بڑی عید یعنی عیدالاضحی میں چند دن ہی رہ گئے ہیں۔ صرف پانچ دن۔ بڑی عید کی مگر بڑی خوشیاں چند ایک ہی کو میسر ہیں۔ نئے پاکستان کے نئے حکمرانوں نے پاکستان کے غریبوں کے لیے جو حالات پیدا کر دیے ہیں، ان میں عید کی خوشیاں کہاں؟ خوشی اور مسرت کے ان ایام میں اگر کوئی شخص غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب کر زندگی ہار جائے تو زیادہ حیرت کی شاید بات نہیں۔ عید کے ان دنوں میں اگر کوئی غریب باپ اپنے بچوں کو عید کے لیے کپڑے خریدنے کے بجائے اُن کے لیے زہر خرید لائے تو؟ اور ساتھ خود بھی زہر کی پُڑیا پھانک لے تو؟ زندگی اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔ ہم سب جانتے مانتے ہیں۔ اور اگر کوئی اپنی اور اپنی جان سے پیارے معصوم بچوں کی زندگیوں کے چراغ خود ہی گُل کر دے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کتنی مجبور، بیکس اور مظلومیت کی زندگی گزار رہا ہوگا۔ جی ہاں ایسا ابھی ابھی ہُوا ہے۔
نئے پاکستان میں مظلومیت اور بیچارگی کی المناک داستان ابھی تین چار دن پہلے رقم ہُوئی ہے۔ 24جولائی2020 کو یہ سوہانِ رُوح واقعہ پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل ظفروال کے گاؤں، وریام، میں وقوع پذیر ہُوا ہے۔ یہاں کے ایک مزدور، محمد قدیر، نے غربت، عسرت، تنگدستی اور بیکسی سے تنگ آ کر خود بھی زہر پی لیا اور اپنے تین بچوں (سات سالہ عائشہ، پانچ سالہ رحمان، تین سالہ ریحان) کو بھی زہر پلا دیا۔ محمد قدیر اسکول کے بستے بنانے کا کام کرتا تھا۔ کورونا کا غارتگر اور مسموم موسم آیا تو سب کچھ لُوٹ کر لے گیا۔ کاروبار بند ہو گیا اور بینک سے لی گئی قرض کی رقم کا سود بڑھتا بڑھتا گلے تک آ پہنچا تھا۔
بینک کے ہرکارے ہر دوسرے روز اُس کے گھر آتے اور قرض اور اس کی ماہانہ قسط کی واپسی کا تقاضا کرتے۔ وہ عید پر بھی نہ ٹلے۔ آ دھمکے۔ اُدھر عید کا چاند طلوع ہُوا، اِدھر قدیر کی زندگی کا چاند غروب ہو گیا۔ محمد قدیر کے بچوں نے نئے کپڑوں کی ضد کی تو وہ تینوں معصوم بچوں کو لے کر بازار گیا، زہر خریدا اور نسبتاً ایک ویران علاقے میں چلا گیا۔ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قیامت کی اُن گھڑیوں میں قدیر کی نفسی اور ذہنی کیفیات کیا ہوں گی؟ موت و حیات کی دہلیز پر کھڑے محمد قدیر کے بے بس اور بے کس ذہن میں مایوسی کی کیسی کیسی آندھیاں چل رہی ہوں گی۔ اِنہی آندھیوں میں اُس نے تینوں بچوں کو باری باری زہر پلایا اور پھر خود بھی زہر پی کر موت کی وادی میں اُتر گیا۔ زندگی جہدِ بے ثمر اور نارسائی کا ماتم بن گئی تھی۔
"وریام" گاؤں کے اُس میدان میں دھوپ میں جلتے بے حس چار بدن کسی نے دیکھے تو پولیس کو بلا بھیجا۔ پولیس آئی تو چاروں کو اُٹھا کر نارووال کے ڈی ایچ کیو پہنچایا۔ مگر ڈاکٹروں کی امداد پہنچنے تک محمد قدیر اپنے خالق کے پاس پہنچ گیا۔ تینوں بیہوش بچوں کو فوری طور پر لاہور کے چلڈرن اسپتال پہنچایا گیا۔
جہاں وہ اب موت و حیات کی کشمکش میں ہیں۔ روزنامہ "ایکسپریس" نے اپنے فرنٹ پیج پر بد نصیب محمد قدیر اور اُس کے کم نصیب تینوں بچوں کی فوٹو بھی شایع کی ہیں اور خبر کے ساتھ یہ سرخی بھی جمائی ہے :"نئے پاکستان میں بے روزگار باپ کا المناک انجام۔" یہ سانحہ عین اُس روز پیش آیا ہے جس روز اُن انتخابات کی دوسری سالگرہ تھی جن انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی اور جناب عمران خان حکومت کے تخت پر بیٹھے۔"ریاستِ مدینہ" کے نعروں کی گونج میں اقتدار سنبھالنے والوں کے اس دَور میں " وریام" کے دروبام پر عید سے پانچ دن پہلے یہ قیامت اُتری ہے۔ راگ درباری گانے والوں کو مگر "وریام" کے اُس مجبور والد کی چیخیں سنائی دی ہیں نہ اُن تین معصوم بچوں کے آنسو دکھائی دیے ہیں جو زہر ِ ہلاہل نوشِ جاں کرنے پر مجبورپائے گئے ہیں۔
