اپنے آخری کالم میں انھوں نے ہمیشہ کی طرح بڑے شگفتہ اسلوب میں ذکر کیا تھا کہ مَیں تو گردے کے امراض کا مستند مریض ہُوں، اس لیے اِس بار بھی اپنے معالج کے پاس حاضر ہُوا تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے دوائی اور تسلّی دے کر اطمینان سے رخصت کر دیا۔ پھر انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک بار میو اسپتال لاہور میں رات کے وقت سرجری کے دوران، ڈاکٹر صاحب کی غفلت کے کارن، اُن کی نصف موت واقع ہو گئی تھی۔ مگر زندگی نے اک بار پھر اُن کا دامن تھام لیا۔ اِسی کالم میں انھوں نے اپنے چند ایک دوستوں کی رحلت کا بڑے کرب اور دکھ کے ساتھ تذکرہ بھی کیا۔
اُن سے وابستہ پرانی یادوں کو دہرا کر دل پر پڑے غم کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ کون جانتا تھا کہ جس وقت وہ قلم تھامے اپنے دوستوں کو یاد کررہے تھے، کہیں قریب ہی موت کا فرشتہ پر پھڑ پھڑا رہا ہوگا۔ ہمارے عہد کے نامور اور مایہ ناز کالم نگار جناب عبدالقادر حسن رخصت ہو گئے۔ اس خبر سے دل رنجور ہے۔ ہم انسان کمزور ہیں اور کمزوری و بے بسی کے عالم میں ہم اپنے عظیم، بے بدل اور بزرگ صحافی عبد القادر حسن صاحب مرحوم کے لیے بس مغفرت کی دعا ہی کر سکتے ہیں۔
روزنامہ "ایکسپریس" سے وابستہ کیسی کیسی قابلِ فخر اور پروفیشنل ہستیاں تھیں جو آہستہ آہستہ، بلاوے پر، اپنے اللہ کے پاس حاضر ہو گئیں۔ سب سے پہلے عباس اطہر المعروف شاہ جی ہم سے جدا ہُوئے۔ پھر جناب احفاظ الرحمن اللہ کی رحمت میں چلے گئے۔ اور اب عبدالقادر حسن نے بھی ملک الموت سے مصافحہ کر لیا۔ انھوں نے زندگی کے آخری لمحات تک قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ استوار کیے رکھا۔
گویا زندگی کے آخری ایام تک رزقِ ہلال کماکر کھانے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ایک قابلِ رشک صحافتی زندگی کا شاندار نمونہ۔ وہ تقریباً 14سال روزنامہ "ایکسپریس" سے وابستہ رہے اور اس اخبار کے صفحات پر اپنی دانش و بینش کے موتی بکھیرتے رہے۔ لاتعداد لوگوں نے اُن کی تحریروں سے حظ اُٹھایا اور ہم ایسے اَن گنت مبتدیوں نے اُن سے کسبِ فیض کیا۔ لاریب وہ روزنامہ صحافت کے ایک ممتاز گرو کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہ حیثیت مگر چند برسوں کی قلم گھسائی سے حاصل نہیں ہُوئی تھی۔
اس مقامِ بلند پر فائز ہونے کے لیے انھیں برسہا برس محنت و مشقت کا کولہو پیلنا پڑا تھا۔"مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں /تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں۔" اُن کے الفاظ کی دمک اور دہک فی الحقیقت کئی عشروں کے تجربات اور مشاہدات کا نتیجہ تھی۔ ایک زمانے میں لاہور کی صحافت کے مطلع پر بس اُنہی کی قابلِ اعتماد رپورٹنگ کا چاند طلوع ہوتا تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عبدالقادر حسن صاحب مرحوم ہماری اُس کلاسیکی اُردو صحافت کا ایک روشن استعارہ بھی ہیں جس پر ہم سب کو ناز ہے۔ وہ ایسے بااعتبار صحافی تھے کہ جن کے ساتھ ملک بھر کے بڑے بڑے سیاستدان اور حکمران اپنے دل کی بات شیئر کر سکتے تھے۔ اس اعتبار کو انھوں نے کبھی ضعف نہ پہنچنے دیا۔
عبدالقادر حسن صاحب مرحوم و مغفور کی تحریروں میں وسیع صحافتی تجربات کی ہمیشہ کھنک سنائی دیتی تھی۔ کبھی لَے میں آتے تو نہایت شگفتہ انداز میں پرانی صحافت و سیاست کی داستانیں بھی سناتے۔ ان داستانوں کو اگر اکٹھا کیا جائے تو صحافت و سیاست کے طالبعلموں کے لیے اچھا خاصا انسائیکلو پیڈیا تیار ہو سکتا ہے۔
لیکن آج صحافت کے فاسٹ ٹریک پر بگٹٹ بھاگنے والے ہمارے نوجوان صحافیوں کو شائد ایسا کوئی انسائیکلوپیڈیا پڑھنے کی فرصت ہے نہ توفیق۔ ہمارے ممدوح عبدالقادر حسن نے کالم نگاری کی دُنیا میں قدم رکھنے سے قبل برسوں صحافت و سیاست کی کوچہ گردی کی۔ لاتعداد سرد و گرم تھپیڑوں کو سہا۔ تب کالم نگاری کے لیے قلم اُٹھایا، اور ایسے پر زور انداز میں قلم اُٹھایا کہ جدید اُردو کالم نگاری کو ایک فن بنا دیا۔ وہ نہایت سہل اور آسان اسلوب میں کالم لکھتے تھے لیکن اُن کے لہجے کی کاٹ سے ہدف بنی شخصیت بَل کھا کر رہ جاتی۔ بلا شبہ وہ وطنِ عزیز کے سب سے نامور اور سر کشیدہ کالم نگار تھے۔
