Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Americi Akhbar Ka Tanqeedi Idaria

Americi Akhbar Ka Tanqeedi Idaria

معروف اخبار نیو یارک پوسٹ نے اپنے ایک اداریے میں مطالبہ کیا ہے کہ مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیف جنرل مارک اے ملی Gen. Mark A. Milley افغانستان میں امریکا کی شکست کے ذمے دار ہیں، ان کا مواخذہ ہونا چاہیے۔

22 اگست 2021 کے اداریہ میں تحریر کیا گیا ہے کہ صدر جو بائیڈن کا دعویٰ ہے کہ فوجی کمانڈ نے مشورہ دیا تھا کہ افغانستان میں بلگرام کے فوجی ایئرپورٹ کو خالی کر دینا چاہیے اور کابل ایئرپورٹ کو امریکیوں کے افغانستان سے انخلاء کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اورمزید دعوی کیا گیا تھا کہ افغانستان کی فوج حالات پر قابوپانے کی اہلیت رکھتی ہے۔

اس بناء پر امریکی فوج کے انخلاء کے منصوبہ پر عملدرآمد جاری رکھا جائے۔ اس اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ اگر صدر جو بائیڈن حقائق کو مسخ کرکے پیش نہیں کررہے ہوں تو پھر امریکا کی شکست کی ذمے داری چیئرمین جوائنٹ چیف جنرل مارک اے ملی پر عائد ہوتی ہے۔

اسی طرح جنرل مارک اپنے فرائض کو ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف نے فیصلہ کیا کہ امریکی اور اتحادی افواج کا انخلاء جاری رکھا جائے، یوں جنرل مارک ہر صورت میں اپنے فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ جنرل مارک اس صورتحال کی ذمے داری لیں۔ اداریہ میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ صدر پیوٹن نے بلگرام فوجی ایئرپورٹ سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا عمل جاری رکھا، یوں اتنے اہم ایئرپورٹ کی حفاظت کے لیے ایک ہزار فوجیوں کو تعینات کیا گیا جوکہ طالبان کی یلغار روکنے کے لیے ناکافی ہے۔

اداریہ میں مزید کہا گیا ہے کہ بلگرام ایئرپورٹ کو خالی کرنے سے طالبان کو فوجی حکمت عملی کو مزید مؤثر بنانے میں مدد ملی۔ اس کا اثر افغان فوجی اور غیر ملکی اتحادی دستوں پر پڑا اور یہ فوجی دستے ذہنی طور پر ابتری کا شکار ہوئے۔ بلگرام ایئرپورٹ کے بعد امریکا اور اتحادی فوجیوں کی ذمے داری کابل کو بچانا تھا۔ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کرتے ہوئے امریکی میرین دستوں کے 13 سپاہی جاں بحق ہوئے۔

جنرل مارک نے فوجی دستوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے کوئی ہنگامی منصوبہ تیار نہیں کیا تھا اور فوجی کمانڈ نے کوئی منصوبہ بنایا تھا تو اس پر یوں تاریخ کا بدترین سانحہ ہوا۔ صدر بائیڈن نے طالبان کے نمایندوں سے امریکی میرین دستوں کی پرامن واپسی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ جنرل ملی کو 2019 میں اس عہدہ پر تعینات کیا گیا تھا۔

اخبار نے مزید لکھا ہے کہ جنرل ملی نے افغانستان میں زیادہ وقت آئس کریم کھانے اور امریکی فوجی انخلاء کے فیصلہ کو درست ثابت کرنے میں گزارا۔ امریکا کے ایک اخبار کا اپنی فوج کے سب سے اہم افسروں میں سے ایک کے مواخذہ کا مطالبہ کیا تو امریکا میں کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی امریکی حکومت نے نیویارک پوسٹ کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے لیے اپنی قانون کی وزارت سے مشورہ مانگا مگر تیسری دنیا کے ممالک کے لیے یہ اداریہ اور اس پر امریکا کی حکومت اور فوج کے کسی قسم کے ردعمل کے نہ ہونے پر حیرت ہوئی۔

ریاست میں جمہوری ارتقاء پر تحقیق کرنے والے دانشور اس معاملہ کو ریاست پر جمہوری اداروں کی بالادستی اور تمام اداروں کی منتخب قانونی حکومت کی بالادستی کو قبول کرنے سے منسلک کرتے ہیں۔ ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ یورپ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی برطانیہ اور یورپی ممالک میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی نشاطِ ثانیہ کا دور شروع ہوا۔ پہلی دفعہ متوسط طبقہ وجود میں آیا۔ نئے شہر آباد ہونے لگے اور شہروں کی آبادی بڑھنے سے صنعتی ترقی کے لیے تعلیم لازمی ہے، یوں مردوں کے ساتھ خواتین کی تعلیم اور زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