یہ روح فرسا سانحہ اُس علاقے میں پیش آیا ہے جہاں کی ایم این اے کا نام مہناز اکبر عزیز ہے اور اس علاقے میں ایم پی اے پیر سید سعید الحسن ہیں۔ مہناز عزیز صاحبہ سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز کی اہلیہ ہیں اور سعید الحسن صاحب پنجاب کابینہ میں وزیر مذہبی امور و اوقاف۔ اس علاقے سے خواتین کی سیٹوں پر پی ٹی آئی نے ایک خاتون، وجیہہ اکرم، کو بھی ایم این اے منتخب کررکھا ہے۔ یہ محترمہ پارلیمانی سیکریٹری بھی بیان کی جاتی ہیں۔ تینوں مقتدرین مگر محمد قدیر کی حالت زار سے لاعلم رہے۔
تینوں اپنی اپنی اسمبلیوں سے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول تو کرتے رہے لیکن اپنے غریب و مسکین ووٹر، محمد قدیر، کی بیکسی سے قطعی بے خبر۔ قیامت کے روز یہ بے بس باپ اور اُس کے بھوک زدہ بچوں کے بارے میں یہ تینوں مذکورہ ارکانِ اسمبلی جواب دہ ہوں گے۔"وریام" میں اُترنے والی اس قیامت کے ستم زدگان کی ذمے دار محترمہ ثانیہ نشتر بھی ہیں اور اُن کے باس جناب عمران خان بھی جو اپنے کسی امدادی اور اعانتی پروگرام کی ڈھولک بجا کر دعوے کرتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم اربوں روپیہ غریبوں میں تقسیم کر چکے ہیں۔ اس امداد میں سے کیا کوئی رقم غریب اور قرض دار محمد قدیر تک نہیں پہنچ سکتی تھی؟ لیکن یہ رقم نہ پہنچ سکی اور نہ کوئی محمد قدیر کی گردن بینک کے معمولی سے قرض سے چھڑا سکا۔ یہ دلدوز واقعہ اُس ملک اور اُس حکومت میں پیش آیا ہے جس نے پچھلے سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے انتہائی دولتمند اور طاقتور صنعتکاروں کے208ارب روپے معاف کر دیے تھے۔
یہ 208ارب روپے ان دولتمند صنعتکاروں نے حکومتِ پاکستان کو ادا کرنا تھے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے کمال سخاوت اور دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہُوئے یہ بھاری بھرکم رقم انھیں معاف فرما دی۔"وریام" کے مزدور اور تہی دست محمد قدیر کے چند ہزار روپے مگر معاف نہ کیے جا سکے۔ انصافیوں کی حکومت میں یہ ہے انصاف۔
ہم سب "وریام" کے محمد قدیر کے المیے کے ذمے دار ہیں۔ ریاستِ پاکستان اُس کی موت کی براہِ راست ذمے دار ہے۔ ریاستِ مدینہ کا جانفزا نعرہ بلند کرنے والے خانصاحب اس کے سب سے زیادہ ذمے دار ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی ارب کھرب پتی قیادت بھی محمد قدیر کی موت اور اُس کے بچوں کی زہر خورانی کی ذمے دار ہے۔ پاکستان کے وہ سب سرمایہ دار، جاگیردار اور صاحبانِ اقتدار محمد قدیر کی المناک موت کے ذمے دار ہیں جنھوں نے ریاستِ پاکستان سے اربوں روپے قرض لیے اور پھر ڈکار گئے۔
پاکستان بھر کی وہ مذہبی قیادتیں اور ارب پتی گدی نشین بھی اس المیے کے ذمے دار ہیں جو مہنگے جبہ و دستار پہنے مہنگی گاڑیوں میں سوار ہو کر ہمیں تبلیغ تو کرتے ہیں لیکن اُن کی ناک کے عین نیچے کئی محمد قدیر بیچارگی، عسرت، تنگدستی اور غربت سے تنگ آ کر خود بھی زہر پیتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی زہر پلادیتے ہیں۔ غربت کے ہاتھوں موت کی وادی میں اُترنے والے محمد قدیر کے سانحہ کے کارن دل و دماغ پر مایوسی اور پژمردگی کی دھند سی چھا گئی ہے۔
ایسے میں ن م راشد کی ایک نظم شدت سے یاد آ رہی ہے : "یہ قدسیوں کی زمیں /جہاں فلسفی نے دیکھا تھا اپنے خوابِ سحر گہی میں /ہوائے تازہ و کشتِ شاداب و چشمہ جانفروز کی/آرزُو کا پر تَو/یہیں مسافر پہنچ کے اب سوچنے لگا ہے:وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟ /وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟ /اے فلسفہ گو!کہاں وہ رویائے آسمانی؟ /کہاں یہ نمرود کی خدائی/تُو جال بُنتا رہا جن شکستہ تاروں سے اپنے موہوم فلسفے کے/ہم اُس یقیں سے، ہم اُس عمل سے، ہم اُس محبت سے/آج مایوس ہو چکے ہیں "۔