گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہُوئے یوں خبردار کیا تھا: "عالمی برادری پر لازم ہے کہ طالبان کے افغانستان کو تسلیم کیا جائے اور افغانوں کی فوری امداد بھی کی جائے، ورنہ دُنیا کو افغان مہاجرین کے سامنے دیواریں تعمیر کرنا پڑیں گی۔"اماراتِ اسلامیہ افغانستان کی معاشی صورتحال اس قدر دگرگوں ہو رہی ہے کہ معاش کی تلاش میں نکلنے والے افغان مہاجرین کا راستہ روکنے کے لیے کئی ممالک کو اپنی سرحدیں سختی سے بند کرنا پڑ رہی ہیں۔ عمران خان کی پیشگوئی جزوی طور پر درست ثابت ہو رہی ہے۔
مارچ 2017کے دوران معروف امریکی تھنک ٹینک PEWنے افغانستان میں ایک سروے کے دوران تمام افغانیوں سے صرف ایک سوال پوچھا تھا: کیا افغانی اپنے ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں یا اسلامی نظام کا نفاذ؟ جواب تھا: افغانستان کے99فیصد عوام اپنے ملک میں اسلامی شرعی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں۔
اب اللہ کے فضل و کرم اور افغان طالبان مجاہدین کی شہادتوں اور مسلسل جدوجہد کے بعد افغانستان میں طالبان اقتدار سنبھال چکے ہیں۔ وہ غیر مبہم الفاظ میں اعلان بھی کر چکے ہیں کہ افغانستان میں جمہوریت کا چلن نہیں ہوگا بلکہ اب افغانستان کے کوہ ودمن میں مکمل اسلامی شرعی نظام کا نفاذ عمل میں آئیگا۔ اس اعلان سے تمام افغانیوں کو خوش ہونا چاہیے تھا اور بحیثیتِ مجموعی طالبان حکمرانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ طالبان کی آمد کے ساتھ ہی افغانیوں کی اکثریت ملک سے بھاگ جانا چاہتی ہے۔
زیادہ تر افغانی امریکا، فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کے غیر اسلامی ممالک میں پناہ گیری چاہ رہے ہیں۔ ہم نے یہ درد ناک منظراپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ 15اگست2021 کے بعد کابل ایئر پورٹ پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افغانی مذکورہ ممالک کے جہازوں کے پروں اور پہیوں سے لپٹ گئے، یہ کہتے ہُوئے کہ ہمیں بھی ساتھ لے جائیں، ہم طالبان کے افغانستان میں رہنا نہیں چاہتے۔ کئی افغانی امریکی و مغربی ممالک کے جہازوں اور پہیوں سے لپٹتے ہُوئے جانیں کھو بیٹھے۔ حالانکہ ان افغانیوں کو طالبان کے اعلان کردہ اسلامی شرعی نظام کی فیوض و برکات سمیٹنے کے لیے افغانستان ہی میں رہنا چاہیے تھا۔
اس کے برعکس افغانی گروہ در گروہ طالبان کے افغانستان سے نجات حاصل کرکے مغرب کے غیر اسلامی ملکوں میں سر چھپانے کی شدید آرزُو رکھتے ہیں۔ تو پھر PEWکے کیے گئے سروے میں وہ 99 فیصد افغانی کون تھے جو اپنے ملک میں اسلامی شرعی نظام کے آرزُو مند تھے؟
افغانستان سے نکلنے اور غیر مسلم مغربی ممالک میں پناہ لینے کے لیے افغانی پا پیادہ ایران، پاکستان اور ترکی کی سرحدات تک پہنچنے کے لیے اپنی جان، مال، آل اولاد کی پروا بھی نہیں کررہے۔ یہ منظر خاصا افسوسناک اور دلدوز ہے۔ افغانستان کے چاروں اطراف میں جتنے بھی ممالک ہیں، کوئی بھی نئے افغان مہاجرین قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
پاکستان کا تو40لاکھ افغان مہاجرین کی وجہ سے (پنجابی محاورے کے مطابق) پہلے ہی "رَج" ہو چکا ہے۔ اِسی لیے پاکستان بار بار اعلان کررہاہے کہ نئے افغان مہاجرین قبول نہیں کیے جائیں گے۔ ایران نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں کہ وہاں بھی پہلے سے لاکھوں افغان مہاجرین ڈیرے ڈالے ہُوئے ہیں۔ رُوس نے تو صاف الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ ہم ایک بھی افغان مہاجر کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ ویسے سبھی افغان مہاجرین کو رُوس کا رُخ کرنا چاہیے، اس لیے کہ افغانستان پر اولین جارحانہ قیامت تو رُوس ہی نے ڈھائی تھی۔
