ہوا بازی(Aviation ) کے ہمارے وفاقی وزیر، خان غلام سرور خان، نے ملک بھر کے کمرشل پائلٹوں کی ڈگریوں اور تجرباتی اسناد کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی ہے، پاکستان کے حصے میں نیک نامی نہیں آئی ہے۔ قومی ایئر لائن سمیت وطنِ عزیز کی کئی دیگر نجی ایئر لائنز سے وابستہ کئی پائلٹوں کی مہارت اور تعلیمی قابلیت پر سوالیہ نشان ثبت ہو گئے ہیں۔
کمرشل پائلٹوں بارے جناب سرور خان کی پیش کردہ رپورٹ کی اساس پر اندرونِ پاکستان اور بیرونِ پاکستان ہمارے درجنوں پائلٹوں کے لیے سنگین مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ اس منفی رپورٹ کی بازگشت پوری دُنیا میں سنائی دی گئی ہے۔ پاکستان کے امیج کو سخت دھچکا لگا ہے۔ ہم پر عدم اعتماد کے دائرے سے کھنچ گئے ہیں۔ وفاقی وزیر ایوی ایشن کی رپورٹ کے بعد تو اب ساری دُنیا میں ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ڈگریوں کو مزید اشتباہ کی نظروں سے دیکھا جائے گا۔
ہمارے بعض "معاملات " کی بنیاد پر پہلے بھی ہمیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ یہاں مجھے اپنا ایک ذاتی تلخ تجربہ یاد آ رہا ہے : امریکی صدر بِل کلنٹن کے پہلے صدارتی انتخاب کا وقت آیا تو مجھے میرے انگریزی اخبار نے امریکی صدارتی انتخابات کی کوریج کے لیے امریکہ بھیجا۔ اس غرض کے لیے راقم انتخابات سے ایک ماہ قبل نیویارک پہنچ گیا تھا۔
امریکی صدارتی انتخابات کی کوریج کے لیے ضروری تھا کہ میرے پاس یواین او کا جاری کردہ مخصوص کارڈ موجود ہو۔ کارڈ کے حصول کے لیے مَیں مین ہیٹن( نیویارک) میں واقع اقوامِ متحدہ کی عمارت میں واقع اُس سیکشن میں پہنچا جہاں کی ایک متعلقہ افسر (جس کا نام غالباً سونیا لیکا تھا) کارڈ جاری کرتی تھی۔ پیش ہُوا، اپنی غرض اُس کے سامنے رکھی تواُس نے کہا:تمہارے پاس اپنے اخبار کا اتھارٹی لیٹر ہے؟ مَیں نے پیش کیا۔ سونیا لیکا نے اسے بغور دیکھا اور فوراً لاہور میں میرے اخبار کے ایڈیٹر کو لیٹر فیکس کر دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ متعلقہ ایڈیٹر صاحب اس لیٹر کی تصدیق کریں۔
تھوڑی دیر بعد تصدیق نامہ فیکس پر ہی آگیا۔ سونیا لیکا مسکرائیں اور ایک گھنٹے بعد مجھے کارڈ جاری کر دیا۔ اس تھوڑے سے پراسیس سے مجھے اپنی توہین محسوس ہُوئی تو مَیں نے سونیا لیکا سے کہا: میڈم، کیامیرے نام جاری کردہ اخبار کے لیٹر کی تصدیق ضروری تھی؟ اسپاٹ لہجے میں وہ بولی :"ہاں، بالکل ضروری تھا، اس لیے کہ کچھ شکایات ہمارے پاس ایسی بھی آئی ہیں کہ پاکستان کے بعض لوگ اخبار کے جعلی لیٹر لے آتے تھے اور ہم سے کارڈ جاری کروا لیتے تھے، اب ہم نے یہ تصدیق لازم کر دی ہے۔"یہ کئی سال پہلے کا واقعہ ہے۔
ہمارے منفی امیج کی ایک کہانی پراچہ صاحب نے بھی لکھی ہے۔ ندیم ایف پراچہ صاحب انگریزی زبان میں لکھنے والے ہمارے ایک مشہور دانشور اورمصنف ہیں۔ انگریزی میں لکھی گئی دو شاندار کتابوں کے مصنف۔ کچھ عرصہ قبل اُنہوں نے ایک انگریزی معاصر میں اپنے مفصل آرٹیکل میں پاکستان کے امیج بارے ایک حیرت انگیز واقعہ یوں لکھا : "ابھی چند دن پہلے مَیں بوسٹن(امریکہ) میں تھا۔ وہاں ایک ایسی امریکی ماہرِ سیاسیات خاتون سے میری ملاقات ہُوئی جس نے 1969 میں سب سے پہلے پاکستان کا طویل سفر کیا تھا۔
یہ خاتون پندرہ برس بعد، 1984، میں دوبارہ پاکستان کے مطالعاتی دَورے پر آئیں۔ اُنہوں نے مجھے بتایا: ’جب مَیں پہلی بار پی آئی اے کی پرواز سے نیویارک سے کراچی آئی تو اُس وقت عام امریکیوں کے ذہن میں پاکستان کے بارے میں یہ امیج( تاثر) تھا کہ یہ ملک بھی ایشیائی ممالک کی طرح ایک پُر اسرار خطہ ہے لیکن بھارت سے کہیں زیادہ صاف سُتھرا۔ پاکستان کے بارے میں خیال قدرے مسحور کن تھا۔ جب مَیں پاکستان میں پہلی بار اُتری تو پاکستان کو اُسی طرح پایا جیسا کہ مَیں نے اس کے بارے میں ساتھی امریکیوں سے تاثرات سُنے تھے۔ مَیں نے بھارت بھی دیکھ رکھا تھا لیکن پاکستان آکر مجھے احساس ہُوا کہ یہ ملک بھارت کی نسبت زیادہ ماڈرن اور ترقی یافتہ ہے۔" یہی امریکی خاتون دوبارہ 1984 میں پاکستان آئیں، یہ جاننے کے لیے کہ رُوس مخالف جذبات اور تحریکیں پاکستان اور افغانستان پر کیا اثرات مرتب کررہی ہیں۔
