Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Quaid e Azam, Yom e Difa Aur General Aslam Baig Ka Eteraf

Quaid e Azam, Yom e Difa Aur General Aslam Baig Ka Eteraf

چند دن قبل لاہور میں جناب شاہد رشید سے اُن کے دفتر میں ملاقات ہُوئی۔ شاہد رشید صاحب نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکریٹری ہیں۔ ٹرسٹ کے پاس دو شاندار اور پُر شکوہ دفاتر ہیں۔ پرانا اور کلاسیکی دفتر لاہور کی اَپر مال روڈ (شاہراہِ قائد اعظم) پر اور دوسرا دفتر جوہر ٹاؤن میں بروئے کار ہے۔

نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ پبلی کیشنزجناب نعیم احمد کی معیت اور قیادت میں شاہد رشید سے ملاقات خاصی معلومات افزا رہی۔ باہر بارش کی رم جھم تھی اور ہم اندر نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکریٹری صاحب سے باتیں کر رہے تھے۔ بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت، خدمات اور افکار گفتگو کا مرکز و محور تھے۔

قائد اعظم کے افکار کی ترویج و اشاعت میں، شاہد رشید صاحب کی زیر قیادت، ادارۂ مذکور مقدور بھر اپنا احسن کردار ادا کررہا ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے مال روڈ والے دفتر کی سب سے اہم ترین اور پُر کشش بات یہ ہے کہ یہاں ہمیں بانیِ پاکستان کی کئی انمول اور نایاب تصاویر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ تصاویر یقیناً ہمارا قیمتی قومی اثاثہ ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر بابائے قوم حضرت قائد اعظم ؒ سے محبت مزید بڑھ جاتی ہے۔

اس ملاقات کے اختتام پر شاہد رشید صاحب نے محبت اور اپنے دستخطوں کے ساتھ ہمیں تین کتابیں بھی عنایت فرمائیں۔ چار صد سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب " افکارِ قائد اعظمؒ "میرے لیے سب سے زیادہ اس لیے بھی خصوصی حیثیت رکھتی ہے کہ اس میں موضوعات کے اعتبار سے قائد اعظم کے ارشاداتِ گرامی کو الگ الگ شایع کیا گیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسی کتاب کی تلاش بھی تھی۔

"افکارِ قائد اعظم" کو شاہد رشید صاحب نے خود مرتب کیا ہے۔ آج جب کہ ہم سب 6ستمبر کے حوالے سے یومِ دفاعِ پاکستان (ڈیفنس ڈے) منا کر اپنے عظیم الشان غازیوں اور پاکباز شہدا کو یاد کرتے ہُوئے انھیں خراجِ عقیدت و محبت پیش کر رہے ہیں، پاکستان کے دفاع بارے حضرت قائد اعظم کے ارشادات بھی یاد آ رہے ہیں۔

یہ ارشادات ہمارے لیے اور خاص طور پر ہماری مسلّح افواج کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر "افکارِ قائد اعظم" نامی کتابِ مذکور میں قائد اعظم کا یہ ارشاد:"ہر چند کہ ہم اقوامِ متحدہ کے منشور کی پوری تائید کرتے ہیں، پھر بھی اپنے دفاع کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتے۔ اقوامِ متحدہ کا ادارہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہوجائے، اپنے وطن کے دفاع کی بنیادی ذمے داری ہماری ہی رہے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان تمام خطرات اور آنے والے حوادث سے مقابلے کے لیے بالکل تیاررہے۔

اس ناقص دُنیا میں کمزوری اور نہتا پَن دوسروں کو حملہ کرنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے لیکن امنِ عالم کی بہتری یونہی ہو سکتی ہے کہ ہم اُن لوگوں کو جو ہمیں کمزور سمجھ کر ہم پر حملہ کرنے یا چھا جانے کی نیت رکھتے ہوں، موقع نہ دیں۔ یہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب ہم اتنے مضبوط ہو جائیں کہ کسی کو ہماری طرف بُری نیت سے دیکھنے کی جرأت نہ ہو سکے "۔ (پاکستان نیوی سے خطاب، 23جنوری1948) پاکستان کے دفاع کو مضبوط کرنے کی زبردست خواہش رکھنے اور دفاعِ پاکستان سے کبھی غافل نہ رہنے والے قائد اعظم علیہ رحمہ نے ایسے ہی کئی خطابات پاکستان کی برّی افواج اور پاکستان فضائیہ سے بھی کیے۔ ان دمکتے چمکتے خطابات کا مکمل تذکرہ ہمیں شاہد رشید کی مرتب کردہ کتاب میں ملتا ہے۔

