پنجاب کی پسماندہ تحصیل خوشاب کی طالبہ آمنہ سرفراز جسرہ کی دکھ بھری داستان ملک کے سب سے بڑے انگریزی کے اخبار میں شایع ہوئی۔ آمنہ نے ایڈیٹر کے نام خط میں لکھا ہے کہ ان کے والد اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریویو کے ریٹائرڈ افسر ہیں، وہ 25جولائی 2021 کو اپنے خاندان کے ساتھ عید منانے کے لیے اپنے آبائی گھر خوشاب آرہے تھے۔
وہ 25جولائی 2021 کو بس میں سوار ہوئے، آمنہ نے اس بس کمپنی کا نام تحریر کیا ہے۔ وہ بس میں ایک نشست پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد بس کے کنڈکٹر نے دور سے بدتمیزی کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ نشست خالی کردیں اور کسی اور نشست پر بیٹھ جائیں۔ اگرچہ یہ کچھ بڑا مسئلہ نہیں تھا مگر جب کنڈکٹر نے توہین آمیز انداز میں گفتگو کی تو آمنہ کے والد نے احتجاج کیا۔
کنڈکٹر نے نازیبا زبان استعمال کرنا شروع کردی۔ ان کے والد کو بھی غصہ آیا۔ کنڈکٹر نے بس رکوائی اور ڈرائیور کی سیٹ کے ساتھ بیٹھے ہوئے دو نوجوانوں کو بلا یا۔ انھوں نے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ ان نوجوانوں نے بوڑھے شخص پر تشدد شروع کردیا۔ آمنہ نے لکھا ہے کہ ان کے بابا پر جس بے رحمانہ انداز میں تشدد ہوا وہ ان کے لیے ناقابل تصور تھا۔
جب بس جوہر آباد پہنچی تو بس کے کنڈکٹر نے تین اور افراد کو بلایا۔ ان افراد نے آمنہ کے والد کو بے ہوشی کی حالت میں سڑک کے کنارے پھینک دیا۔ پولیس والوں کو خبر ہوئی اور ان کے والد کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کے والد ہوش میں آئے، پولیس نے اس دوران تین افراد کو اپنی تحویل میں لیا۔ تاہم پویس نے مقدمہ درج نہیں کیا۔ یہ بوڑھا شخص جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت کے بوجھ کے ساتھ گھر کے ایک کونے میں مقید ہوگیا ہے۔ اس کو جسمانی چوٹوں کے ساتھ بے عزتی ہونے اور انصاف نہ ملنے کا ڈپریشن کا شکار ہے۔
کراچی کے علاقہ گولیمار کی ایک بوڑھی بیوہ خاتون اپنے پچاس سالہ بیٹے وقار حیدر کی پنجاب کی جیلوں سے واپسی کی منتظر ہیں۔ اس بوڑھی خاتون نے آئی جی پنجاب کے نام ایک اپیل میں کہا ہے کہ ان کا بیٹا کراچی میں کلیئرنگ فارورڈنگ ایجنٹ کا کام کرتا ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کچھ بااثر افراد مارچ میں پنجاب پولیس کی مدد سے انھیں کراچی سے گرفتارکر کے لے گئے، وقار کے خلاف ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تھانے میں مختلف نوعیت کی ایف آئی آر درج ہیں۔ وقار کی ایک مقدمہ میں ضمانت ہوتی ہے تو دوسرے مقدمے میں اسے بند کردیا ہے۔
وقار کی ماں کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق جتنی ایف آئی آر ان کے بیٹے کے خلاف ہیں ان کے چالان ایک ساتھ عدالت میں پیش کیے جانے چاہئیں مگر ایسا نہیں کیا جارہا۔ وقار کی ماں کو امید ہے کہ ان کے بیٹے کو انصاف ملے گا اور وہ ان کے پاس آجائے گا۔
لاہور کینٹ کے ایک رہائشی میاں شفیق نے مقامی بینک سے 15لاکھ روپے نکلواکر تھیلے میں ڈالے اور بیٹی کے گھر گئے مگر گھر کے دروازہ پر موٹرسائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے ان سے رقم چھیننے کی کوشش کی مگر بزرگ کے مزاحمت پر ملزمان نے فائرنگ کردی۔
