ایامِ کورونا میں 28مئی کا تاریخ ساز دن (یومِ تکبیر) آیا اور گزر گیا۔ پچھلے دو عشروں کے دوران غالباً پہلی بار ایسا ہُوا ہے کہ "یومِ تکبیر" کے حوالے سے کوئی بڑی تقریب منعقد نہیں ہُوئی۔
شائد کورونا وائرس کی وبا کے کارن۔ البتہ نون لیگ نے لاہور میں محدود سی ایک تقریب میں اس قوت بخش دن کو بھی فخر سے یاد کیا اور اپنے قائد نواز شریف صاحب کو بھی جن کے دَور میں پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں زیادہ ایٹمی دھماکے کرکے ساری اسلامی دُنیا میں اوّلین اور ممتاز حیثیت حاصل کی۔ نواز شریف کی صاحبزادی، مریم نواز شریف، نے بھی خاصے دنوں کی خاموشی کے بعد 28مئی کے حوالے سے ٹویٹ کی اور اپنے والد صاحب کو مسرت سے یاد کیا۔
محترمہ مریم نواز شریف نے گزشتہ روز لندن میں اپنے والد صاحب کے حوالے سے کسی کی خفیہ طور پر کھینچی گئی فوٹو پر جو ٹویٹی ردِ عمل دیا ہے، اُسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لاہور ہائیکورٹ کے کچھ وکلا نے بھی "یومِ تکبیر" کے موقعے پر نواز شریف کی صحت کے حق میں دعا کروائی لیکن حیرانی کی بات ہے کہ دوسرے روز مبینہ طور پر انھی وکلا کے چیمبروں کے تالے ٹوٹے ہُوئے دیکھے گئے۔ حکمران جماعت کی بعض شخصیات نے اس "یومِ تکبیر" کے موقعے پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نامناسب الفاظ سے یاد کیا اور دعوے کیے کہ نواز شریف تو سرے سے ہی ایٹمی دھماکے کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ یہ حقائق سے بے خبری تو ہے لیکن ایسے دعوے کرنے والوں سے شکوہ کرنا بجا نہیں ہے۔
یہ اُن کی سیاسی مجبوریاں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو اور محمد نواز شریف کا جو کردار ہے، یہ عظیم اور بے مثال کریڈٹ اور اعزاز اُن سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ پاکستان کو کامیابی سے ایٹمی دھماکے کرنے، موٹر وے کا تحفہ دینے اور سی پیک کی عظمتوں سے نوازنے کے وہ عظیم الشان کارنامے اور اعزازات ہیں جو نواز شریف سے چھینے نہیں جا سکتے۔ بھٹو اور نواز شریف کی سیاست کو اس ملک سے مائنس نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ اس کے لیے زور بہت لگایا گیا ہے۔ یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں۔
مثال کے طور پر ایک خاتون سنتھیا رچی، جو امریکی ہونے کے باوجود پاکستان میں بیس بنائے بیٹھی ہے، کا محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف حالیہ ایک دل آزار ٹویٹ۔ پیپلز پارٹی نے اس خاتون کے خلاف ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ سے رجوع کیا ہے۔
ہمیں حیرانی تو اُن "دانشوروں "پر ہے جو اِس بار بعض نجی ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے کہ وطنِ عزیز کو جوہری طاقت سے لَیس کرنے میں نواز شریف کا کوئی کردار نہیں تھا۔ ان میں سے بعض چہرے خاصے شناسا ہیں جو نواز شریف کے دَور میں نجی ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اور اخبارات و جرائد میں اپنی زبان اور قلم کی پوری توانائیاں صَرف کرتے ہُوئے یہ ثابت کرتے رہے ہیں کہ "یومِ تکبیر" کے حوالے سے صرف نواز شریف ہی کے گلے میں ہار ڈالے جا سکتے ہیں۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔
جناب نواز شریف نے پاکستان کو ایٹمی مملکت بنانے کے لیے عملی طور پر کیا ہمت دکھائی تھی، یہاں دس سال پہلے جرمنی کے مشہور نشریاتی ادارے (ڈاؤچے ویلے) کو دیے گئے جنرل (ر) ذوالفقار علی خان کے انکشاف خیز انٹرویو کا ذکر بے حد ضروری ہے۔ اٹھائیس مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کرنے والی پاکستانی ٹیم کے چیف اور اُس وقت افواجِ پاکستان کی انجینئرنگ کور کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) ذوالفقارعلی خان نے انٹرویو میں کہا تھا: " اگر بھارت ایٹمی دھماکے کر کے پاک بھارت دفاعی صلاحیتوں کا توازن خراب نہ کرتا تو پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہ آتی۔
