وفاقی بجٹ اعلیٰ تعلیم کے تناظر میں مایوس کن ثابت ہوا ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے اپنی تقریر میں یہ خوش خبری سنائی کہ اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں 15بلین روپے کا اضافہ کیا ہے اور یہ بجٹ 108 بلین روپے کا ہوگیا ہے۔
وفاقی بجٹ میں پیش کردہ اعداد وشمار کے بغور جائزہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 108بلین روپے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ترقیاتی بجٹDevelopment اور Non-development کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اس بجٹ میں 42.2 بلین روپے مختلف یونیورسٹیوں میں جاری 127 ترقیاتی منصوبوں اور 39 بلین ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوں گے۔
اس رقم سے دو نئی یونیورسٹیوں کو گرانٹ ملے گی اور باقی رقم مختلف یونیورسٹیوں کے تعمیراتی منصوبوں پر خرچ ہوگی۔ وزیر اعظم عمران خان صوفی ازم سے آج کل خوب متاثر ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں ملتان کی بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی میں صوفی ازم اور مسٹری ازم کے شعبہ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
اس نئے منصوبہ کے لیے 100 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ کا اعلان کیا ہے۔ اس رقم کے لیے یونیورسٹیوں کو ایک الگ گرانٹ نہیں دی گئی ہے، یوں بجٹ پر کام کرنے والے ایک ذہین رپورٹر نے اعداد و شمار کا باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے کہ گزشتہ سال Non-development بجٹ کے 66.25 بلین روپے رکھے گئے ہیں، یوں یہ معمولی اضافہ یونیورسٹیوں کے مالیاتی بحران کو کم نہیں کرسکے گا۔
موجودہ حکومت نے 2018میں اقتدار سنبھالا اور اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں بحران پیدا ہوگیا۔ حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں HEC کے بجٹ میں کمی کردی تھی جس کی بناء پر سرکاری یونیورسٹیاں مالیاتی بحران کا شکار ہوئیں۔ یونیورسٹیوں نے تنخواہوں کی ادائیگی کے علاوہ باقی مدوں میں رقوم خرچ کرنا ختم کردیں جس کے نتیجہ میں ایک طرف نئے اساتذہ کا تقرر اور ان کی ترقیوں کے معاملات رک گئے، کچھ یونیورسٹیوں میں پنشن فنڈز اور ریسرچ فنڈز سے کٹوتی کرکے اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کو تنخواہوں کی ادائیگی کردی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحقیق کا سلسلہ رک گیا۔
یونیورسٹیوں میں کتابوں اور ریسرچ جنرلزکی خریداری، لیب کے لیے نئے آلات کے لیے مختص رقوم میں کمی کردی۔ کچھ یونیورسٹیوں نے اس مد میں رقوم کے اجراء سے اجتناب کیا۔ سب سے زیادہ شدید بحران خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں پیدا ہوا، خیبر پختون خوا میں 2013 سے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے۔ تحریک انصاف نے انتخابات میں خیبر پختون خوا کو ماڈل صوبہ بنانے کا نعرہ لگایا تھا مگر صوبائی حکومت سرکاری یونیورسٹیوں کوگرانٹ دینے میں ناکام رہی ہے، جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ خیبرپختون خوا کی کئی یونیورسٹیوں میں پہلے ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کو پنشن کی ادائیگی بند ہوئی، بعد ازاں تنخواہیں ملنی بند ہوگئیں۔
جب یونیورسٹیوں کے مالیاتی بحران کی گونج ذرائع ابلاغ پر سنائی دی تو صوبائی حکومت نے فیسوں میں اضافہ، اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کو ملنے والے الاؤنس میں کٹوتی کردی۔ جب اساتذہ، طلبہ اور دیگر عملہ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کے لیے سیکریٹریٹ جانے کا عزم کیا تو پولیس کے جوانوں کواحکامات دیے گئے کہ اساتذہ کو ڈنڈے مارے جائیں۔
یہ صورتحال وفاقی یونیورسٹیوں کے علاوہ باقی تین صوبوں کی یونیورسٹیوں میں بھی پیدا ہوئی ہے۔ بعض یونیورسٹیوں کی جانب سے ان طلبہ سے جو تھیسز کرنا چاہیں ان سے ان کام کی نگرانی کرنے والے استاد کے لیے مزید پیسے طلب کیے جاتے ہیں۔ جب یونیورسٹیوں کے مالیاتی بحران پر رپورٹیں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش ہوئیں تو مشیروں نے یہ مشورہ دیا کہ سرکاری یونیورسٹیوں کی زمینوں کو فروخت کردیا جائے، یہ فیصلہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ارسال کیا گیا۔
