مختار باچا 77 سال کی عمر میں بھی استحصال سے پاک معاشرہ کے قیام کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وہ مارکسزم کو عقیدہ نہیں سمجھتے ہیں۔
اس بناء پر مختار باچا جمہوری اداروں کے استحکام، قومیتوں کے حقوق، سماجی جمہوریت کے لیے کوشاں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے افغانستان، بھارت، ایران اور دیگر پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات ہونے چاہیں۔ یوں ملک میں غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور ہر فرد کو سماجی انصاف میسر آ سکتا ہے۔ مختار باچا نیشنل پارٹی کے رہنما ہیں۔ وہ 25 فروری 1944کو بونیر کے گاؤں میں پیدا ہوئے۔
ان کا خاندان بونیر کے پیر بابا کے متولین میں شامل ہے اور سید گھرانہ کہلاتا ہے۔ مختار باچا کے والد کے پاس کچھ زرعی زمینیں تھیں اور پیر بابا کے متولین میں شامل تھے، یوں نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رہا۔ مختار باچا نے پرائمری اسکول گدیزی بونیر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر ان کے گاؤں میں سیکنڈری اسکول نہیں تھا۔ ان کا داخلہ 11 میل دور سیکنڈری اسکول میں ہوا۔ مختار باچا، اپنے بچپن کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے یہ دلچسپ حقیقت بیان کرتے ہیں کہ بونیر سے مردان ایک بس جاتی تھی جس میں مسافر سوار ہوتے تھے۔
باچا اور دیگر طالب علموں کے پاس ٹکٹ کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو خصوصی اجازت سے ان لوگوں کو بس کی چھت پر سفر کرنے کی اجازت مل گئی۔ سوات کی سردی، برف باری اور ژالہ باری میں یہ بچے بس کی چھت پر بیٹھے ہوئے اسکول پہنچ جاتے اور اسی طرح واپسی کا سفر ہوتا۔ مختار باچا نے 1960میں امتیازی نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
پھر امتیازی نمبروں سے انٹرمیڈیٹ پری میڈیکل کی سند حاصل کی۔ مختار باچا کے والد کی خواہش تھی کہ ان کے صاحبزادے ڈاکٹر بن جائیں، اس بناء پر کراچی کے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ فارم بھیجا گیا مگر میڈیکل کالج میں داخلے ہوچکے تھے، یوں ڈاکٹر نہ بن سکے۔
پھر کراچی کے ایک کالج سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ یہ 1964 تھا۔ جنرل ایوب خان نے صدارتی انتخاب میں دھاندلی کے ذریعہ فاطمہ جناح کو شکست دیدی تھی۔ پھر لیاقت آباد میں بااثر افراد کی جانب سے کرائی گئی فائرنگ شہر میں پختون مہاجر فساد کا محرک بنی۔ اس زمانہ میں نیشنل عوامی پارٹی فعال تھی۔ این اے پی کے رہنما اور شاعر اجمل خٹک اور ازباب سیف الرحمان جو قومی اسمبلی کے ممبر تھے پختون برادری اور اردو بولنے والی برادری کے درمیان مفاہمت کے لیے کراچی آئے۔ مختار باچا کی پہلی بار اجمل خٹک سے ملاقات ہوئی۔
پھر مختار باچا نے پشاور یونیورسٹی سے بوٹنی میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ مختار باچا کو ایگریکلچرل ڈپارٹمنٹ میں ریسرچ افسر کی ملازمت مل گئی مگر مختار باچا کی اجمل خٹک سے ملاقاتیں بڑھ گئیں۔ اجمل خٹک کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے، یوں سوشلزم، سامراجیت، کمیونزم اور بین الاقوامی معاملات پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہوا۔ اسی دوران کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل کامریڈ نازش امروہوی جو گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش تھے پشاور آئے اور مختار باچا باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔
کمیونسٹ پارٹی نے پارٹی کے کارکنوں کی تربیت کے لیے ایک سیل بنایا۔ مختارباچا اس سیل کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔ مختار باچا نے پختون خواہ کے نوجوانوں میں سوشلزم کے بارے میں آگہی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جمعہ خان صوفی اور افراسیاب خٹک جیسے نوجوان ترقی پسند تحریک سے منسلک ہوئے اور جن میں سے کئی کمیونسٹ پارٹی کے رکن بنے اور کئی نے طلبہ تحریک، ٹریڈ یونین، صحافیوں، وکلاء اور کسانوں کی تنظیموں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل امام علی نازش کی ہدایت پر مختار باچا نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیا اور کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی کارکن بن گئے۔
