جاوید احمد غامدی صاحب ہمارے ملک کے ممتاز اورمعروف عالمِ دین ہیں۔ وہ لاہور میں فروکش تھے تو ہمیں بھی کئی بار اُن کی علم افشاں مجالس میں حاضر ہونے کا شرف ملا۔
غامدی صاحب کا شہرہ چہار دانگ عالم میں ہے۔ اُن کے چاہنے والوں اور شاگردوں کی تعداد کا دائرہ وسعت پذیر ہے۔ اُن کی معرکہ آرا تصنیف "میزان" نے فکرو عمل کے نئے دروازے کھولے ہیں۔ یہ ہماری اجتماعی بدقسمتی ہے کہ جاوید احمد صاحب غامدی کی مخالفت میں اُن کے ایک عالم فاضل ساتھی پر کسی نے تشدد بھی کیا۔
شدید مجروح حالت میں اُن کے یہ ساتھی طویل عرصہ زیر علاج رہے۔ اُن کے ایک اور صاحبِ دانش ساتھی بھی ملک سے نکلنے پر مجبور کر دیے گئے۔ خود جاوید احمد غامدی صاحب کو جن پُر آزمائش اور نازک حالات میں پاکستان چھوڑنا پڑا، اس کا ذکر وہ اپنے متعدد انٹرویوز میں کر چکے ہیں۔ وطنِ عزیز سے نکلنے کے بعد وہ پہلے ملائیشیا پہنچے تھے اور بعد ازاں امریکا منتقل ہو گئے۔ ملائیشیا میں بھی اُن کی فیض رساں شخصیت علم کا نور بکھیرتی رہی۔
آج کل وہ امریکا میں مقیم ہیں، مقدور بھر دینِ اسلام کی خدمت کررہے ہیں اور ایک بڑا دینی تبلیغی ادارہ چلا رہے ہیں۔ جاوید صاحب اُردو اور فارسی کے قادرالکلام شاعراور ایک ماہنامہ جریدے (اشراق) کے مدیر بھی ہیں۔"خیال و خامہ" اُن کا مجموعہ کلام ہے۔ پاکستان کے کئی نجی ٹی ویوں کے توسط سے اُن کے لیکچرز سے لاتعداد لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ اُن کے خیالات و افکار سوشل میڈیا کی وساطت سے بھی دُنیا بھر میں سُنے اور دیکھے جاتے ہیں۔
افغان طالبان نے20سالہ مسلسل جدوجہد اور جنگ کے بعد افغانستان سے قابض و غاصب امریکی فوجوں اور اس کے درجنوں مغربی اتحادیوں کو مار بھگایا ہے توساری دُنیا میں افغانستان پر افغان طالبان کی گرفت اور حکومت بارے نت نئے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ کہیں خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں اور کہیں طالبان سے بلند مثبت توقعات وابستہ کی جارہی ہیں۔ شاید ہی دُنیا کا کوئی ایسا ملک یا میڈیا ہوجہاں طالبان کی بازگشت سنائی نہ دے رہی ہو۔
ایسے میں چند دن پہلے جاوید احمد غامدی صاحب کے ایک قریبی عزیز، جو امریکا میں اُن کے معتمد و معاون بھی ہیں، نے علامہ جاوید احمد غامدی سے طالبان اور اُن کی زیر ترتیب حکومت بارے چند بنیادی سوالات پوچھے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ سوالات اور غامدی صاحب کے جوابات ہمارے قارئین تک بھی پہنچیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ ہمارے عہد کا ایک ممتاز مفکر، مفسر قرآن اور دینی دانشور طالبان کی آمد اور اُن کی زیر ترتیب حکومت کے بارے میں کیا خیالات ونظریات رکھتا ہے؟
جاوید غامدی صاحب ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ اسلام کی روشنی میں جائز حکومت وہی کہلا سکتی ہے جو لوگوں کی رائے سے قائم ہو، جس میں لوگوں کا مشورہ شامل ہو۔ اب "ہمارے " طالبان جس اسلوب میں افغانستان پر قابض ہُوئے ہیں، کیا اس تسلط کو لوگوں کی رائے کہا جا سکتا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
غامدی صاحب کہتے ہیں: " لوگوں کی رائے یا مشورے کے برعکس جب تلوار یا بندوق کے زور سے کوئی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو اسے تغلب کہتے ہیں۔ اور ایسی حکومت قائم کرنے والوں کو متغلبین کہا جاتا ہے۔ ہمارے ملک(پاکستان) میں جب بھی بندوق کے زور سے حکومت قائم کی گئی، اسے تغلب ہی کے نام سے موسوم کیا گیا اور جب کوئی گروہ یا تنظیم تغلب سے حکومت قائم کر لیتی ہے اور ملک میں امن و امان بھی ہو جاتا ہے تو اسے پھر چاروناچار تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ پہلے پہل بعض اطراف سے تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ سی رہتی ہے۔ اور پھر رفتہ رفتہ بندوق یا تلوار کے زور سے قائم ہونے والی حکومتوں کو دُنیا کی اکثریت تسلیم کر لیتی ہے۔ کیا ہمارے ملک کے مارشل لاؤں کی حکومتوں کو دُنیا نے تسلیم نہیں کیا تھا؟
