وزیر اعظم عمران خان کی خوش بختی ہے کہ ملک میں اپوزیشن کا وجود اور عدم وجود تقریباً مساوی ہو چکا ہے۔ یہ کیسی اپوزیشن ہے کہ جس کا قومی اسمبلی میں لیڈر، شہباز شریف، کئی مہینوں سے غیر حاضر بھی ہے اور منظر سے غائب بھی۔ غیر حاضری کی کوئی ایسی وجہ بھی بیان نہیں کی جارہی جس سے عوام مطمئن ہو سکیں۔
شہباز شریف کے ملک اور قومی اسمبلی سے غائب ہونے سے عوام ناراض بھی ہیں اور مایوس بھی۔ یوں پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے سارے راستے کھلے اور بے رکاوٹ ہیں۔ شہباز شریف کی ملک اور سیاست سے غیر حاضر ہونے سے اپوزیشن بالعموم اور نون لیگ بالخصوص عملی محاذ پر بے پتوار (Rudderless) ہو چکی ہے۔ اس کا نقصان پہلے آہستہ روی سے بڑھ رہا تھا لیکن اب اس کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔
نون لیگ میں یہ احساس روز افزوں ہے کہ شریف برادران خود تو اپنے نجی اور ذاتی مفادات کے لیے لندن میں براجمان ہیں اور ہمیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ احساس یا تاثر خاص طور پر نواز شریف کی محنت اور کمٹمنٹ سے کمائی گئی سیاسی شہرت کو بٹّہ لگا رہا ہے۔ مقتدر پی ٹی آئی اور وزیر اعظم عمران خان کی بھی کوشش ہے کہ نون لیگ کے بارے میں اس تاثر اور احساس کو مزید گہرا کیا جائے۔
اس احساس ہی کا شاخسانہ ہے کہ نون لیگ کے 6 ارکانِ صوبائی اسمبلی پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملے ہیں اور انھیں اپنی محبتوں، تعاون اور وفاؤں کا یقین دلایا ہے۔ نون لیگ کے کچھ ارکانِ اسمبلی آٹھ ماہ پہلے بھی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے لاہور میں اور عمران خان سے بنی گالہ میں مل چکے ہیں۔ یہ پرانی ملاقات مگر خفیہ رکھی گئی تھی لیکن اب اِس نئی ملاقات کو آن دی ریکارڈ تسلیم کیا گیا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ وہ نون لیگی ارکانِ اسمبلی جو دھڑلّے سے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملے ہیں، انھیں پارٹی کی طرف سے کسی ڈسپلنری ایکشن کا بھی کوئی ڈر نہیں رہا۔ انھیں یہ خوف نہیں رہا کہ اس ملاقات پر وہ پارٹی سے فارغ بھی کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نون لیگ سے حالیہ بغاوت کرنے والے نون لیگی ارکانِ اسمبلی میں ایک ایم پی اے (خانیوال سے تعلق رکھنے والے) نشاط احمد ڈاہا بھی ہیں۔
انھوں نے عثمان بزدار سے ملاقات کے بعد صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہُوئے بے خوف کہا: "سب لوٹے ہیں۔ کوئی مجھے پارٹی سے نکالنا چاہتا ہے تو نکال دے۔ نواز شریف اور شہباز شریف بے وفا ہیں۔ وہ تو خود لندن میں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان بھائیوں کو اپنے کارکنوں اور پارٹی امور سے کوئی دلچسپی ہے نہ پروا۔" اس بیان سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نون لیگ کے اندرونی حلقوں میں پارٹی قیادت بارے کس قسم کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔
اور یہ کہ خاص طور پر میاں شہباز شریف کے لندن میں " بلا جواز" ٹھہرے رہنے سے اُن کے پارٹی وابستگان میں کیا احساسات ہیں۔ اب بھی اگر شہباز شریف کو فوری واپسی کا احساس نہ ہو گا تو پنجاب میں نون لیگ کا حشر بھی وہی ہو سکتا ہے جو پیپلز پارٹی کا ہو چکا ہے۔ شریف برادران کو اپنے ووٹروں اور چاہنے والوں کی پروا نہیں ہو گی تو ووٹر اُن کی محبت اور چاہت کا کب تک اور کیوں دَم بھرتے رہیں گے؟ کیا ووٹرز نون لیگی قیادت کے باجگزار، مزارع یا زر خرید غلام ہیں؟
