Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Aik Bhayanak Saazish

Aik Bhayanak Saazish

ابھی الطاف بھائی کی علیحدہ صوبہ اور پھر علیحدہ ملک کی وارننگ کی گونج ہواؤں میں تھی کہ ایک ایسی بھیانک سازش کا انکشاف ہوا ہے جو محب وطن پاکستانیوں کے لیے بے حد پریشان کن ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا میڈیا جو بھیڑ چال کا شکارہے سنسنی خیزی پر مبنی خبروں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے بیشتر اہل صحافت کے ذرائع اطلاعات صرف شخصیات تک سمٹ کر رہ گئے ہیں اور انہوں نے مطالعے کی عادت قریباً ترک کر دی ہے۔ ورنہ جو اطلاع میں دینے جا رہا ہوں وہ اب تک ہر قومی اخبار کی پہلی یا دوسری سرخی بننی چاہیے تھی تاکہ قوم کو اس بھیانک سازش سے آگاہی ہو جو بدقسمتی سے ان کا مقدر بننے والی ہے اور ہمارے وہ "بھولے بادشاہ" جو احمقوں کی طرح منہ اٹھائے صرف اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اس بین الاقوامی ایجنڈے کی پیروی میں باؤلے ہوئے جا رہے ہیں جس کا مقصد اور ٹارگٹ پاکستان کو (خاکم بدہن) ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہے کچھ عقل کریں اور حالات کی سنگینی کو پہچانیں گو کہ اس حوالے سے قبل ازیں بھی رینڈ کارپوریشن اور دیگر تحقیقی اداروں کی رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں جن میں خدانخواستہ پاکستان کی تخریب کے لیے 2015ء تا 2025ء کا وقت دیا گیا ہے اور وہ نقشے بھی منظر عام پر آچکے ہیں جو ان شیطانوں کے عزائم بتانے کے لیے کافی ہیں۔

تازہ ترین اور انتہائی معتبر ذرائع کی اطلاعات کے مطابق بعض این جی اوز کے وظیفہ خور اینکرز کی پسندیدہ دہشت گرد تنظیم بی، ایل، او (بلوچستان لبریشن آرگنائزیشن) خان آف قلات کے ساتھ مل کر بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) میں بلوچستان کی علیحدگی کا کیس دائرکرنے جا رہی ہے۔ اس ضمن میں "را" کی طرف سے دو اعشاریہ چار ملین ڈالر کی خطیر رقم وکلاء کے ایک پینل کو ادا کر دی گئی ہے۔ بھارت کی طرف سے صرف مالی مدد ملنے کے بعد اس مسئلے پر سیاسی اور اخلاقی مدد کے لیے خان آف قلات اور بی ایل او نے امریکہ کارخ کیا ہے تاکہ وہاں اپنے حمایتی امریکن سینیٹرز کی مدد سے اس کیس کی باقاعدہ سماعت کا آغاز کروا سکیں۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے فروری 2012ء میں بھی تین ری پبلک کانگریس مین جن میں ڈانا روہربیکر، لوئی گوہرمٹ Lovie Gohmert اور سٹیوکنگ شامل ہیں نے یوایس کانگریس میں ایک بل اس عنوان سے پیش کیا تھا۔

Balochistan is currently divided between Pakistan, Iran and Afghanistan with no sovereign rights of ist own. In Pakistan Balochistan the people are subjected to violence and extra judicial killing. The bill favoured Baloch rights of self determination، having a sovereign state and must be afforded the opportunity to choose their own status.

چند روز پہلے یو ایس سب کمیٹی آف اوور سائیٹ اینڈ انویسٹی گیشن آف دی ہاؤس کمیٹی آف فارن افیئرز بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی قائل ہونے کے بعد اس پر بلوچ علیحدگی پسندوں کا موقف سننے کے لیے تیار ہوگئی ہے۔ اس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت ڈانا روہربیکرنے کی جبکہ اس تحریک کا محرک کرنل رالف پیٹرتھا۔ اگر آپ کا حافظہ سلامت ہے تو یاد کیجئے کہ یہ وہی کرنل رالف پیٹر ہے جس نے 2006ء میں مڈل ایسٹ کی مسلم حکومتوں کا اپنے شیطانی ذہن سے تیار کردہ نقشہ جاری کیا تھا جس میں مسلمانوں کی مذہبی عقائد کی بنا پر تقسیم کے بعد نئی ریاستوں کانظریہ پیش کیا گیا ہے۔ اس نقشے میں کئی مسلم ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے کہ حصے بخرے کر دیئے گئے تھے۔