یہ وہ دور تھا جب برطانیہ کی ہر ریاست پر بادشاہ اور چرچ کی آمریت تھی۔ اس دور میں متوسط طبقہ کی سیاسی جماعتیں قائم ہوئیں۔ اخبارات نے تنقید کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا، برطانیہ میں ایک فیصلہ کن لڑائی ہوئی۔ ریاست پر بالادستی کی جنگ میں بادشاہ اور چرچ کو شکست ہوئی اور پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی کا تصور مستحکم ہوا۔ ریاست کو اس بناء پر سیکیولر قرار دیا گیا کہ تمام شہریوں کے ساتھ بلا کسی امتیازکے جس میں مذہب، جنس اور ذات کی بناء پر امتیاز شامل ہے یکساں سلوک کیا جائے گا۔

اب عوام کو یہ حق حاصل ہوا کہ وہ اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں اور ان کا احتساب کریں۔ پارلیمنٹ قانون بنائے اور انتظامیہ قانونی طور پر امور ریاست چلائے۔ عدلیہ آئین اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرے۔ اخبارات کو ریاست کے غیر رسمی طور پر چوتھے ستون کا درجہ دیا گیا اور یہ تصور رائج ہوا کہ عوام کو ریاست کے تمام امور کے بارے میں جاننے کا حق ہے اور یہ حق ذرایع ابلاغ کی مکمل آزادی کی صورت میں مل سکتا ہے۔ یہ سب کچھ برطانیہ میں میگناکارٹا معاہدہ کے بعد ہوا۔ جنرل کراموبل کی برطانیہ کی تاریخ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

جنرل کراموبل نے برطانیہ میں خانہ جنگی کے خاتمہ میں بنیادی کردار ادا کیا اور بلدیاتی اداروں سمیت پارلیمانی اداروں کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا، مگر جنرل کراموبل نے پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کیا۔ جنرل کراموبل کے انتقال کے بعد پارلیمنٹ کی توہین کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور ان کا لاش کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔

یوں برطانیہ کی اعلیٰ عدالت نے ثابت کیا کہ پارلیمنٹ کے تقدس سے زیادہ کوئی اور مسئلہ اہم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ، دیگر یورپی ممالک اور امریکا میں فوجی افسروں کے مواخذہ کی روایت خاصی مستحکم ہے۔ جدید بھارت کے بانی اور پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا تھا۔ ان کے صاحبزادہ اور بھارت کی تیسری وزیر اعظم اندرا گاندھی کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ 1971کی پاکستان اور بھارت کی جنگ میں بھارت کے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل مانک شاہ تھے۔

وزیر اعظم اندرا گاندھی کے رفقاء جون، جولائی کے مہینوں میں پاکستان سے جنگ کرنے کے خواہش مند تھے مگر فوج کے سربراہ جنرل مانک شاہ نے یہ رائے دی کہ یہ مون سون بارشوں کے مہینے ہیں اور بھارت کی فوج مون سون کی بارشوں میں جنگ کی اہلیت نہیں رکھتی، یوں بھارت نے نومبر کے آخر میں فوجی کارروائی کی۔

جب 16دسمبر 1971 کو بھارتی فوج ڈھاکا پر قابض ہوئی تو اس جنگ میں بھارت کی فوج نے پہلی دفعہ مغربی فرنٹ پر خاطرخواہ کامیابی حاصل کی تھی مگر مسز اندرا گاندھی نے جیو پولیٹکل صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے مغربی محاذ پر جنگ بندی کا فیصلہ کیا۔

جنرل مانک کو یہ فیصلہ قبول نہیں تھا۔ انھوں نے اس فیصلہ پر عملدرآمد میں کچھ دیر لگائی۔ مسز اندرا گاندھی اور جنرل مانک شاہ کی ایک ملاقات کا ہمیشہ ذکر ہوتا ہے۔ مسز اندرا گاندھی نے فوج کے سربراہ کو ان کے دلائل سننے کے بعد یہ حکم دیا کہ مغربی محاذ پر فوری طور پر جنگ بندی کی جائے اور اس فیصلہ کا سرکاری طور پر اعلان کردیا گیا۔

جنرل مانک شاہ نے وزیر اعظم کو سلیوٹ کیا اور جنگ بندی پر عملدرآمد ہوا۔ بھارت کی حکومت نے جنرل مانک شاہ کو فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازا مگر ان کی ملازمت میں توسیع نہیں ہوئی اور بقیہ زندگی انھوں نے خاموشی سے گزاردی۔

ڈیپ اسٹیٹ میں پارلیمنٹ کی بالادستی کو قبول نہیں کیا جاتا۔ ایشیاء اور افریقہ کے بہت سے ممالک میں منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنا عام سی بات ہے مگر ڈیپ اسٹیٹ والی ریاستیں بحرانوں کا شکار رہتی ہیں۔ غربت و افلاس ان کا مقدر بن جاتا ہے۔