بالآخر، افغان طالبان نے نئی حکومت اور نئی کابینہ کا اعلان کر دیا ہے۔ اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے نئے وزیراعظم بھی سامنے آ چکے ہیں۔ ابھی یہ حکومت، وزیر اعظم اور کابینہ عبوری ہے۔ ساری دُنیا کی نظریں اور کان اِسی فیصلے کو دیکھنے اور سُننے کی منتظر تھیں۔
طالبان کی نئی عبوری حکومت ایسے ایام میں معرضِ عمل میں لائی گئی ہے جب امریکا میں نائن الیون کے سانحہ کی بیسویں "برسی" منانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ کل پھر ستمبر کی11تاریخ ہے اور یہی ہے وہ تاریخ جب دو عشرے قبل مبینہ طور پر "القاعدہ" نے امریکا کے دو بڑے اور محفوظ ترین شہروں پر مسافر جہازوں کو بطورِ ہتھیار استعمال کرتے ہُوئے ایسے حملے کیے تھے کہ ان کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان حملوں کی امریکیوں نے کبھی توقع تک نہیں کی تھی۔ نائن الیون کے سانحہ نے دُنیا کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔
اس ٹریجڈی کے بعد ہماری یہ دُنیا مکمل طور پر بدل گئی۔ جس وقت نائن الیون کا سانحہ وقوع پذیر ہُوا، افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی۔ مُلا محمد عمر اُن کے سپریم لیڈر تھے۔ آج پھر افغانستان پر طالبان اقتدار کے پھریرے لہرا رہے ہیں۔
بعض اطراف سے مُلا کا لفظ بطورِتحقیر استعمال کیا جاتا ہے لیکن افغان طالبان نے مُلا کے لفظ کو احترام، اکرام اور عظمت کے نئے معنی دیے ہیں۔ اس لفظ کی معنویت کو ثابت اور غالب کرنے کے لیے افغان مُلاؤں نے جان و مال کی لاتعداد قربانیاں دی ہیں۔ آج افغانستان کے ہر صاحبِ اقتدار کے نام کے ساتھ مُلا کا لفظ جُڑا ہے اور مُلا ہی کا حکم افغانستان بھر کے کوہ و دمن کے لیے سکّہ رائج الوقت کی حیثیت رکھتا ہے۔
آج افغانستان میں تین درجن مُلا مرکزی وزیر ہیں اور مختلف وزارتیں، سفارتیں اُن کے قدموں میں ہیں۔ اللہ اللہ۔ یہ دن ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ پھیر پھیر کر انسانوں میں لاتا ہے۔ یہ پیہم بدلتے ہُوئے صبح و مسا اس امر کا اعلان ہے کہ اصل اقتدار واختیار صرف خالقِ کائنات ہی کے پاس ہے۔
افغانستان کے سپریم لیڈر نے باہمی مشاورت سے جس عبوری حکومت اور عبوری وزیروں کا اعلان کیا ہے، یہ اس امر کا واضح اعلان ہے کہ افغان طالبان کو کسی کی خوشنودی مطلوب ہے نہ افغانستان پر کسی کی مرضی مسلّط ہے۔ افغان عبوری کابینہ میں کئی نام ایسے ہیں جن سے امریکا اور اقوامِ متحدہ ابھی تک ناراض ہے۔ کئی ابھی تک عالمی پابندیوں کی زَد میں ہیں اور ماضی میں کئی ایک کے سروں کی قیمت بھی مقرر کی گئی لیکن آج یو این او کی سب پابندیاں رفت گذشت ہو چکی ہیں۔
اس عبوری حکومت کو وسیع البنیاد حکومت نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں اکثریت پشتونوں کی ہے جن کی افغانستان میں آبادی 45 فیصد ہے۔ افغانستان کو غیر ملکی قابض قوتوں کی گرفت سے آزاد کروانے کے لیے مگر زیادہ جدوجہد اور قربانیاں تو پشتون مجاہدین ہی کی ہیں۔ ممکن ہے بعدازاں افغان سپریم لیڈر اس عبوری حکومت میں دیگر افغان قومیتوں اور قبائل کو بھی شامل کریں لیکن وہ دُنیا کی مرضی سے نہیں، اپنی مرضی اور مفاد میں کریں گے۔
افغانستان کے اندر اور افغانستان سے باہر وہ قوتیں جو یہ خیال کیے بیٹھی ہیں کہ افغان سپریم لیڈر اُن کی تمناؤںاور آدرشوں کے مطابق طالبان کی مذہبی حکومت کو آگے بڑھائیں گے، غفلت اور غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ مقتدر طالبان کو اپنی مرضی کی حکومت اور نظامِ حکومت چلانے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔ کئی مگر ایسی قوتیں بروئے کار ہیں جو طالبان کی نئی حکومت کے راستے کی دیوار بن کر انھیں ناکام بنانے پر تُلی ہیں۔
