اسٹرلوجی نے تو بڑی امیدیں دلوائی تھیں کہ یکم نومبر سے جو نیا چاند چڑھ رہا ہے یہ اپنے ساتھ بہت ساری آسانیاں لا رہا ہے۔ لہذا ویسے ہی نفسیاتی طور پر کچھ مطمئن اور خوش تھا۔ لیکن آج پتہ چلا یہ ویک اینڈ جو 8 نومبر سے شروع ہورہا ہے وہ تو بہت بڑی سوشل مشکلات لا رہا ہے۔ اب یہ بات آسٹرلوجی نے نہیں بتائی تھی۔
8,9,10 نومبر کو ایسے تین دوستوں کے بچوں کی شادیاں ہیں جہاں انکار ممکن ہی نہیں اور تینوں نے دو دو ماہ پہلے خبردار کر دیا تھا کہ ڈیٹس لاک کر دو۔ میں نے کہا کیوں نہیں اور تاریخ پر تاریخ لاک کرتا گیا کہ چلیں ابھی بڑا وقت پڑا ہے۔ اپنی پرانی عادت ہے ہر کام کو ٹالی جائو۔ ویکھی جائے گی۔
اب مجھے تاریخ تو یاد نہ تھیں لیکن یہ یاد تھا کہ ان تینوں کا مہینہ نومبر ہے۔ میں مطمئن رہا کہ چلیں نومبر کے چار ویک اینڈ ہوتے ہیں لہذا تینوں شادیاں ایک ایک ویک اینڈ پر ہوں گی اور الٹا ایک ویک اینڈ فری ہوگا۔ یاد رکھیں یہ ڈیٹس میں خود ہی طے کرکے بیٹھا تھا۔
حالت دیکھیں میرا تو خیال تھا ایک اہم شادی تو شاید بائیس نومبر کو ہے۔ ویسے اب اچانک ہی خیال آیا کہ یار واٹس ایپ پر کارڈز چیک تو کروں کہ کون کون سے ویک اینڈ پر کون سی شادی ہے۔
پتہ چلا تینوں شادیاں اس ویک اینڈ پر ہی ہیں۔ آپ کہیں گے تو مسئلہ کیا ہے۔ تین دن تین شادیاں ہیں تو کچھ آگے پیچھے کرکے چلیں جائیں۔ ایسا نہیں ہے۔ پہلی شادی لاہور میں ہے، دوسری ملتان اور تیسری اسلام آباد میں ہے اور میں تینوں شادیاں مس کرنا افورڈ نہیں کرسکتا کہ تینوں سے تیس سال سے زائد کا تعلق ہے۔ ایک آدھ تو میرے محسن بھی ہیں میرے برے دنوں کے۔ ایک بھی شادی مس کی تو عمر بھر کی دوستی خراب ہوگی اور میں اس عمر میں نئے تعلق تو بنا سکتا ہوں لیکن نئے دوست نہیں۔ اب صبح سے کاغذ قلم اٹھا کر پوری توجہ سے حساب کتاب میں لگا ہوا ہوں کہ یہ سب پرانے دوستوں کے پرانے کھاتے کیسے پورا کروں۔
اگر ابھی کچھ کسر باقی تھی تو اوپر سے جناب امر شاہد کا جہلم سے میسج ہے کہ آٹھ نو دس نومبر کو اسلام آباد میں کتابوں کا میلہ ہورہا ہے آپ کی شرکت لازمی ہے۔ میں اپنے بے بسی پر ہنس پڑا کہ قبلہ بس آپ کے میسج کی کمی تھی۔ سیانے کہتے ہیں مسائل اکیلے نہیں آتے پورا بینڈ باجہ بارات لاتے ہیں۔ اب میرا حال شیخ چلی والا ہورہا ہے جو اپنے ساتھ اکیلا بیٹھا بحث کررہا ہے کہ پہلے مرغی یا پہلے انڈا۔
ویسے مجھے وہ افیمی بھی یاد آرہا ہے جو کنویں میں گر گیا تھا اور پورا دن گائوں والے نکالتے رہے تو وہ نہ نکال سکے۔ شام کو تھک ہار کر افیمی نے گائوں والوں کو آواز دی مجھے کنویں سے نکالتے ہو یا میں کہیں خود ہی منہ کر جائوں۔