یہ عجب اتفاق ہے کہ ستمبر کے مہینے میں 6ستمبر کی پاک بھارت جنگ ہُوئی، اِسی ماہ کے دوسرے ہفتے بانیِ پاکستان رحلت فرما گئے اور اب اِسی مہینے کی پہلی تاریخ کو مقبوضہ کشمیر کے سب سے بڑے مجاہد و حریت پسند لیڈر سید علی گیلانی اللہ تعالیٰ سے جا ملے ہیں۔ اور 56سال قبل اگر بھارت کے ساتھ 6ستمبر کو پاکستان کی جنگ نہ ہوتی تو شاید ہم اقتصادی اورعسکری اعتبار سے مزید قوی اور طاقتور ہوتے۔ چھ ستمبر 1965 کو بہرحال پاکستان نے اپنے سے کئی گنا بڑاحجم رکھنے والے دشمن، بھارت، کا مقابلہ تو خوب کیا۔

پاکستان کا دفاع کرنا آسان نہیں تھا لیکن ہماری جری افواج، جوانوں اور افسروں نے جم کر جنگ کی۔ لاہور ایسے اہم ترین شہر کو یلغار کرتے دشمن سے اپنا خون دے کر محفوظ کیے رکھا۔ پاکستان کے عوام اور پاکستان کی فوج نے یکجہتی اور اتحاد کی ہمیشہ زندہ رہنے والی مثالیں قائم کیں۔

جنگِ ستمبر کے حوالے سے ہم اگرچہ " یوم الفتح" تو نہیں مناتے لیکن "یومِ دفاع" منا کر بھی ہم اور عساکرِ پاکستان اپنے بدخواہوں اور دشمنوں کو مضبوط پیغام دیتے ہیں۔ یہ پیغام پچھلے ساڑھے پانچ عشروں سے مسلسل جاری ہے۔ جنگِ ستمبر کے حوالے سے افواجِ پاکستان کے سابق سربراہ، جنرل (ریٹائرڈ) اسلم بیگ صاحب، نے اپنی تازہ ترین کتاب میں جو بیان دیا ہے، پڑھ کر اچھا نہیں لگا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہمیں نصابوں میں اس کے برعکس پڑھایا گیا۔ جنرل بیگ نے اپنی سوانح حیات(اقتدار کی مجبوریاں) میں یوں ارشاد فرمایا ہے:"ہم ستمبر1965 کی جنگ جیت سکتے تھے لیکن ناکام رہے۔"

سچی بات یہ ہے کہ جنگِ ستمبر کے حوالے سے جنرل اسلم بیگ کے اس غیر معمولی اعتراف نے یومِ دفاعِ پاکستان کے حوالے سے ہمیں بے مزہ کر دیا ہے۔ حقائق کی دُنیا شاید اِسی لیے زیادہ تلخ ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر پاکستان کے منصوبہ سازوں نے "آپریشن جبرالٹر" کی سائنسی بنیادوں پر منصوبہ بندی کی ہوتی تو ستمبر65ء میں بھارت کی مزید ناک رگڑی جا سکتی تھی۔

صدر جنرل ایوب خان، جن کے دَورِ حکومت میں جنگِ ستمبر معرضِ عمل میں آئی، کے سب سے طاقتور بیوروکریٹ اور حکومتی ترجمان (اطاف گوہر) نے جنگِ ستمبر کے بارے میں اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے، وہ تو ہر اعتبار سے ہمارے عوام کے دل توڑنے کے مترادف ہے۔

وہ لکھتے ہیں: " جنرل ایوب خان کو جنگِ ستمبر شروع ہونے سے 10دن قبل تک یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں اُن کی سرپرستی میں شروع کیا گیا بھارت مخالف آپریشن جبرالٹر مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے"۔ ایوب خان کے وزیر خارجہ، ذوالفقار علی بھٹو، کی جنگِ ستمبر کے حوالے سے تمام یقین دہانیاں غلط ثابت ہُوئیں۔ اور جب 6ستمبر کو بھارت نے پاکستان پر باقاعدہ حملہ کر دیا تو ایئر فورس کے ایک افسر نے ایوب خان کو سحری کے چار بجے نیند سے اُٹھا کر اس حملے کی خبر دی۔

الطاف گوہر نے یہ بھی لکھا ہے: "بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر، میاں ارشد حسین، نے4ستمبر کو ایک ایمرجنسی پیغام پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو بھجوایا کہ بھارت 6ستمبر کو پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے لیکن یہ حساس ترین اور اہم ترین پیغام صدر جنرل ایوب خان تک پہنچایا ہی نہ گیا"۔ ستمبر 65ء کی جنگ میں پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل نور خان، جنھوں نے بھارتی فضائیہ پر برتری حاصل کیے رکھی، نے جنگِ ستمبرکوWrong War کہا تھا۔ زندہ قومیں بہرحال اپنے اعمال و اقدامات کا کڑی نگاہ سے جائزہ لیتی رہتی ہیں۔ ہمیں بھی لیتے رہنا چاہیے:

صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم

کرتی ہے ہر زماں جو اپنے عمل کا حساب!!