مولانا فضل الرحمن اسلام آباد سے واپس چلے گئے۔ لاہور ہائی کورٹ نے 50، 50 روپے کے مچلکوں پر میاں نواز شریف کو علاج کرانے کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دیدی۔ وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزراء نے نواز شریف کو مجرم ثابت کرنے کے لیے روایتی میڈیا پر مہم شروع کردی۔ ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر نظام عدل کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کیا۔
مولانا فضل الرحمن کا ایجنڈا تو بظاہر وزیر اعظم سے استعفیٰ لینا تھا مگر وہ شفاف انتخابات پر زور دے رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن اور رہبرکمیٹی کے اراکین کے جب سرکاری کمیٹی سے مذاکرات ہو رہے تھے تو متحدہ حزب اختلاف نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ شفاف انتخابات کے لیے جامع انتخابی اصلاحات کی جائیں اور انتخابی عمل سے مسلح افواج کو علیحدہ رکھا جائے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے مطالبہ کیا ہے کہ اگلے سال عام انتخابات کے لیے جامع انتخابی اصلاحات کی جائیں، اس وقت الیکشن کمیشن نامکمل ہے۔
الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے ریٹائرمنٹ کے بعد نئے اراکین کا تقرر نہیں ہوسکا۔ پہلے وزیر اعظم عمران خان نے وزارت خارجہ کے افسر کے ذریعے قائد حزب اختلاف کو نئے اراکین پر اتفاق رائے کے لیے مدعو کیا مگر جب حزب اختلاف نے اعتراض کیا کہ وزیر اعظم کو طریقہ کار کے مطابق قائد حزب اختلاف کو براہ راست مشاورت کے لیے مدعو کرنا چاہیے تھا تو وزیر اعظم نے میاں شہباز شریف کو براہِ راست خط بھیجا مگر یہ مشاورت ناکام ہوئی اور پارلیمانی کمیٹی اراکین کے نام اتفاق رائے کرانے میں ناکام ہوئی۔ اس مسئلہ کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں پیش کر کے کوئی حل نکالنے کے بجائے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کی سفارش پر اپنی پارٹی کے حامیوں کو الیکشن کمیشن کا رکن بنا دیا گیا۔
یوں الیکشن کمیشن کی آزادی، خود مختاری اور ساکھ داؤ پر لگ گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا۔ اگلے ماہ چیف الیکشن کمشنر ریٹائر ہورہے ہیں، اگر پارلیمنٹ نے اراکین کی نامزدگی کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل نہ کیا تو چیف الیکشن کمشنرکے تقرر کے معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوگا اورعملی طور پر الیکشن کمیشن کالعدم ہو جائے گا اور قواعد و ضوابط کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ 2018 کے انتخابات پر بہت سار ے سوالات اٹھائے گئے تھے۔ انتخابات سے تین ماہ قبل محکمہ زراعت والوں کا کام بڑھ گیا تھا۔
یوں وسطی اور جنوبی پنجاب کے مسلم لیگ ن کے بہت سے اراکین نے اپنی جماعت سے علیحدگی اختیارکی اور سرائیکی صوبہ محاذ بنایا تھا مگر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ محکمہ زراعت والوں کی جستجو کی بناء پر یہ رہنما تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں مسلم لیگ ن کی پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں کہا گیا کہ نامعلوم افراد انھیں ٹیلیفون پر تحریک انصاف میں شمولیت کا مشورہ دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے بھی سندھ کے اراکین پر دباؤ کے بارے میں اسی طرح کے الزامات لگائے مگر ان الزامات کی اعلیٰ ترین قیادت نے تردید نہیں کی۔
الیکشن کمیشن نے مئی 2018 کے انتخابات میں جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، یوں حساس پولنگ اسٹیشنوں میں کلوز ڈورکیمرے لگائے گئے اور پریزائیڈنگ افسروں کو ان کے اسمارٹ فون پر نتائج فوری طور پر ریٹرننگ افسروں کو بھجوانے کے لیے ایپ کے استعمال کی تربیت دی گئی مگر انتخابات والے دن بہت سے پولنگ اسٹیشنوں پر کلوز ڈورکیمرے کام نہیں کرسکے۔ پریزائیڈنگ افسروں کو فوری طور پر نتائج ریٹرننگ افسروں کو بھجوانے والا نظام R.T.S بند ہوگیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کے نتائج 48گھنٹوں بعد جاری ہوئے۔ مخالف امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں نے الزام لگایا کہ انھیں گنتی کے وقت پولنگ اسٹیشن سے نکال دیا گیا۔
