انسانیت کی آخری رمق بھی معدوم ہو جائے تو درندگی اور وحشت جنم لیتی ہے۔ آٹھ برس قبل بھارتی دارالحکومت میں بھی کچھ ایسی ہی وحشت و درندگی نے رقص کیا۔ ویسے تو خود بھارتی سرکاری ذرایع نے تسلیم کیا ہے کہ گذشتہ سے پیوستہ سال، بھارت میں 35ہزار بے بس خواتین کا ریپ کیا گیا لیکن آٹھ سال پہلے (16دسمبر2012ء) رات کی تاریکی میں دِلّی میں ایک نوجوان ہندو خاتون کے ساتھ جو شیطانی اور وحشی کھیل کھیلا گیا، بھارت بھر میں اس کا ماتم کیا گیا۔
اس مظلوم خاتون کا نام نربھیا جیوتی سنگھ تھا۔ وہ میڈیکل کی طالبہ تھی اور اپنے ایک طالب علم ساتھی کے ہمراہ بس میں سوار گھر آ رہی تھی۔ آخری اسٹاپ سے پہلے بس میں دونوں طلبا کے علاوہ صرف چھ سات لوگ رہ گئے تھے۔ اچانک اُنہوں نے سب سے پہلے نربھیا جیوتی سنگھ کے ساتھی طالبعلم پر لوہے کی سلاخوں سے حملہ کیا اور اُسے شدید زخمی کرکے بیہوش کر ڈالا۔ حملہ آوروں میں پانچ ہندو اور ایک مسلمان تھا: اکشے ٹھاکر، ونے شرما، پون گپتا، مکیش سنگھ، رام سنگھ اور محمد افروز۔ ان چھ درندوں نے مل کر کمزور اور بے بس نربھیا جیوتی کو پہلے ریپ کیا اور پھر لوہے کی سلاخوں سے اُس کا جسم توڑ پھوڑ ڈالا۔ وہ بیہوش ہوگئی مگر بچ گئی تھی۔
سحری کے وقت پولیس نے اُسے شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا لیکن دِلّی اسپتال نے کہاکہ یہاں اس شدید مجروح نوجوان خاتون کا علاج نہیں ہو سکتا۔ فوری طور پر اُسے سنگا پور منتقل کیا گیا لیکن وہ موت کے منہ میں جانے سے بچ نہ سکی۔ اس موت پر بھارت بھر میں وہ طوفان اُٹھا کہ حکومت لرز کر رہ گئی۔ سب ملزمان گرفتار کر لیے گئے۔
ٹرائل ہُوا۔ مسلمان ملزم، محمد افروز، کو کمسن قرار دے کر تین سال کی قید بامشقت سنائی گئی اور باقی سبھی کو سزائے موت۔ دورانِ قید ایک سزا یافتہ مجرم نے خود کشی کر لی جب کہ باقی چاروں کو 19مارچ2020ء کی صبح دِلّی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ مجرموں نے موت سے بچنے کے لیے بڑے ہتھکنڈے اور حربے آزمائے لیکن بچ نہ سکے۔ بھارت بھر میں اس اقدام پر اظہارِ اطمینان کیا گیا ہے۔ مقتولہ کی غریب والدہ (آشا دیوی) نے کہا: آٹھ سال بعد میری بیٹی کے وحشی قاتلوں کو پھانسی دی گئی ہے تو مجھے سکون بھی ملا ہے اور انصاف بھی!
نربھیا جیوتی سنگھ کے وحشی قاتلوں کو بھارت نے پھانسی دے کر اچھا اقدام کیا ہے۔ کاش، مقبوضہ کشمیر کی ننھی اور مظلوم آصفہ بانو کے قاتل بھی اِسی طریقے سے پھانسی پر چڑھائے جاتے۔ معصوم آصفہ بانو سے بھی ویسا ہی وحشیانہ سلوک کیا گیا جیسا نربھیا جیوتی سے کیا گیا تھا۔ آصفہ تو ویسے بھی اس لیے زیادہ مظلوم تھی کہ وہ بہت کمسن تھی۔ اُسے جنسی تشدد اور قتل کا ہدف بنانے والا سب سے بڑا ملزم مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کا ایک معروف سیاستدان تھا۔ قاتل، وحشی کو مگر سزا دی گئی نہ اُسے جیل میں ڈالا گیا۔
کیا صرف اس لیے کہ مقتولہ آصفہ مسلمان بھی تھی اور مظلوم ومجبور کمیونٹی سے تعلق رکھتی تھی؟ کیا بھارتی عدالتیں انصاف فراہم کرتے ہُوئے تعصب کا ترازو تھامتی ہیں؟ یہ دیکھ اور سُن کر دل درد سے کانپ اُٹھتا ہے کہ مظلوم و مقتول آصفہ بانوپر ایک نجی بھارتی ٹی وی پر ٹاک شو میں بحث کرتے ہُوئے ایک ریٹائرڈ بھارتی جرنیل (میجر جنرل ایس پی سنہا) نے کشمیری مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہُوئے ایسا شرمناک بیان دیا تھا کہ اس کی مذمت میں ہمارے صدر ِ مملکت، ڈاکٹر عارف علوی، نے بھی تڑپ کر ٹویٹ کی تھی۔ ایسے میں مقبوضہ کشمیر کے باسی بھلا کیونکر بھارت کے ساتھ رہ سکتے ہیں؟ کشمیریوں کے حالِ دل کی یہی کہانی امریکی اخبار "واشنگٹن پوسٹ" نے، مارچ 20 20 کے پہلے ہفتے، ایک سروے کی زبانی، ساری دُنیا کو سنائی ہے۔