لاتعداد کالم نگاروں نے اُن ایسا لکھنے کا خواب دیکھا۔ کالم نگاری کا چاند بننے کے لیے اُنہو ں نے کسی کی سفارش کو اپنی اساس نہیں بنایا تھا۔ مسلسل محنت، دیانتداری اور صحافت سے زبردست کمٹمنٹ نے انھیں ایک محبوب کالم نگار بنایا۔
انھوں نے کئی روزنامہ اخبارات کواپنی رپورٹنگ اور کالم نگاری کے منفرد جمال سے روشن اور آباد کیا۔ ایک معروف اور ترقی پسند ہفت روزہ جریدے (لیل و نہار) کے مدیر بھی رہے۔ یہ جریدہ اپنے دَور کا سب سے روشن خیال اور بڑا ہی پاپولر اخبار تھا۔ اس کے آسماں پر کئی چاند طلوع ہُوئے تھے۔ یہاں سے فراغت کے بعد انھوں نے اپنا ہفت روزہ بھی جاری کیا۔ پاکستان کے جن صحافیوں کو جنرل ضیاء الحق کا اعتماد اور قرب حاصل ہُوا، جناب عبدالقادر حسن بھی اُن میں مرکزی اور نمایاں کردار تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور ہی میں ٹرسٹ کے ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر بھی بنائے گئے۔
یہ ایڈیٹری ایک ورکنگ جرنلسٹ کے لیے عظیم اعزاز تھا۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ جن دنوں وہ "امروز" کے مدیر اعلیٰ تھے، اُنہی دنوں ایک بڑے قومی روزنامہ میں "ہمزاد عبدالقادر حسن" کے نام سے اُن کا کالم بھی شایع ہوتا تھا۔ یہ اُن کے مستند اور ہر دلعزیز کالم نگار ہونے کی ایک منفرد مثال ہے۔
مرحوم عبدالقادر حسن کی تحریروں میں تحمل، بردباری اور اعتدال کے عناصر نمایاں ترین تھے۔ وہ متشدد ذہن کے حامل تھے نہ اُن کے الفاظ میں یہ بازگشت سنائی دیتی تھی۔ اعتدال پسندی کا یہ حسین فن انھیں گھر بیٹھے بٹھائے حاصل نہیں ہُوا تھا۔ اس کمال وصف کو پانے اور پھر اسے بدرجہ اولیٰ تک پہنچانے کے لیے عبدالقادر حسن نے فیض احمد فیض اور سبطِ حسن ایسے نامور ترقی پسند دانشوروں کی ذہن ساز مجالس سے بھی فیض حاصل کیا اور مرشد سید مودودیؒ کی روحانی محفلوں سے بھی علم کے موتی ایسے چُنے کہ اُن کی تحریروں کا جمال بے پناہ ہوتا چلا گیا۔
عبد القادرحسن اپنی تحریروں کو روحانی وارداتوں سے بھی مزین کرتے تھے۔ مثلاً: قبلہ سرفراز شاہ صاحب کی باتوں کا تذکرہ کرتے۔ اسلام اور نظریہ پاکستان پر غیر متزلزل ایمان رکھتے تھے۔ بھارت کو پاکستان کا دشمن نمبر ایک سمجھتے۔ وہ بنئے کی نفسیات سے خوب آگاہ تھے، اس لیے ہمیشہ اپنے قارئین کو بھارتی ہندو بنئے کی پاکستان و دو قومی نظرئیے کے خلاف خفی و جلی گھاتوں کے بارے میں بتاتے رہتے۔ یہ دراصل تربیت کا بھی ایک منفرد انداز تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ، حضرت علامہ محمد اقبالؒ اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے تو جنون کی حد تک محبت و شیفتگی رکھتے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنے کالموں میں متعدد بار اور ہمیشہ تحسینی الفاظ میں یاد کرتے تھے۔ جب بھی یاد کرتے، ہمیشہ انھیں "محسنِ پاکستان" کے لقب سے یاد کرتے۔ محترم ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی انھیں بے حد چاہتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دَور میں محسنِ پاکستان سے بوجوہ جو سلوک کیا گیا، عبدالقادر حسن نے ہمیشہ اس کا ذکر دلگیر اور غمزدہ لہجے میں کیا۔
عبدالقادر حسن محض صحافی ہی نہیں تھے، ایک زمیندار بھی تھے۔ کالموں میں اپنے آبائی گاؤں، زمینوں اور کسانوں کے مسائل و مصائب کا ذکر بھی اکثر کرتے تھے۔ خشک سالی میں کسان بارش کے ایک قطرے کو ترستے تو اس بیچارگی اور انتظار کا احوال بھی لکھتے۔ واللہ، اُن کی تحریروں کے اسی تنوع نے انھیں ممتاز ترین اور محبوب ترین کالم نگار بنا رکھا تھا۔ افسوس ملک الموت نے ہمارے ملک عبدالقادر حسن اعوان کو ہم سے چھین لیا ہے۔