ایچ ای سی نے اس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری بنیادی طور پر انجنیئر اور سی بی کیڈر سے تعلق رکھتے ہیں مگر انھوں نے دنیا کی بہترین یونیورسٹی ہارورڈ سے Governance میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ انھوں نے جب باریک بینی سے اس فیصلے کے محرکات اور نقصانات کا جائزہ لیا تو انھیں محسوس ہوا کہ یونیورسٹیوں کی زمینوں کی فروخت سے ایک طرف قیمتی اثاثہ ختم ہوجائے گا، دوسری لینڈ مافیا کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ یونیورسٹی کی فنڈنگ دگنی کرسکتی ہے۔
ڈاکٹر طارق بنوری کہتے ہیں کہ پاکستان سرکاری یونیورسٹیوں کو ملنے والی گرانٹ کے تناظر میں بھارت اور بنگلہ دیش سے کم ہے، یوں انھوں نے وفاقی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی تو حکومت نے ڈاکٹر طارق بنوری کو ایچ ای سی سے رخصت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایف آئی اے اور نیب کو تحقیقات پر معمور کیا مگر جب کسی بدعنوانی کا پتہ نہیں چلا تو اچانک ایک آرڈیننس جاری ہوا اور ایچ ای سی کے چیئرمین کی مدت ملازمت چار سال سے کم کرکے دو سال کردی گئی، یوں اعلیٰ تعلیم کے سب سے بڑے آزاد ادارے کی ہیت بدل دی گئی۔ اب ایچ ای سی کا چیئرمین دو سال کے مختصر مدت میں مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کرسکے گا۔
پاکستان کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا نصاب ابھی تک پسماندہ ہے، ہر حکومت رجعت پسند مواد نصاب میں شامل کرادیتی ہے۔ کشف فاؤنڈیشن کی ایک ریسرچ اسکالر نے لکھا ہے کہ میڈیکل یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں سیلف سنسرشپ کا عنصر نظر آرہا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ بائیولوجی کے نصاب میں Humain reprotective system کی تدریس کے دوران صرف میل پروڈکٹو سسٹم پڑھایا جارہا ہے اور فیمیل پروڈکٹو سسٹم کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
اس طرح طالب علموں کے ذہنوں میں صنف کا تضاد ابھارا جا رہا ہے اور ایک ادارے کے دباؤ پر اناٹومی کے مضمون میں شامل انسانی جسم کی تصاویر کو حذف کیا گیا ہے۔ اس نصاب سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ جب ڈاکٹر بنیں گے تو وہ بنیادی معلومات سے محروم ہونگے مگر حکومت کے لیے اعلیٰ تعلیم کے معیار کے ایسے انتہائی اہم معاملات توجہ طلب نہیں ہیں۔ ملک کی تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں مالیاتی بحران میں مبتلا ہیں۔ کچھ یونیورسٹیاں جن میں وفاق کے زیر کنٹرول یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں انتظامی بحرانوں میں بھی مبتلا ہیں۔
ملک کی ایک بہت بڑی کراچی یونیورسٹی اپنے انفرااسٹرکچر کے اعتبار سے پسماندگی کا شکار ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں اب بھی کئی ڈپارٹمنٹ میں اساتذہ Black Board اور چاک کا استعمال کرتے ہیں۔ تعلیمی معیارکو بہتر بنانے کے جدید آلات کی کمی ہے۔ اس مالیاتی بحران کا زیادہ نقصان سائنس کے شعبوں کو ہوا ہے جہاں لیب میں استعمال ہونے والے آلات ناکارہ ہوچکے ہیں۔ اسی طرح کیمیکل کی کمی ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ریاض احمد جنھوں نے برطانیہ سے اپلائیڈ کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کیا ہے، بتاتے ہیں کہ کراچی یونیورسٹی میں سائنس کے اساتذہ اپنے ریسرچ پیپرز کی تیاری کے لیے کئی کئی لاکھ روپے کے کیمیکل خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کی بھی ہے۔
وفاقی حکومت نے ایچ ای سی کے لیے جو بجٹ مختص کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یونیورسٹیوں کا تعلیمی اور مالیاتی بحران بڑھ جائے گا اور پاکستان کی یونیورسٹیاں اپنا بنیادی فریضہ انجام نہیں دے سکیں گی۔