میرے ایک سینئر بیوروکریٹ دوست جن کا نام ان کے بلند اور حساس عہدے کے سبب خبروں میں گونجتا تو رہتا ہی ہے لیکن میری جب بھی اور جہاں بھی اُن سے ملاقات ہُوئی ہے، سیاسی اور حکومتی معاملات کے برعکس ہمیشہ لٹریچر اور نئی کتابوں کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔
وہ اپنے قریبی عزیزوں اور دوست احباب میں "پروفیسر" کے نام سے جانے اور پکارے جاتے ہیں۔ مقابلے کا امتحان پاس کرنے اور بیوروکریسی کا رکن بننے سے قبل آپ گجرات کے مشہور "زمیندار" کالج سے دوسال تک وابستہ رہے ہیں۔ وہ کتابوں سے جنون کی حد تک محبت رکھتے ہیں۔
خصوصاًپاکستان کے حوالے سے عالمی سطح پر شایع ہونے والی کسی بھی معروف کتاب کو فوری حاصل کرنا اُن کا دل پسند مشغلہ ہے۔ کتاب کا عاشقِ صادق ایسا بیوروکریٹ کم کم دیکھا ہے۔ گزشتہ روز بھی اُن سے ملاقات ہُوئی تو انھیں پاکستان کے بارے میں برطانیہ میں شایع ہونے والی ایک نئی کتاب پڑھتے ہُوئے دیکھا۔ کتاب کا موضوع دیکھ کر میرا جی بھی للچا گیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوصف وہ کتابیں پڑھنے کا وقت کیسے نکال لیتے ہیں؟ دو ماہ قبل انھوں نے امریکا میں شایع ہونے والی ایک نئی کتاب مجھے تحفتاًاور محبتاً عنایت فرمائی۔ یہ کتاب پڑھ کر حیرت ہوئی کہ مغربی ممالک اور شمالی امریکا میں کیسے کیسے انوکھے اور دلکش موضوعات پر محنت سے کتابیں لکھی جاتی ہیں۔
ان کی طرف سے عنایت کردہ یہ کتاب اُن امریکی صدور کے بارے میں ہے جو قصرِ صدارت سے نکل چکے ہیں۔ اس تصنیف کا نام ہے: SECOND ACTSاور اسے Mark K Updegroveنے لکھا ہے۔ امریکا کے سابق 9صدور کے بارے میں 321صفحات پر مشتمل اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدور ہیری ایس ٹرومین، آئزن ہاور، ایل بی جانسن، رچرڈ نکسن، جیرالڈ فورڈ، جمی کارٹر، رونالڈ ریگن، جارج بش اور بِل کلنٹن قصرِ صدارت ( وہائیٹ ہاؤس) سے نکلنے کے بعد زندگی کے بقیہ ایام کیسے گزارتے رہے اور کیسے گزار رہے ہیں؟ گویا یہ ان ریٹائرڈ امریکی صدور کی زندگی کا دوسرا دَور ہے۔
اس لحاظ سے اس کتاب کا عنوان (سیکنڈ ایکٹس) نہایت مناسب رکھا گیا ہے۔ مَیں نے یہ کتاب آخر سے شروع کی، بل کلنٹن کے تذکرے سے کہ راقم نے کلنٹن صاحب کا دَورِ صدارت امریکا میں بھی دیکھا ہے اور پاکستان میں بھی بھگتا ہے۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدور اپنے اقتدار سے فارغ ہو کر اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتابیں لکھتے ہیں، یونیورسٹیوں میں لیکچرز دیتے ہیں، اپنی قوم کے نوجوانوں کی رہنمائی کرتے ہیں، اپنے نام کی لائبریریاں اور تحقیقی علمی ادارے قائم کرتے ہیں لیکن قصرِ صدارت سے نکلنے کے بعد قصرِ صدارت میں داخل ہونے والے نئے مکین کی راہیں کاٹتے ہیں نہ اُن کی ٹانگیں کھینچتے ہیں اور نہ ہی عملی طور پر سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔
ہمارے ہاں مگر اقتدار سے فارغ ہونے والے صاحبان اور اُن کی جماعتیں نئے منتخب ہونے والے حکمران کی راہوں میں جس طرح کے "تعاونی پھول" بکھیرتے ہیں، یہ نظارے ہم تقریباً ہر روز ہی ملاحظہ کرتے ہیں۔
سابق امریکی صدر، بل کلنٹن، کو قصرِ صدارت سے نکلے 19سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک تین باتیں اُن کے تعاقب میں ہیں (1) وہ بطورِ امریکی صدر وہائیٹ ہاؤس کی ایک زیر تربیت نوجوان خاتون، مونیکا لیونسکی، سے جنسی اسکینڈل میں ملوث رہے(2) انھوں نے اپنی صدارت کے آخری سال میں ایک لاکھ90ہزار ڈالر کے تحائف وصول کیے جب کہ قانون کے مطابق وہ صرف 50 ڈالر مالیت کا تحفہ لے سکتے تھے (3) قصرِ صدارت کو خیرباد کہنے سے چند ہفتے قبل انھوں نے 140افراد کی سزائیں معاف کر دی تھیں۔