بہت سے پولنگ ایجنٹوں نے یہ بھی کہا کہ ان سے انتخابی نتائج مرتب کرنے والے فارم 45 پر دستخط نہیں کرائے گئے۔ اس طرح انتخابات کی شفافیت پر خاص سنگین الزامات عائد ہوئے مگر 2018کی شکست کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
ان جماعتوں کے رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمن کی اس تجویز کو مسترد کیا کہ انتخابی نتائج مسترد کیے جائیں اور اسمبلیوں سے مستعفی ہوا جائے اور احتجاجی تحریک شروع کی جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے دھاندلیوں کے الزامات پر کہا کہ وہ حزب اختلاف کے مطالبہ پر ہر حلقہ کو کھولنے کے لیے تیار ہیں مگر جب خواجہ سعد رفیق کی درخواست پر ان کے حلقہ کی دوبارہ گنتی شروع ہوئی تو وزیر اعظم عمران خان نے اعلیٰ عدالت سے ان ہی نکات پر حکم امتناعی حاصل کیا جن نکات پر قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق اور سعد رفیق نے حکم امتناعی حاصل کیے تھے۔
قومی اسمبلی میں حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق رائے ہوا کہ ایک پارلیمانی کمیٹی اس دفعہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے قائم کی جائے گی یہ پارلیمانی کمیٹی تو قائم ہوگئی مگر حکومتی وزراء نے اس کمیٹی کو متحرک کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔ ذرایع ابلاغ پر دستیاب مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کمیٹی کے قواعد وضوابط ہی تیار نہیں ہوئے۔
مسلم لیگ ن کے اراکین اس صورتحال سے اتنے مایوس ہوئے کہ انھوں نے اس کمیٹی سے علیحدگی اختیارکرنے کا فیصلہ کیا۔ حزب اختلاف کی باقی جماعتیں بھی شاید مسلم لیگ ن کے فیصلے کی پیروی کریں، تحریک انصاف کو غیر ممالک سے ملنے والی امداد کا مسئلہ سالوں سے الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے، تحریک انصاف کے اکابرین اس تحقیقات میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ اب حزب اختلاف نے اس معاملے پر احتجاج کا فیصلہ کیا ہے، یہ معاملہ بھی انتخابی قوانین سے ہی منسلک ہے مگر نومبر کی گھمبیر صورتحال میں جمہوری نظام کے استحکام کے لیے امیدیں لگانے والے صاحبان کو قومی اسمبلی سے ایک خوش خبری ملی۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایوان کو معمول کے مطابق چلانے کے لیے اتفاق رائے ہوا۔
حکومت نے چھ کے قریب قوانین کو اکثریت کی آمریت کی طاقت کے تحت منظورکرایا تھا۔ اس فیصلے کو واپس لے لیا اور حزب اختلاف نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد واپس لے لی۔ دونوں طرف سے سینئر اراکین نے اس موقع پر کہا کہ وہ مفاہمت کی اس جمہوری روایت کی پاسداری کریں گے۔
اب الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر خودمختار، شفاف بنانے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور جامع انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے تجاویز پیش کرنی چاہئیں۔ پارلیمانی کمیٹی کو ایسیاصلاحات تیارکرنی چاہیے کہ انتخابات میں نامعلوم افراد محکمہ زراعت والوں اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم ہوجائے۔ اس ملک کی بقاء جمہوری نظام میں مضمر ہے۔
جمہوری نظام کی بنیاد شفاف انتخابات میں ہے۔ کوئی بھی فرد اور جماعت قیامت تک اقتدار میں نہیں رہے گی، اگر اس پارلیمنٹ نے جامع انتخابی اصلاحات تیارکرلیں اور ان پرکامیابی سے عملدرآمد ہوگیا تو پارلیمنٹ کا یہ کارنامہ تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