18مئی 1998 کو بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے بعد (پاکستان کے خلاف) ہتک آمیز بیانات کا سلسلہ شروع کردیا تھا؛ چنانچہ پاکستان کو بھی جوابی ایٹمی دھماکے کرنا پڑے، حالانکہ پاکستان کے پاس تو ایٹمی صلاحیت پہلے سے آ چکی تھی۔ یہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہی تھی جس نے 2004میں سرحد پر فوجیں تعینات ہونے کے باوجود پاک بھارت جنگ کو روکا اور کارگل کی لڑائی کو پھیلنے سے بچایا۔ جو سنجیدہ لوگ نیوکلئیر صلاحیت اوراس کی حفاظت و مینجمنٹ کے نظام کو جانتے ہیں، وہ کبھی پاکستان کے نیو کلئیر اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کی بات نہیں کرتے۔ امریکی انتظامیہ سمیت مغرب کے ذمے دار حلقوں کو پورا یقین ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے اتنے ہی محفوظ ہیں جتنے کہ کسی ترقی یافتہ ملک کے ہو سکتے ہیں۔"
جنرل ذوالفقار کا کہنا ہے " پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنا ساری قوم کی خواہش تھی مگر اس کا بنیادی فیصلہ نواز شریف نے کیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان سمیت سب کی خدمات بڑی نمایاں ہیں لیکن ایٹمی دھماکوں کی کامیابی میں ڈاکٹر قدیر خان کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ روٹی پکانے میں جو کردار آٹے کا ہوتا ہے، اسی طرح ایٹمی دھماکوں میں استعمال ہونے والے میٹریل کی فراہمی کا سہرا ڈاکٹر قدیر خان کے سر ہے۔ (اٹھائیس مئی کے) دھماکوں سے پہلے ہر روز کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوتا تھا اور مَیں بھی اس اجلاس میں شریک ہوتاتھا۔ صدر کلنٹن کی طرف سے آنے والے ہر فون کے بعد ردِعمل کا جائزہ لیا جاتا تھا۔"
جنرل (ر) ذوالفقار اس سلسلے میں ایک حیرت انگیز واقعہ یوں سناتے ہیں : " امریکی افواج کے سربراہ جنرل زینی ایٹمی دھماکوں سے چند روز پہلے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے ملنے آئے۔ اس موقعے پر اُن کا رویہ بڑا ہی نا مناسب تھا۔ جنرل زینی نے کرسی پربیٹھتے ہی کہا کہ اگر پاکستان نے نیو کلئیر ٹیسٹ کیا تو اس کے نتائج پاکستان کے لیے بہت بھیانک ہوں گے۔
یہی جنرل زینی جب دھماکوں کے بعد 4 جون کو دوبارہ جنرل کرامت سے ملنے آئے تو وہ بالکل بدلے ہوئے تھے۔ اس موقعے پر اُن کا رویہ بڑا ہی باعزت اور برابری والا تھا۔ ایٹمی دھماکوں سے چند دن پہلے ہم اُس وقت کے سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان اور سلمان بشیر کے ہمراہ چینی حکام سے مشاورت کے لیے چین گئے تھے۔ واپسی پر ایک جگہ جہاز میں سوار ہوتے ہوئے کسی اجنبی شخص نے سلمان بشیر کو ایک چِٹ دی۔ جب ہم جہاز میں جا کر اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے تو سلمان بشیر نے چٹ نکال کر پڑھی تو اس پر لکھا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ آپ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آ رہے ہیں۔
اگر آپ نے (ایٹمی دھماکے کی طرف) پیش رفت جاری رکھی تو ہم آپکا قیمہ بنا دیں گے۔"جنرل ذوالفقار نے ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا :" 28 مئی 1998کو مَیں اس پہاڑ کے سامنے کھڑا تھا جس کے اندر بنائے جانے والے ایک غار میں دھماکہ کیا جانا تھا۔ اس ٹنل کی مخالف سمت میں ہم ایک جگہ پر اکٹھے ہوئے تھے۔ اٹامک انرجی کمیشن کے ایک جونئیر اہلکار، جوعمر میں سب سے بڑے تھے، سے کامیابی کی دعا کروائی گئی۔
رقت آمیز دعا کے بعد انھوں نے ہی بٹن دبایا۔ بٹن دبانے اور ایٹمی دھماکے میں گیارہ سیکنڈ کا تاخیری وقت رکھا گیا تھا۔ اورجب ایٹمی دھماکہ ہُوا تو ہمارے پاؤں تلے موجود زمین ہل گئی۔ یہ ریکٹر اسکیل پر چارسے چھ تک کی شدت کا ایک زلزلہ تھا۔ ہمارے سامنے موجود کالے رنگ کا مضبوط گرینائٹ پہاڑ پہلے گرے رنگ میں تبدیل ہوا، پھر اس کا رنگ آف وائٹ ہو گیا۔ اس پہاڑ میں 10لاکھ سینٹی گریڈ کا ٹمپریچر پیدا ہوا تھا۔ اس کے باوجود کوئی نیوکلئیر تابکاری وہاں سے خارج نہیں ہوئی۔"الحمد للہ۔ یہ بے مثل اعزاز افواجِ پاکستان کے حصے میں آیا کہ اُنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ایٹمی پروگرام کی حفاظت کی یہ اعزاز بھی اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا۔