مختار باچا کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے ایک دو دفعہ زور دیا کہ باچا اپنے کیریئر پر توجہ دو مگر مختار باچا انقلاب کے لیے سب کچھ وقف کر چکے تھے۔ مختار باچا کمیونسٹ پارٹی کے ماس فرنٹ نیشنل عوامی پارٹی میں متحرک رہے مگر وہ محض پختون نیشنل ازم سے متاثر نہیں ہوئے اور ہمیشہ سوشلزم کے نفاذ کو منزل قرار دیا۔ یہی وجہ تھی کہ اجمل خٹک کی شاگردی اور دوستی کے باوجود ان سے اختلاف رہا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں متحدہ حزب اختلاف نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ کیا۔ پولیس فائرنگ سے کچھ پختون نوجوان جاں بحق ہوئے۔
نیپ کے رہنما اور شاعر اجمل خٹک حالات سے دلبرداشتہ ہو کر افغانستان کے دارالحکومت کابل چلے گئے مگر باچا ملک میں ہی کام کرتے رہے۔ جب بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی اور سردار شیر باز مزاری اور بیگم نسیم ولی خان نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی قائم کی تو کمیونسٹ پارٹی نے این ڈی پی کی پالیسیوں کو اسٹیبلشمنٹ نواز جانا اور ڈاکٹر اعزاز نذیر اور افراسیاب خٹک کی قیادت میں نیشنل پروگریسیو پارٹی قائم ہوئی۔ اس پارٹی کو منظم کرنے میں مختار باچا نے اہم کردار ادا کیا۔
اس زمانہ میں گرفتاریاں زوروں پر تھیں۔ بہت سے کارکن گرفتار ہوچکے تھے، کچھ افغانستان چلے گئے تھے مگر مختار باچا ملک کے مختلف علاقوں میں رابطہ کرتے رہے۔ مختار باچا افغانستان کے امور کے چند ماہرین میں سے ایک ہیں۔ ان کے افغانستان کے کمیونسٹ دھڑوں کے رہنماؤں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔
افغانستان میں سو انقلاب 1979 میں آیا، استاد میر اکبر خیبر افغان کمیونسٹوں کے استاد سمجھے جاتے تھے۔ استاد امیر کبیر پاکستان آئے تھے اور مختار باچا نے 15 دن ان کے میزبان کے طور پر فرائض انجام دیے تھے۔ افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر سردار داؤد برسر اقتدار آئے۔ انھوں نے امریکی حکومت سے تعلقات استوار کر لیے تھے۔
استاد امیر اکبر کو قتل کردیا گیا تھا جس پر افغان کمیونسٹوں نے اقتدار پر قبضہ کا فیصلہ کیا تھا۔ مختار باچا کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں ڈاکٹر نجیب پشاور آئے تھے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ خلق اور پرچم گروہ ایک مشترکہ انقلابی پارٹی میں متحدہ ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر نجیب کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کو خطرہ تھا کہ فوج میں موجود دائیں بازو کے عناصر اقتدار پر قبضہ کی کوشش نہ کریں۔
مختار باچا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں انقلاب کامیاب ہوجاتا تو افغانستان ترقی کی دوڑ میں خطہ کے دیگر ممالک کو پیچھے چھوڑ دیتا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا کی ایما پر قبائلی سرداروں اور مذہبی رجعت پسند گروہوں نے عوام کو اپنے نظریات پر قائل کیا مگر پرچم اور خلق کے جھگڑوں اور انقلابی پارٹی میں گروہ بندی کے کلچر کی جڑیں نچلی سطح تک مستحکم ہونے کی بناء پر امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا تیار کردہ منصوبہ کامیاب ہوا۔
مختار باچا افغانستان کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پڑوسی ممالک اگر افغانستان کے معاملات میں مداخلت بند کردیں، متحرب گروہوں کو اسلحہ اور مالیاتی امداد نہ دیں اور افغان حکومت کے ساتھ وسیع تر حکومت بنانے کے منصوبہ میں تعاون کریں تو پھر افغانستان میں امن قائم ہوسکتا ہے اور اس کا فائدہ پورے خطہ کو ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ پاکستان نے اسٹرٹیجک ڈیپتھ (Strategic Depth) گہرائی کی پالیسی ترک کردی ہے۔
باچا سمجھتے ہیں کہ اگر واقعی ایسا ہوجائے تو افغانستان میں امن کے لیے ایک بڑا قدم ہوگا۔ مختار باچا یہ تصور کرتے ہیں کہ بیرونی قوتیں طالبان کو فوجی امداد دیتی رہیں اور طالبان نے پاکستان کی سرحد کے قریب پکتیا اور غزنی میں اپنی حکومت قائم کرلی تو پھر لڑائی تیز ہوجائے گی۔ یہ لڑائی فرقہ وارانہ اور نسلی بنیاد پر ہوگی اور اگر اس لڑائی کے اثرات افغانستان کی فوج پر پڑے اور وہ تقسیم ہوگئی تو برسوں تک افغانستان میں امن نہیں ہوگا اور پاکستان اس صورتحال سے براہ راست متاثر ہوگا۔ باچا اپنے تجزیہ پر مزید زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ طالبان دور کے خاتمہ کے بعد افغانستان میں ایک مڈل کلاس مضبوط ہوئی ہے، خواتین کی عملی زندگی میں شرکت زیادہ ہوگئی ہے۔
یہ مڈل کلاس مسلسل طالبان اور داعش کے حملوں کی زد میں ہے مگر یہ مڈل کلاس ایک جماعت میں منظم نہیں ہے، یوں یہ صرف احتجاج کرسکتی ہے۔ مختار باچا پرامید ہیں کہ ایک دن اس خطہ میں ضرور تبدیلی آئے گی۔