ندیم پراچہ صاحب لکھتے ہیں : " مَیں نے اس امریکی ماہرِ سیاسیات اور دانشور خاتون سے پوچھا کہ دوسری بار پاکستان کے دَورے میں اُنہوں نے پاکستان کو کیسے پایا؟ میرا سوال سُن کر وہ خاتون بولیں :پاکستان اب پہلے کے مقابلے میں بہت بدل چکا تھا۔ افغان جہاد کی وجہ سے پاکستان قدامت پسندی اور مذہبیت اختیار کرتا جارہا تھا لیکن ابھی اِس کی حالت ایران کی طرح انتہا پسند اور غضبناک نہیں تھی۔" کالم نگار پراچہ صاحب نے امریکی خاتون سے استفسار کیا: " اب 2018 میں پاکستان کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟ سوال سُن کر وہ بولیں : ’مَیں نے تیسری مرتبہ پاکستان جانے کا ارادہ کیا ہے لیکن نہیں جا سکی۔ کبھی تو خاندان والے یہ کہہ کر ڈرا دیتے ہیں کہ پاکستان مت جانا، وہاں حالات نہایت خطرناک ہیں اور کبھی امریکی حکومت کی طرف سے ہم امریکیوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان جانے کے لیے حالات مناسب اور سازگار نہیں ہیں۔
اب ہم امریکیوں کے ذہن میں پاکستان کے بارے میں یہ امیج پختہ ہو چکا ہے کہ پاکستان اب کسی بھی طرح عراق، ایران، افغانستان اور شام سے مختلف نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس تاثر میں مبالغہ بھی ہے لیکن اِس کا کیا کِیا جائے کہ آجکل زیادہ تر امریکی عوام پاکستان کے بارے میں ایسے ہی تاثرات رکھتے ہیں۔"حیرانی ہے کہ پاکستان کے بہتر امیج کے لیے ہماری جری فورسز نے دہشت گردی کے خلاف کتنی بڑی جنگ کامیابی سے لڑی ہے لیکن امریکیوں کے ذہن نہیں بدلے۔
پراچہ صاحب نے تو امریکی خاتون کے پاکستان بارے اُس تصور (امیج) بارے لکھا ہے جو تقریباًدو سال پرانا ہے لیکن اب اس امیج کو جس اسلوب میں وفاقی وزیر غلام سرور خان کی رپورٹ نے منفی طور پر متاثر کیا ہے، اس نے حساس دلوں کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ وزیر اعظم جناب عمران خان نے ایک خاص ٹارگٹ کے تحت ملک میں پھیلی کرپشن اور مبینہ کرپٹ افراد کا ذکر جس تسلسل سے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک کیا ہے، اس سے بھی ہمارے دامن میں نیک نامیاں نہیں آئیں۔ اور اب وفاقی وزیر ہوا بازی نے ہمارے کمرشل پائلٹوں کی ڈگریوں بارے جو تہلکہ خیز رپورٹ پیش کی ہے، شرم سے ہمارے سر جھک گئے ہیں۔ 860پاکستانی پائلٹس میں سے مبینہ طور پر 260کے فلائنگ لائسنس مشکوک۔ اس بنیاد پر اندرونِ ملک و بیرونِ ملک ہمارے کئی کمرشل پائلٹوں کی ملازمتیں داؤ پر لگ گئی ہیں۔
کویت اور ویتنام نے بھی مبینہ طور پر کئی پاکستانی پائلٹوں کو گراؤنڈ کر دیا ہے۔ اور اب یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ چھ ماہ کے لیے (عارضی طور پر) معطل کر دیا ہے۔ برطانیہ نے بھی ہماری قومی ایئر لائن کے لیے ایسا ہی فیصلہ کیا ہے۔
کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ (وفاقی وزیر کے بقول) ہمارے کئی ایسے کمرشل پائلٹ بھی ہیں جو میٹرک پاس بھی نہیں ہیں۔ کوئی تو ہوگا جس نے ان لوگوں کو مسافروں سے بھرے جہاز اُڑانے کے لائسنس جاری کیے ہوں گے؟ وہ کون ہیں (یا تھے) جنہوں نے ایسے افراد کے ہاتھ میں موت کے پروانے تھما دیے؟ کیاہمارے قومی امیج کو بلڈوز کرنے والوں کا کبھی صحیح معنوں میں احتساب ہو سکے گا؟ کمرشل پائلٹوں کے حوالے سے ہمارے قومی چہرے پر جو دھبے لگے ہیں، یہ کتنی برساتوں سے دھل سکیں گے؟ وزیر ہوا بازی کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ شائد مجموعی مرض کا علاج نہیں ہے۔