ان میں ایک دولتمند شخص مارک رِچ بھی تھا جس پر ٹیکس چوری کے سنگین الزام عائد تھے اور وہ امریکا سے فرار ہو کر سوئٹزرلینڈ اور اسرائیل میں دن گزار رہا تھا۔ بل کلنٹن نے اُسے محض اس لیے معاف کر دیا کیونکہ مارک رِچ نے کلنٹن کے صدارتی انتخابات پر لاکھوں ڈالرز خرچ کیے تھے۔
اس شخص کی معافی کی سفارش کرنے والوں میں اسرائیلی وزیر اعظم، ایہود باراک، بھی شامل تھے۔ بل کلنٹن نے قصرِ صدارت سے نکلنے کے بعد کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ ٹیکس چوری کرنے والے اس شخص کو معاف کرنا غلطی تھی۔ کہا: "اس غلطی نے مجھے داغدار کیا ہے۔" کتاب کا مصنف حیران ہے کہ ان غلطیوں کے باوصف بل کلنٹن جب صدارت سے فارغ ہُوئے توعوام میں اُن کی مقبولیت کی شرح65 فیصد تھی۔ ایسی مقبولیت نہ تو رونالڈ ریگن کو مل سکی تھی اور نہ ہی جان ایف کینیڈی ایسے سابق امریکی صدور کو، حالانکہ کینیڈی تو امریکیوں کا ڈارلنگ صدر رہا ہے۔ بل کلنٹن جس بُری طرح مونیکا لیونسکی کے ساتھ جنسی اسکینڈل میں داغدار ہُوئے تھے۔
اس کی تحقیقات پر (کتاب کے مطابق) 73ملین ڈالرز خرچ ہُوئے لیکن نکلا کیا؟ کلنٹن نے صدارت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں یوں شکوہ کیا: "مجھے خوار کرنے کے لیے تحقیقات کے نام پر 73 ملین ڈالرز توخرچ کر ڈالے گئے لیکن ثابت کیا ہُوا؟ قوم کو کیا ملا؟ افسوس میری قومی خدمات کو مٹّی میں ملانے کی کوشش کی گئی۔"
قصرِ صدارت سے نکلنے کے بعد بل کلنٹن اور اُن کی اہلیہ، ہیلری کلنٹن، نے نیویارک کے مضافات میں تقریباً ڈیڑھ ملین ڈالر کا گھر خریدا۔ یہ دونوں میاں بیوی کی حلال اور محنت کی کمائی تھی۔ گھر کی خریداری کے لیے بینک سے قرضہ بھی لیا گیا لیکن امریکی میڈیا نے شور مچاتے ہُوئے یہ احتسابی مطالبہ بھی کر ڈالا: بتایا جائے کہ یہ رقم بل کلنٹن نے کہاں سے اور کیسے حاصل کی ہے؟
قصرِ صدارت سے نکلنے کے بعد بل کلنٹن کی خواہش تھی کہ وہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بن جائیں۔ اس خواہش پر امریکی میڈیا میں بڑی مخالفانہ ہلچل پیدا ہُوئی تھی۔ نتیجتاً کلنٹن کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا، بالکل اسی طرح جیسے نوجوانی کے ایام میں پہلے انھوں نے محبوب ترین امریکی سنگر، ایلوس پریسلے، سے متاثر ہو کر بڑا گلوکار بننے کاخواب دیکھا تھا اور پھر ڈاکٹر بننے کا۔ قصرِ صدارت سے نکلے تو بل کلنٹن کی سالانہ پنشن ایک لاکھ 80 ہزار ڈالرز مقرر کی گئی لیکن یہ ناکافی تھی؛ چنانچہ انھوں نے ملکی اور عالمی سطح پر تقریریں کرنے کا معاوضہ حاصل کرنے کی بھی ٹھانی اور کتابیں لکھ کر بھی۔"سیکنڈ ایکٹس" نامی یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ قصرِ صدارت سے نکلنے کے بعد پہلے سال میں بل کلنٹن نے تقریریں کر کے 9.2 ملین ڈالرز کمائے۔
اس کے علاوہ اپنی سیاسی زندگی اور صدارتی ایام کے تجربات پر مشتمل اپنی سوانح حیات لکھ کر بھی بھاری رقم کمائی۔ یہ سوانح حیات My Lifeکے زیر عنوان شایع ہُوئی اور کلنٹن کے پبلشرKnopfنے انھیں 12ملین ڈالر پیش کیے۔ یہ کتاب دُنیا کی30 زبانوں میں ترجمہ ہو کر شایع ہو چکی ہے۔
بل کلنٹن نے جنوبی افریقہ کے ممتاز اور محترم سیاستدان، نیلسن مینڈیلا، سے مل کر "ایڈز" کے خاتمے اور "ایڈز" کے نادار مریضوں کی امداد کے لیے کئی عالمی کانفرنسوں میں مفت شرکت کی۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کی کاوشوں کے کارن اب تک دو لاکھ سے زائد ایڈز کے مریض صحتیاب ہو چکے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ قصرِ صدارت سے نکلنے کے بعد سابق امریکی صدر، بل کلنٹن، نسلِ انسانی کے زیادہ کام آ رہے ہیں۔ اور ہاں، ہمارے ہاں بھی تین سابق صدور ایوانِ صدر سے نکلنے کے بعد، ماشاء اللہ، ابھی حیات ہیں۔ کیا آپ نے کبھی انھیں پاکستان کی کسی معروف یونیورسٹی سے خطاب کرتے دیکھا اور سنا ہے؟