تسلیم نہ کیا جائے گا تو دُنیا میں بد امنی اور انتشار پھیلے گا۔ اس انتشار اور افتراق سے بچنے کا پھر واحد آپشن یہی رہ جاتا ہے کہ تغلب کی حکومت تسلیم کر لی جائے۔ افغانستان میں اگر یہی حالات پیدا ہُوئے تو آپ دیکھیں گے کہ شروع میں تسلیم کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ سی نظر آئے گی لیکن پھر رفتہ رفتہ سبھی طالبان کی حکومت مان لیں گے۔ تاریخ میں اکثر ایسا ہی ہُوا ہے۔"
افغانستان میں فاتح طالبان کی حکومت قائم ہونے اور اسے تسلیم کیے جانے کے سوال کا جواب دیتے ہُوئے جاوید احمد صاحب غامدی ایک معروف عرب ملک کی اساس رکھنے کی تاریخ کا ذکر کرتے ہُوئے کہتے ہیں:"شروع شروع میں وہاں کچھ بندوق بردار عسکریوں اور کچھ عرب شیوخ (علمائے کرام) نے مل کر سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف جدوجہد کی۔ اور پورا صوبہ حجاز اُن کے قبضے میں آگیا تو اب انھیں تسلیم کرنے اور وہاں باقاعدہ ایک حکومت قائم کرنے کا مرحلہ آیا۔ حتیٰ کہ(متحدہ) ہندوستان سے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا سید سلمان ندوی ایسے جید علمائے کرام عبدالعزیز صاحب (سعودی عرب کے بانی) سے ملے اور انھیں مشورہ دیا کہ آپ بادشاہت کے بجائے ملک میں جمہوریت قائم کریں۔
کچھ وعدے بھی کیے گئے لیکن پھر ان وعدوں کے برعکس وہاں بادشاہت قائم کر لی گئی۔ اور بادشاہت تو تلوار اور بندوق کے زور پر ہی قائم رہتی ہے۔ بادشاہت کی پُشت پر لگی بندوق یا تلوار ہٹا لیجیے، دس دن ہی کے اندر اندر بادشاہت ختم ہو جائے گی۔ غلبہ حاصل کرنے کے بعدآغاز میں سعودی عرب کو تسلیم کرنے والوں کی خاصی کمی تھی، دُنیا میں ہچکچاہٹ سی تھی لیکن پھر سب نے اسے تسلیم کر لیا۔ افغان طالبان کے حوالے سے بھی آپ ایسا ہی منظر دیکھیں گے۔"
طالبان کی پورے افغانستان پر ممکنہ حکومت قائم کیے جانے کے حوالے سے اس 23منٹی مجلس میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں جاوید احمد صاحب غامدی بتاتے ہیں: " دُنیا میں حکومت قائم کرنے کے دو ہی طریقے یا راستے ہیں: لوگوں کی رائے یا تلوار اور بندوق کی طاقت۔ طالبان تو لوگوں کی رائے یا لوگوں کے فیصلے کو اصولاً تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اُن کے نزدیک توحکومت کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی طبقے کی آمریت قائم کر دی جائے۔ اور مذہبی طبقے کی مطلق حاکمیت تو ایران میں بھی قائم ہے اور اسے دُنیا تسلیم کیے بیٹھی ہے۔
ایسا منظر افغانستان میں طالبان کے حوالے سے بھی ہم دیکھیں گے۔ ایسی صورت میں مان لیا جاتا ہے کہ ملک میں اب متغلبین کی حکومت ہے اور اسی کے ساتھ سب کو چلنا ہے۔ اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا تو ملک میں خانہ جنگی ہوگی۔ پاکستان میں بھی جب جب بندوق کے زور پر حکومت قائم ہوئی، ہمارے سیاستدانوں نے بھی بتدریج بندوق بردار حکمرانوں سے مذاکرات کیے اور پھر رفتہ رفتہ طاقت کے زور پر حکومت قائم کرنے والوں کے ساتھ مل گئے۔ طالبان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوگا"۔
غامدی صاحب کے خیالات میں اختلاف کی گنجائش تو ہے لیکن اس گفتگو میں غوروفکر کے کئی پہلو تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کے ممتاز سفارتکار اوربھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر جناب عبدالباسط صاحب، جن کی معرکہ خیز سوانح حیات Hostility کا آجکل بڑا شہرہ ہے۔ باسط صاحب نے اپنے تازہ وی لاگ میں غامدی صاحب کے مذکورہ انٹرویو پر، اپنے نقطہ نظر سے، تنقید کرتے ہُوئے کئی اہم اور بنیادی سوالات اُٹھائے ہیں۔ سفارتی دُنیا میں یہ سوالات افغان طالبان کے لیے بڑے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