طالبان حکومت کو مشروط عالمی امداد کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اُن کے اقدامات اور فیصلوں کی نگرانی کیے جانے کے عالمی دباؤ بھی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان حکومت کرے گی اپنی مرضی۔ جس وقت افغان حکومت اور وزیروں کا اعلان کیا جارہا تھا، عین اُس وقت کابل کی بعض شاہراہوں پر کئی خواتین مخالفانہ مظاہرے بھی کررہی تھیں۔ یہ اس بات کا اشارہ بہرحال ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر طالبان کی نئی عبوری حکومت کو بٹّہ لگانے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔
مثال کے طور پر: افغان طالبان کی نئی حکومت بنتے ہی عالمی میڈیا میں یہ بات اچھالی جانے لگی کہ طالبان کی33رکنی عبوری حکومت میں تو ایک بھی خاتون کو وزیر نہیں رکھا گیا اور نہ ہی کوئی وزارت خواتین کے لیے مختص کی گئی ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ افغان طالبان کے مرکزی ترجمان نے تو وعدہ کیا تھا کہ حکومت میں خواتین بھی شامل کی جائیں گی لیکن اب عمل کے وقت اس وعدے سے "انحراف" کر دیا گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ افغان ترجمان نے واضح طور پر ایسا کوئی وعدہ سرے سے کیا ہی نہیں تھا۔ اوردوسری بات یہ ہے کہ افغان خواتین اور مستورات کے حوالے سے افغان طالبان کا ایک خاص نکتہ نظر ہے، ہمیں اس بارے میں بھی اُن کے خیالات و افکار کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ معلوم ہوتا ہے اس حوالے سے دُنیا کے دل افغان مقتدر طالبان بارے صاف نہیں ہُوئے ہیں۔
مثال کے طور پر اقوامِ متحدہ میں دُنیا بھر کی خواتین کے مسائل سے متعلقہ معاملات کی سربراہ پرامیلا پٹین (Pramila Patten)نے بھی کہا ہے کہ "افغان طالبان کی عبوری کابینہ میں افغان خواتین کو شامل نہ کرکے مقتدر طالبان قوتوں نے دُنیا کو اچھا پیغام نہیں بھیجا ہے"۔ بھارت بھی طالبان کی عبوری حکومت کے اس پہلو کو اچھال کر نہائت منفی پروپیگنڈہ کررہا ہے۔ ویسے بھارت کو تو مجموعی طور پر پوری طالبان حکومت ہی ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔
اِس وقت طالبان کی نئی حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ دُنیا کیسے اور کب تک انھیں تسلیم کرتی ہے۔ اندازے تو یہی ہیں کہ طالبان حکومت کیRecognition کا مرحلہ بھی جلد ہی اور آسانی سے طے پا جائے گا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان کا حکومتی پرچم لہرایا ہے، پاکستان کے تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے جناب محمد نواز شریف بالکل خاموش ہیں۔
اُن کی پارٹی کو بھی چپ ہے۔ نون لیگ کی نائب صدر محترمہ مریم نواز بھی خاموش ہیں۔ نون لیگ وطنِ عزیز کی اہم ترین پارٹی ہے اور نواز شریف ملک سے بوجوہ غیر حاضر ہونے کے باوجود اس ملک کے اہم اور موثر سیاسی لیڈر۔ پاکستان کے مغربی ہمسائے میں جنم لینے والی اس زبردست تبدیلی بارے ان کی خاموشی معنی خیز ہے۔
نئی طالبان حکومت کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو زرداری کے بیانات تو میڈیا میں مسلسل آ رہے ہیں لیکن نون لیگ ونواز شریف کی خاموشی پُراسرار بھی ہے اور معنی خیز بھی۔ سید علی گیلانی کے انتقال پر بھی نواز شریف خاموش ہی رہے۔ چند دن پہلے6ستمبر کو پاکستان کا یومِ دفاع تھا لیکن اس موقع پر بھی نواز شریف اور مریم نواز شریف کے ٹوئٹرز پر خاموشی چھائی رہی۔ جناب شہباز شریف البتہ چھ ستمبر کو یومِ دفاعِ پاکستان کے حوالے سے راولپنڈی میں فوج کے زیر اہتمام تقریب میں ضرور شریک ہُوئے ہیں۔