنیا پر عیاں ہو گیا ہے کہ کشمیر کتنا اور کہاں تک بھارت کا "اٹوٹ انگ" ہے۔

کوئی غیر ملکی شخصیت پاکستان کے دَورے پر تشریف لاتی ہے تو بھارت کے پیٹ میں ویسے بھی مروڑ اُٹھنے لگتے ہیں۔ طیب اردوان کے بعد اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس، چار روزہ دَورے پر(16تا 19فروری2020) پاکستان تشریف لائے ہیں تو بھی بھارت کی بھنویں تَن گئی ہیں۔ شائد اس لیے بھی کہ انتونیو گوتریس بھی تنازع کشمیر کے حل کے لیے بھارت کو پاکستان کے ساتھ مل بیٹھ کر مذاکرات کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان تو بھارت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے لیکن بزدل بھارت ہر بار طرح دے جاتا ہے۔

بھارت کو اب خدشہ یہ ہے کہ ایل او سی کے ساتھ ساتھ اُس نے زیادتیوں اور ظلم کا جو بازار گرم کررکھا ہے، پاکستان پوری تفصیل کے ساتھ یہ احوال جناب انتونیو گوتریس کے گوش گزارے گا۔ سچ یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ سے جتنا تعاون پاکستان کررہا ہے، بھارت اپنے کسی زعم میں مبتلا ہو کر ڈاج دینے کی کوشش کرتا ہے۔ جناب انتونیو گوتریس اس دَورے میں اپنی آنکھوں سے یہ بھی ملاحظہ کریں گے کہ پچھلے 40برسوں سے پاکستان نے اپنی معاشی کمزوریوں کے باوجود کس پامردی اور اخوت کے جذبوں کے تحت لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے، قیامِ امن کی عالمی جدوجہد کے سلسلے میں، پاکستانی فوجی اور پولیس کے دستے دُنیا کے مختلف ممالک میں بھی شاندار کردار ادا کررہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل جہاں رواں ہفتے پاکستان کے تاریخی دورے پر ہیں، وہاں اقوام متحدہ میں پاکستانی خواتین پیس کیپرز(peace keepers) کی کارکردگی کا خوب چرچا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ، ایلس ویلز، بھی پاکستانی خواتین فوجی افسران کی کارکردگی اور خدمات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں۔ ایلس ویلز نے پاکستانی خواتین کی تعریف و ستائش کرتے ہُوئے ایک ٹویٹ یوں کی ہے :" کانگو میں اقوامِ متحدہ کی امن فوج میں خدمات انجام دینے والی پاکستانی خواتین سے مَیں متاثر ہوں۔ پاکستانی خواتین افسران نے مقامی آبادی کا اعتماد جیتنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔" پاکستانی خواتین کے لیے ایلس ویلز کی یہ تعریف اس وقت سامنے آئی ہے جب اقوامِ متحدہ کی طرف سے ہماری بہادر اور اہل باوردی خواتین کو تمغے دیے گئے ہیں۔ حال ہی میں " کانگو"( بد امنی کا شکار افریقی ملک) میں پاکستانی خواتین پر مشتمل امن فوجیوں کے 15 رکنی دستے کو بہترین کارکردگی پر میڈل سے نوازا گیا ہے۔

یہ ٹیم اقوام متحدہ کے دنیا بھر میں موجود امن دستوں کی پہلی ٹیم ہے جو صرف خواتین افسران پر مشتمل ہے۔ اس پاکستانی ٹیم میں ماہر نفسیات، ڈاکٹرز، نرسز، انفارمیشن آفیسر، لاجسٹک آفیسر سمیت دیگر افسران شامل ہیں جنھوں نے انتہائی لگن اور انتھک محنت کے ساتھ دیارِ غیر میں پیشہ وارانہ کارکردگی سے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ رواں لمحوں میں اقوامِ متحدہ کے مختلف امن مشنز میں 78 پاکستانی پیس کیپرز خواتین افسران عظیم مقصدمیں شریک ہیں۔

19 جون 2019 کو " کانگو "میں پاکستانی خواتین افسران کی پہلی ٹیم تعینات ہوئی۔ اس وقت" کانگو" میں پاکستانی خواتین پیس کیپرز کی دو ٹیمیں کام کر رہی ہیں جب کہ تیسری ٹیم سینٹرل افریقن ری پبلک میں اگلے ماہ( 20 مارچ 2020) سے کام شروع کر دے گی۔ مجموعی طور پر اب تک 450 پاکستانی پیس کیپرز خواتین افسران مختلف مشنز میں کام کر چکی ہیں۔ ٹیم ورک کے ساتھ ساتھ انفرادی کارکردگی میں بھی سب سے آگے ہیں۔ 2019 کے کانگو مشن میں بہترین کارکردگی پر پاکستان کی میجر سمعیہ کو اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل کے نمایندہ خصوصی کی جانب سے خصوصی سند سے نوازا گیا۔

پانچ گھنٹے میں پچیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے والی واحد خاتون افسر کا اعزاز بھی پاکستان کی میجر عروج عارف نے حاصل کیا۔ پاکستان ہی کی میجر سعدیہ کو دو سال کے لیے اقوام متحدہ کی ٹریننگ ٹیم کا حصہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انتالیس پاکستانی خواتین پیس کیپرز سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ اسٹیبیلیٹی سے تربیت یافتہ ہیں جب کہ 23 پاکستانی پیس کیپرز خواتین نے عالمی اداروں سے تربیت حاصل کی ہے۔ عالمی امن کے لیے پاکستان کا انتہائی اہم کردار ہے۔ اقوام متحدہ امن مشنز میں پاک فوج ہمیشہ سب سے آگے رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب انتونیو گوتریس پاکستان کا یہ چار روزہ تاریخی دورہ ایک طرح سے اقوام متحدہ میں پاکستان کی اعلیٰ خدمات کا اعتراف بھی ہے۔ اس دورے کے ذریعے اقوام عالم میں پاکستان کی عالمی امن کے لیے دی گئی قربانیاں مزید اجاگر ہوں گی۔

پاکستان کے دَورے پر تشریف لانے والے 70سالہ انتونیو گوتریس ایک غیر معمولی شخصیت ہیں۔ بنیادی طور پر انجینئر مگر معروف سیاسی مدبر بھی۔ آپ سات سال تک پرتگال کے وزیر اعظم بھی رہے ہیں۔ مشرقی تیمور کا تنازع حل کروانے میں بنیادی کردار ادا کر چکے ہیں۔ عالمی ہجرت کے عذابوں سے بھی خوب آشنا ہیں۔ اِنہی تجربات کے تحت اقوامِ متحدہ کی طرف سے مہاجرین کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہائی کمشنر بھی متعین ہُوئے اور دس سال تک یہ عہدہ نبھاتے رہے۔ اس پس منظر میں پاکستان بجا طور پر جناب انتونیو سے یہ اُمید رکھتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کروانے کی بھی کوئی سبیل نکالیں گے اور مشاہدات کے بعد اس امر پر بھی غور فرمائیں گے کہ پاکستان کو لاکھوں افغان مہاجرین کے کمر شکن بوجھ سے کیسے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ افغان مہاجرین کے لیے میزبانی کے چالیس سال کچھ کم نہیں ہوتے۔ افغان مہاجرین سے متعلق عالمی کانفرنس میں شرکت جناب انتونیو گوتریس کے دَورئہ پاکستان میں مرکزی مقام رکھتی ہے۔