عزیر بلوچ کے حوالے سے آئے روز انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔ ہماری حکومت خصوصاً وہ بیورو کریسی جو ملکی سلامتی کی ذمہ دار ہے کی کیا پالیسی ہے، وہ معاملات کو کس طرح چلانا چاہتے ہیں؟ ان کی ترجیحات کیا ہیں اور تزویراتی حکمت کیا ہے؟ شاید دنیا کا کوئی ماہر عمرانیات اس سوال کا جواب نہ دے سکے کہ حکومت کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں ہوتا لیکن خفیہ ریکارڈنگ، تحریر، بیان، جے آئی ٹی رپورٹس منظر عام پر آجاتی ہیں جن کا حکومتی ذمہ دارنہ انکار کرتے ہیں نہ اقرار۔ عوام کو آپس میں لڑنے جھگڑنے، میڈیا کو رائی کا پہاڑ بنانے پر البتہ لگائے رکھتے ہیں۔
صولت مرزا کی آخری دنوں میں ریکارڈنگ منظر عام پر آئی جس میں اس نے اپنی آخری وصیت جان کر سچ ریکارڈ کروایا۔ میں یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ اتنا احمق تھا، محض اس لالچ میں سچ اگل دیا کہ اسے آخری مراحل پر پھانسی سے بچالیا جائیگا۔ جرم کی جس دنیا کا وہ مکین تھا وہاں امکانات پر زندگی کا دار ومدار نہیں ہوتا۔ صولت مرزا بھی جان گیا تھا کہ اس نے اپنے بڑوں کے سمجھانے کے باوجود ان کی مرضی کا بیان نہیں دیا۔ اب وہ اسے زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ اسے بہر حال مرنا تھا۔ جیل میں نہ مرتا تو جیل کے باہر مارا جاتا۔ اس کے باوجود صولت مرزا نے یہ ریکارڈنگ کرائی، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ مارا گیا بے چارہ۔ اتنی پھرتی سے اس کا "عدالتی قتل" ہوا کہ بھٹو کی پھانسی کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔ مرکزی حکومت کو بے بس کرنے کے بعد صوبائی حکومت نے صولت مرزا کو ماردیا۔
ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث جس لڑکے کی غیر قانونی ٹیپ کا وفاقی وزیرداخلہ صاحب "جائزہ" لے رہے ہیں کہ یہ جیل سے باہر آئی کیسے؟ وہ بھی اپنی خیر منا لے؟ خوش قسمتی سے یہ نوجوان پنجاب میں موجود ہے، سندھ ی جیل میں ہوتا تو برق رفتاری سے مقدمہ چلنے کے بعد جیل کے ہی کسی ساتھی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ گیا ہوتا۔ اللہ اس کی حفاظت فرمائے۔ اگر کسی کا ضمیر جاگ گیا ہے تو اسے معاشرتی تحفظ بھی ملنا چاہیے۔ ساری دنیا میں وعدہ معاف گواہ کو آئینی تحفظ دیا جاتا ہے، مجھے علم نہیں۔ خالد شمیم کی عمران فاروق قتل میں کیا پوزیشن ہے لیکن دعا ہے اللہ اس کی حفاظت کرے۔
عزیر بلوچ کے حوالے سے یوں تو ہرروز کوئی نہ کوئی بھیانک انکشاف پڑھنے کو ملتا ہے لیکن یہ جان کر تو ہر پاکستانی سناٹے میں آجاتا ہے کہ اس کا سیف ہاؤس "ایران" تھا۔ ایرانی پاسپورٹ، ایرانی رہائس، ایرانی بینک اکاؤنٹس اور سب سے بڑھ کر ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی کو حساس معلومات فراہم کرنے کا اقرار۔ ظاہر ہے عزیر بلوچ کراچی کے ساحلی علاقے میں رہتا ہے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں اس کا اثر ورسوخ اور محفوظ پناہ گاہیں تھیں اور ایرانی انٹیلی جنس کو پاکستان نیوی سے متعلق حساس معلومات بھی دی جاتی ہوں گی۔