لندن میں ٹیڑھا ہیٹ پہنے، گلے میں مفلر ڈالے اور گرم کوٹ کے کالر اونچے کیے گھومتے پھرتے شہباز شریف سے پارٹی وابستگان اور ووٹروں کی ناراضی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ پی ٹی آئی سے ناراض نون لیگی ووٹر سمجھتے ہیں کہ حکومت کئی محاذوں پر جس شدت سے ناکام و نامراد ہُوئی ہے، شہباز شریف اور نواز شریف پُراسرار وجوہ کی بنیاد پر ان حکومتی ناکامیوں سے عوام کے مفاد میں فائدہ نہیں اٹھا سکے ہیں۔ شہباز شریف کی "معروف" مفاہمت پسندی کے معنی یہ اخذ کیے جا رہے ہیں کہ یہ درحقیقت اپنے نجی، سیاسی اور مالی مفادات کا تحفظ ہے۔ اس مفاہمت میں عوامی مفاد مفقود ہے۔ یوں عوام شہباز شریف سے ناراض بھی ہیں اور نالاں بھی۔ یہ ناراضی ہر روز نئے انداز سے بڑھ رہی ہے۔
اِس ناراضی اور غصے کا اظہار گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقد ہونے والے نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں بھی یہ کہہ کر کیا گیا ہے کہ شہباز شریف کو اب برطانیہ سے واپس پاکستان آ جانا چاہیے۔ اس اجلاس میں شہباز شریف کے بارے میں بعض نون لیگی لیڈروں نے ایسی باتیں بھی کہیں جن کا ذکر کرنا یہاں مناسب نہیں ہے۔ اتنا مگر ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ اجلاس میں شریک اُن نون لیگی لیڈروں کی اکثریت تھی جو شہباز شریف کے لندن میں براجمان رہنے پر خوش نہیں تھے۔ اکثر یہ شکوہ بھی کرتے پائے گئے کہ ہم عوام اور اپنے حلقے کے ووٹروں کو کیا بتائیں کہ شہباز شریف آخر کیوں لندن میں بیٹھے ہیں؟ اس اجلاس میں صابر شاہ اور جاویدلطیف کا مبینہ طور پر لہجہ تو خاصا تلخ تھا۔
اور یہ تلخی قابلِ فہم بھی ہے۔ شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور احسن اقبال کی صورت میں بچی کھچی نون لیگی قیادت کو اکیلے ہی تمام دباؤ برداشت کرنا پڑیں گے تو یہ تلخی تو ہو گی۔ اس تلخی کو کم کرنے اور اس کا دائرہ محدود تر رکھنے کے لیے بعض اطراف سے ( جن کی سیاسی اہمیت کچھ بھی نہیں ہے) یہ کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف "عنقریب" واپس تشریف لا رہے ہیں لیکن اس "عنقریب " کی وضاحت نہیں کی جا رہی۔"ایکسپریس نیوز" کے ٹاک شو Experts میں بھی ایک بحث اور تجزئیے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ شہباز شریف رواں مارچ میں نہیں آئیں گے تو نون لیگ کا نقصان مزید بڑھ جائے گا۔
شہباز شریف کے " بلاوجہ" لندن میں ٹھہرے رہنے سے نون لیگی قیادت کے بارے میں پیپلز پارٹی کا لہجہ بھی شکوہ کناں اور تلخ ہو رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے چند روز قبل لاہور میں نواز شریف کے بارے میں جو بیان دیا، وہ اِسی کا نتیجہ تھا۔ اس بیان سے نون لیگی قیادت کو رنج تو پہنچا مگر یہ بلا وجہ اور بے بنیاد نہیں تھا۔ بلاول بھٹو کے اس بیان کے بعد دیگر پی پی پی رہنما بھی نون لیگ قیادت کے بارے میں اختلافی بیانات کے گولے داغنے لگے ہیں۔
مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کی رکنِ اسمبلی نفیسہ شاہ نے 11 مارچ2020 کو لاہور میں کہا: " ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے چھُٹی پر کیوں ہیں؟ "۔ لیگی قیادت کا اگر لندن میں قیام طویل تر نہ رہتا تو پیپلز پارٹی کی طرف سے شائد ایسے بیان بھی نہ آتے۔ اس دوران لندن میں براجمان نون لیگی قائدین کے حوالے سے کچھ خبریں نہائت حیرت خیز بھی ہیں۔ مثلاً، یہ کہ نواز شریف کے ساتھ لندن گئے اُن کے ذاتی معالج، ڈاکٹر عدنان، پر کسی نہ معلوم شخص نے حملہ کر کے انھیں "شدید" زخمی کر دیا ہے۔
ملک میں نون لیگی ووٹروں کو دلاسہ اور حوصلہ دینے کے لیے یہ خبر بھی دی گئی ہے کہ لندن میں شریف برادران اگر بیٹھے ہیں تو بغیر مقصد کے نہیں بیٹھے، لندن میں نواز شریف سے مبینہ طور پر امریکی اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ لوگوں نے ملاقات کی ہے۔ پنجاب میں نون لیگ کے صدر، رانا ثناء اللہ، نے یہ بیان دے کر فضا کو اور بھی گمبھیر کر دیا ہے کہ "مَیں اس ملاقات کی تردید نہیں کروں گا۔" اس بیان پر شہباز شریف کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