مناسب تو یہی ہے کہ افغانی شہری ہجرت کا عذاب سہنے کے بجائے اماراتِ اسلامیہ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں اور اسلامی شرعی نظام کے نفاذ میں طالبان کا ہاتھ بٹائیں۔ طالبان کے مکمل قبضے کے بعد بھی مگر افغانی ہجرت رُک نہیں پارہی۔ پیرس میں سیکڑوں افغان مہاجرین نے مظاہرہ کرتے ہُوئے کہا ہے کہ "طالبان کے افغانستان میں ہمارے پیاروں کو بچائیں اور ملک سے نکالیں۔" حقیقت یہ ہے کہ تمام افغان شہری ملک سے بھاگ جانا چاہتے ہیں۔ طالبان حکمران بھی اس صورتحال کی معنویت کو سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ افغانستان کی نہایت کمزور مالی صورتحال کی بنیاد پر یہ لوگ ملک سے نکلنا چاہتے ہیں۔
شاید پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو۔ برطانیہ نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ وہ چنیدہ افغانیوں کو پاکستان اور ترکی آنے کا کہے گا اور پھر وہاں سے انھیں اپنے ہاں لے جائے گا۔ برطانیہ پر مگر کون اعتبار کرے؟ وہ اس وعدے پر لاکھوں افغانیوں کو ترکی اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بلا کر ان دونوں ممالک کے لیے مسائل کا انبار لگانا چاہتا ہے۔ ترکی نے تو اس ضمن میں صاف انکار کر دیا ہے۔ ترک صدر جناب طیب اردگان نے کہا ہے:" ہم یورپ کے لیے افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کریں گے۔" خبر آئی تھی کہ یورپی کونسل کے صدر (چارلس مائیکل) نے ترک صدر کو فون کرکے درخواست کی تھی کہ ترکی، افغانستان میں یورپی مشن کے لیے کام کرنے والے مقامی ملازمین یعنی افغانیوں کو اپنے ہاں خوش آمدید کہے لیکن ترکی نے صاف انکار کر دیا ہے۔
ترکی بھی مجبور ہے۔ اِس وقت ترکی45 لاکھ شامی مہاجرین کا بوجھ اُٹھائے ہُوئے ہے۔ اس بوجھ پر نئے افغان مہاجرین کا بوجھ ترک معیشت و سماج کا بھٹہ بٹھا دے گا؛ چنانچہ ترکی نے افغان مہاجرین کی آمد پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس کے باوجود مگر کئی افغانی ایران کے راستے ترکی پہنچنے کی خطرناک اور پُر صعوبت کوششیں کرتے ہیں اور پھر وہاں سے یورپ پہنچنے کا جگاڑ لگاتے ہیں۔
ترکی ویسے تو پچھلے برسوں کے دوران افغانستان کو تقریباًدو ارب ڈالرز کی امداد فراہم کر چکا ہے۔ آیندہ ایک برس کے دوران وہ مزید75ملین ڈالرز افغانستان کو دے رہا ہے لیکن نئے افغان مہاجرین کو لینے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے۔ چند دن قبل معروف سعودی انگریزی اخبار میں ترکی کے سابق وزیر خارجہ یاسر یاکس(Yasar Yakis) کا افغانستان کی نئی صورتحال پر مفصل آرٹیکل شایع ہُوا ہے۔ اس مضمون کے بین السطور میں بھی یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ نئے افغان مہاجرین کو قبولنا ترکی کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔
ویسے رواں لمحوں میں ترکی میں پہلے ہی دو لاکھ کے قریب افغان مہاجرین موجود ہیں اور وہ واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یوں ترکی فکر مند تو یقیناً ہے۔ افغانستان پر طالبان کی مکمل گرفت کے بعد نئے افغان مہاجرین کو ترکی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے ترکی تیزی سے اپنی طویل سرحد پر 11فٹ بلند اور چار فٹ موٹی کنکریٹ کی مضبوط دیوار تعمیر کررہا ہے۔ اس دیوار کی کُل لمبائی 255کلومیٹر ہے۔ اس میں سے 155 کلومیٹر تعمیر ہو چکی ہے۔ دیوار کے ساتھ کئی کئی فٹ گہرے کھڈے بھی کھودے گئے ہیں۔ ترک فوجی گارڈز اس دیوار کے ساتھ ساتھ دن رات پہرہ بھی دیتے ہیں۔
ترکی اُمید رکھتاہے کہ یہ دیوار نئے افغان مہاجرین کی راہ میں سدِ سکندری بن جائے گی۔ افغان مہاجرین کی آمد کے خلاف ایسی ہی ایک دیوار یونان بھی اپنی سرحد پر کھڑی کررہا ہے۔ افغان مہاجرین کے مسئلے سے تنگ آ کر ڈچ وزیر خارجہ (سگریڈ کاگ) نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ افغانستان اماراتِ اسلامیہ کی برکات سے مستفید ہونے کے لیے افغانی اپنے ہی وطن میں رکنا پسند کریں گے۔ پاکستان میں مقیم چالیس، پچاس لاکھ افغان مہاجرین کو بھی مقتدر طالبان کی برکات سمیٹنے کے لیے واپس چلے جانا چاہیے۔