"واشنگٹن پوسٹ "میں شایع ہونیوالے اس تازہ ترین سروے کے مطابق: مقبوضہ جموں و کشمیر کے 91 فیصد جواب دہندگان مقبوضہ وادی سے بھارتی قابض افواج کا فوری انخلاء چاہتے ہیں جب کہ سروے میں مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریتی علاقہ کے80 فیصد رائے دہندگان نے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزادانہ ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، یہ سروے یونیورسٹی آف کشمیر اورسکڈمور کالج (نیویارک )کے محققین نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔ سروے ٹیم نے سرینگر میں یونیورسٹیوں اور کالجز کے 600 طلبا و طالبات کاانٹرویو لیا۔ سروے میں کہا گیا ہے :"92 فیصد کشمیری رائے دہندگان نے وادی کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کے لیے غیر متشددانہ جمہوری طریقے اختیار کرنے کی حمایت کی، جب کہ 64 فیصد طلبا نے کہاکہ مسئلہ کشمیر کا واحد اوربہترین حل جہاد ہے۔
کئی اسٹوڈنٹس مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے پیش کردہ چار نکاتی فارمولے کی تائیدوحمایت بھی کرتے پائے گئے۔" امریکی اخبار کی زیر نگرانی مقبوضہ جموں و کشمیر میں کروائے جانے اس غیر جانبدارانہ سروے کے نتائج بھارت کی ہندو قوم پرست مودی حکومت کے دعوؤں کے برعکس ہیں کہ ( مقبوضہ کشمیر بارے) بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دیکر مقبوضہ وادی کو مکمل طور پر بھارت میں ضم کرنے سے کشمیر ایشوہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔
مذکورہ سروے میں شامل سکڈمور کالج( نیویارک) میں سیاسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر اور کشمیر اسٹڈی کی مصنفہ ییلینا بائبرمن کا کہنا ہے کہ سروے میں ملنے والے جوابات کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکلتاہے کہ کشمیری نوجوانوں کی واضح اکثریت بھارت سے مکمل آزادی چاہتی ہے۔" واشنگٹن پوسٹ "کے مطابق: سروے میں واضح طور پر اجاگر ہوا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی افواج کے سنگین و ظالمانہ کریک ڈاؤن اور ذرایع مواصلات کی مستقل بندش کے باوجود بھی کشمیری نوجوانوں کی بڑی اکثریت پُرامید ہے کہ کشمیری عوام کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی اور جلد یابدیر مقبوضہ وادی کے لوگوں کا حقِ خودارادیت بہرصورت تسلیم کرلیا جائے گا۔
معروف اور معتبر امریکی اخبار ( واشنگٹن پوسٹ) نے اگر اپنے حالیہ سروے میں غاصب بھارت کے خلاف مظلوم کشمیریوں کے اصل جذبات کو طشت از بام کیا ہے تو ایک خلیجی ملک کے ممتاز میڈیا ( الجزیرہ) نے ہمیں اپنی تازہ ترین رپورٹ میں یہ بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا پورا میڈیا (الیکٹرانک و پرنٹ)بھارتی جبر تلے بُری طرح سانسیں لے رہا ہے۔"الجزیرہ" نے 18مارچ2020ء کو عالمی شہرت یافتہ ادارے (IPI) کے حوالے سے بتایا ہے کہ پچھلے 8ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج، اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں کی نگرانی میں کشمیری صحافیوں اور تمام کشمیری صحافتی اداروں کا جینا حرام کر دیا گیا ہے۔
کشمیری اخبار نویسوں کے خلاف جبر، استحصال اور توہین کے جملہ ہتھکنڈے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ یہ رپورٹ ایک ہندو محقق( روی آر پرشاد) نے جاری کی ہے۔ روی پرشاد صاحب ویانا (آسٹریا) میں ہیڈ آفس رکھنے والے تحقیقی ادارے IPIکے ڈائریکٹر ہیں۔ دل دہلا دینے والی اس تفصیلی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر کے کئی صحافیوں کے انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں جنھیں گذشتہ آٹھ مہینوں کے دوران کئی بھارتی اداروں کی طرف سے متنوع مظالم سہنا پڑے ہیں۔ حفظِ ماتقدم کے تحت، رپورٹ میں کئی کشمیری صحافیوں کے نام بدل دیے گئے ہیں لیکن کئی صحافیوں نے جرأت سے اپنے اصل نام شایع کرنے کے اجازت دی ہے۔ جس روز IPIکی مذکورہ تہلکہ خیز رپورٹ نے دُنیا کے سامنے بھارت کا گھناؤنا چہرہ ایک بار پھر بے نقاب کیا، اُسی روز نیویارک میں بروئے کار بین الاقوامی سطح پر صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والے عالمی ادارے (CPJ) کی سینئر ایشیا ریسرچر نے بھی یہ انکشاف کرکے دُنیا کو بتایا ہے کہ عالمی لعن طعن اور مذمتوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں بھارت مختلف النوع جبریہ اقدامات سے باز نہیں آرہا۔