امید تو یہی ہے کہ اس بیان کے منظر عام پر آنے سے پہلے انٹیلی جنس ایجنسیوں نے عزیر بلوچ کے ان ساتھیوں تک رسائی حاصل کرلی ہوگی جوان معلومات کی فراہمی کا انتظام اور اہتمام کرتے تھے۔ خیال رہے کہ بھارتی دہشت گرد کلبھوشن کا تعلق بھی نیوی سے ہے اور چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں بھارت کا کردار اور عزائم بھی ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ یقیناوہ لوگ بھی اس سے آگاہ ہوں گے جو عزیر بلوچ کے "سہولت کار" تھے۔ ان میں بڑی اہم سماجی، سیاسی اور معاشرتی حیثیت کی حامل شخصیات شامل ہیں جو عزیر بلوچ کے ذریعے قتل، اغوا، ڈکیتی، منی لانڈرنگ کی وارداتیں کرواتے تھے۔ انہیں یقیناََ اس بات کا علم بھی ہوگا کہ عزیر بلوچ ایران کے لئے کس نوعیت کی خدمات انجام دے رہا ہے؟
لعنت ہوایسے بے غیرت سیاستدانوں پر جو ملکی سالمیت کی قیمت پر اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرتے اور یہاں مستقل ڈیرے ڈالنے کے لئے ایسی غلیظ حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر تو اب آرمی یا آئی ایس آئی کو پاکستان کے نوے فی صد سے زیادہ محب وطن لیکن بے بس اور بے چارے عوام کا یہ طعنہ ختم کردینا چاہیے کہ "جب فوج اور آئی ایس آئی کو ان باتوں کا علم ہے تو وہ کچھ کرتے کیوں نہیں۔ " اور عزیر بلوچ سے پہلے ان بے شرم سیاستدانوں کو کٹہرے میں لانا چاہیے جو ملک سے غداری کرنے والوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں اور جے آئی ٹی کی درخواست پر ان کے خلاف تمام تحفظات پر لعنت بھیج کر فوجی عدالتوں میں کیس چلانے چاہئیں لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ کیوں؟ میری اوقات نہیں کہ آپ کو اس سوال کا جواب دوں؟
میں تو اللہ رسول ﷺکے نام پر بننے والے اس ملک کے ایک عام شہری کی حیثیت سے حکومت سے نہیں اپنے ان بزرگوں کی روحوں سے سوال کرتا ہوں کی اسلام کی اس تجربہ گاہ کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی تھی جس کو (خاکم بدھن) ملیامیٹ کرنے کے لئے مسلمان ممالک ہی اتاولے ہورہے ہیں۔
افغانستان اور ایران پاکستان کے ہمسایہ ممالک ہیں ٹھیک ہے ہم بھی اس گناہ میں شامل ہیں کہ محض "اسلامی بھائی چارہ" قائم رکھنے کے لئے پاکستان کی جڑوں پر کلہاڑا چلانے والے اان مسلم ممالک کے بہت سے کارناموں کو پاکستانی عوام سے محض اس خوف سے چھپاتے رہے کہ کہیں لوگوں کا ایمان بھی "اسلامی بھائی چارے" سے نہ اٹھ جائے ورنہ تو افغانستان میں روس کی آمد کے بعد سے آج تک کسی مرحلے پر ایرانی مسلم برادر نے پاکستان کو معاف نہیں کیا، میں ماضی کے گھناؤنے واقعات کا حوالہ دے کر اس انتشار کو ہوا نہیں دینا چاہتا لیکن اپنی منافق سیاسی قیادت سے یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کہ انہوں نے ایران کے اس گھناؤنے کردار پر پردہ کیوں ڈالے رکھا؟ اب آپ کو بتانا ہوگا کہ بھارت نے بین الاقوامی سرحد کی ایک سال میں کتنی خلاف ورزیاں کی ہیں؟ ایران نے کتنی مرتبہ پاکستانی سرحدوں کا تقدس پامال کیا؟ ہم جس برادر ایران کے ساتھ رشتہ داری کے لیے پاگل ہوتے جا رہے ہیں، جس کیلئے ہم نے "براد راسلامی ملک"کا خطاب اختیار کیا، اس نے پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد کے گرد بھارت کی طرح آہنی باڑ اور دیوار کی تعمیر کیوں شروع کر دی؟
آئے روز ایرانی افواج کی طرف سے پاکستانی سرحد کے اندر گولہ باری کی اطلاعات کی کیا وجہ ہے؟ ایرانی سرحدی فوج "دہشت گردوں "کا تعاقب کرتی ہر دوسرے تیسرے ہفتے پاکستانی سرحدوں میں کیوں داخل ہوتی ہے اور گزشتہ سال اس نے کتنی مرتبہ پاکستانی سرحدوں کے اندر داخل ہو کر پاکستانی علاقوں میں ""دہشت گردوں "کے خلاف کارروائی کی ہے؟ کتنی تعداد میں پاکستانی مسلمان بذریعہ ایران سمگل ہو کر شام میں" جہاد"کر رہے ہیں؟ ایران کے بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے کی مکمل تفصیلات منظر عام پر کیوں نہیں لائی جاتیں؟ ایران میں موجود بھارتی سفارتخانے کا کردار پاکستانی عوام کو اشارے کنایے میں ہی کیوں بتایا جاتا ہے؟ کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ایران نے "را"کے کس ایجنٹ کو اپنے ملک سے نکالا یا گرفتار کیا؟ اور آخری بات کہ عزیر بلوچ جتنے اور کتنے نقاب پوش دہشت گرد ایران کو "حساس معلومات"فراہم کر رہے ہیں؟
میں نے تو یہ سوالات گزشتہ دس سال کے حالات اور واقعات کے تناظر میں اٹھائے ہیں۔ ماضی کے معاملات پر میں بھی حکومت کی طرح مجرمانہ خاموشی اختیار کرتا ہوں کہ "مسلم بھائی چارہ " قائم رہنا چاہیے۔ میں بہت ڈرتے ڈرتے اپنے سالار اعلی سے بھی پوچھ رہا ہوں کہ ایران کی طرح پاکستانی فوج نے کتنی مرتبہ "دہشت گردوں "کا تعاقب کرتے ہوئے افغانستان یا ایران کا سرحدی تقدس پامال کیا ہے؟ غضب خدا کہ پراکسی وار کا میدان بھی ہم ہیں اور الزامات بھی ہم پر لگائے جاتے ہیں۔
میرا تو قلم اجازت نہیں دے رہا۔ نہایت معتبر ذرائع نے مجھے بتایا ہے کہ پاکستان میں شام کی انٹیلی جنس ایجنسی نے بھی بڑے گل کھلائے ہیں۔ اف میرے خدایا ہم کس گناہ کی سزا بھگت رہے ہیں۔ افغانستان کے بیس لاکھ شہریوں کو پچیس سال سے اپنا خون جگر پلا رہے ہیں، ایران کی زیادتیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں، خلیجی ریاستوں کے نخرے اٹھا رہے ہیں یہ جاننے کے باوجود کہ گوادر کے مسئلے پر کس کس کو مروڑ اٹھ رہے ہیں۔
میاں صاحب، عمران خان صاحب! سراج الحق صاحب، مولانا فضل الرحمن صاحب، شہنشاہ سلامت آصف زرداری صاحب اور تمام مکتبہ ہائے فکرکے لیڈران کرام کیا اس ملک کا مسئلہ صرف میٹرو، اورنج ٹرین اور اب پانامہ لیکس ہی ہیں؟ اللہ کے بندے اپنے گھر کی فکر کرو۔ گھر سلامت ہوگا تو آپس میں لڑائی جھگڑا بھی کر لو گے۔ اللہ نہ کرے اگر گھر ہی نہ رہا تو!