امریکہ کی طرف سے کوئٹہ میں قونصلیٹ قائم کرنے کے لیے پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھایا جا رہاہے تاکہ اپنا باقاعدہ مرکز قائم کرکے اس خطرناک ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے اور امریکن کانگریس میں ایک ایسا گروپ قائم ہو چکا ہے جو بلوچستان کی علیحدگی کے لیے سر گرم عمل ہے۔ یہ وہ ناراض کانگرس مین ہیں جو پاکستان سے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے پر شاکی اور پاکستان کو اس حرکت کا مزہ چکھانے کے لیے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ مذکورہ تینوں ریپبلکن کانگریس مین زورشور سے اس مہم پر گامزن ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے لندن میں بھی اس حوالے سے ایک اہم کانفرنس کی اور اس مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

دوسری طرف بھارت کی طرف سے علیحدگی پسندوں کو مالی معاونت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں تربیت اور اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ زور شور سے جاری ہے۔ اگر اگلے الیکشن میں امریکہ میں ریپبلکن برسراقتدار آتے ہیں تو ابھی سے جان لیجئے کہ بلوچستان میں خونریزی اور دہشت گردی کو پر لگ جائیں گے۔ خصوصاً ہمارے الیکٹرونک میڈیا پر این جی اوز مارکہ میڈیائی دانشوروں کا حملہ تیز ہو جائے گا اور برسر اقتدار آنے والے ریپبلکن کے یہ تینوں کانگریس مین انسانی حقوق کے نام پر اپنی حکومت سے دہشت گردوں کے لیے مزید فنڈز بھی آسانی سے جاری کروا دیں گے۔ معتبر ذرائع یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کانگریس مینوں نے ایرانی بلوچستان (سیستان) میں بھی بلوچوں سے رابطہ کر لیا ہے اور "جند اللہ" سے ان کے تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں۔

بلوچستان میں کامیاب بلدیاتی انتخابات کے بعد یہاں کے عوام براہ راست اپنے مسائل کا حل نکالنے کے قابل ہو گئے ہیں اور سیاسی محرومی کا ڈرامہ اب فلاپ ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک خود ایک لبرل نیشلسٹ ہیں اور وزارت اعلیٰ سنبھالنے کے بعد ان کی رسائی یقیناًبعض ایسے حقائق تک ہوگئی ہوگی جو پہلے ان کے علم میں نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جیسا لبرل شخص بھی علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کی ذمہ داری بھارت اور افغانستان پر ڈال چکا ہے لیکن دوسری طرف میڈیا میں موجود غیر ملکی ایجنسیوں کے تنخواہ دار ایجنٹ جن کو تنخواہ ہی اس مسئلے کو اچھالتے رہنے کی ملتی ہے اپنے کام میں جتے ہیں۔ جبکہ وہ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ علیحدگی پسندوں کو سوائے دو تین لالچی، موقع پرست اور عیاش سرداروں کے اور کسی کی حمایت حاصل نہیں اور خصوصاً دہشت گردوں کی طرف سے آواران کے زلزلہ زدگان کو دی جانے والی سرکاری اور ویلفیئر تنظیموں کی امداد کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے اور زلزلہ زدگان سے زبردستی امداد چھیننے کے واقعات نے ان کی اصلیت بے نقاب کر دی ہے۔

اس مرحلے پر ان دہشت گردوں کو اگر میڈیا کی مدد حاصل نہ ہو تو ان کی نام نہاد تحریک خود ہی دم تو ڑجائے گی کیونکہ پاکستان آرمی کے سابق اور موجودہ چیف نے بلوچستان کے نوجوان تعلیم یافتہ طبقے میں ویلفیئر سرگرمیوں کے ذریعے اپنی جگہ بنائی ہے اور درجنوں ہسپتال، تعلیمی ادارے اور بلوچستان کے نوجوانوں کو خصوصی مراعات کے ساتھ، سرکاری نوکریاں بالخصوص فوج میں بھرتی کے بعد ایک سازش کے تحت پھیلائی گئی دوریاں ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان بین الاقوامی سازشوں کے نرغے میں پھنسا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ سازش تب ہی کامیاب ہوگی جب سازشیوں کو آستین کے سانپ کی پشت پناہی ملے گی۔ اگر ہم نے اپنی صفوں میں موجود ان نام نہاد میڈیا پرسن کو پہچان لیا جو نہ صرف ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں بلکہ ہر محب وطن کو عوام کی نظروں میں مشکوک بنانے کی مہم بھی زور و شور سے چلاتے ہیں تو یہ جان لیجئے کہ ہم آدھی جنگ جیت جائیں گے۔