میاں شفیق زخمی ہوئے اور اسپتال منتقلی کے دوران جاں بحق ہوگئے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر ناقص طرزِ حکومت اور فیصلہ سازی کی کمی کی بناء پر صورت حال انتہائی خراب ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشنHRCPکی ملتان کی ایک رپورٹ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صرف وسیب کے علاقے میں گزشتہ 8ماہ کے دوران انسانی حقوق کی پامالی کی وارداتوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
اس رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ گھریلو تشدد، خواتین میں خودکشی کا رجحان، غیرت کے نام پر قتل اور کاروکاری کے واقعات میں شدت آئی ہے۔ اہلکاروں کے عام شہریوں پر تشدد کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔ ماورا عدالتی قتل، پولیس کے پرائیویٹ ٹارچر سیل اور زیر حراست قیدیوں پر غیر قانونی تشدد کے واقعات جنوبی پنجاب میں زیادہ ہوئے ہیں۔ ایچ آر سی پی کے میڈیا مانیٹر نگ ونگ کی مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 57کے قریب مبینہ ڈاکو پولیس کے مقابلوں میں مارے گئے جب کہ ملزمان کی فائرنگ کی زد میں آکر 2پولیس والے بھی قتل ہوئے۔ اسی طرح ایچ آر سی پی کے ملتان دفتر کو 130کے قریب تشدد کے واقعات کا علم ہوا۔ ادھر تشدد سے ملزمان سے اقرارِ جرم کرانا معمولات میں شامل ہے۔
پنجاب سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشکلات کے شکار لوگوں کی شکایات پر نہ تو پولیس حکام توجہ دیتے ہیں نہ ہی اعلیٰ حکام نے ان شکایات کے ازالہ کے لیے کوئی مربوط نظام قائم کیا ہوا ہے۔ پنجاب میں پولیس اور انٹیلی جنس کا نظام خاصی حد تک مفلوج ہوچکا ہے۔
گزشتہ سال سیالکوٹ جانے والے موٹر وے پر دو رہزنوں کی یلغار اور خاتون کی بے حرمتی اور اشیاء کی لوٹ مار کے واقعہ نے پورے ملک کو ہلادیا تھا۔ اس وقت لاہور پولیس کے سربراہ نے یہ رائے دے کر کہ خاتون کو رات کو اکیلے سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی اس معاملہ کو نمٹانے کی کوشش کی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان کے اس واقعہ کا نوٹس لینے کے بعد پولیس کی عرق ریزی سے ملزمان کی تلاش کی اور پھر کئی مہینوں بعد ملزمان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کی حکومت سے الفت کرنے والے اکابرین نے یہ تصور کرلیا تھا کہ اب پنجاب میں پولیس کا نظام بہتر ہوجائے گا مگر پنجاب کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار چیمہ نے دو اہم لیڈروں کے موزانہ کے حوالہ سے گزشتہ بدھ کو روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والے کالم میں لکھا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب کا اب ڈر ختم ہوچکا ہے۔
وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں ایک وزیر کے بھائی کا قتل اور پنجاب اسمبلی کے اراکین کو ملنے والا یہ اختیار کہ ان کے کام نہ کرنے والے سرکاری افسران کو چھ ماہ کی سزا دی جاسکتی ہے، صورتحال کو سنگین ہونے کی نشاندہی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان (سب جانتے ہیں) صوبہ پنجاب کو خود کنٹرول کرتے ہیں۔
ان کے دور میں اہم عہدوں پر انتہائی مشکوک شہرت کے افسران کو تعینات کیا گیا اور تعیناتی کا Criteria افسران کی ایمانداری نہیں بلکہ حکومتی پارٹی سے وفاداری ہے۔ سیاسی ضروریات پوری کرنے والے انتہائی بدنام افسر منظور نظر ہیں۔
باخبر صحافیوں نے کئی بار لکھ پر بتایا ہے کہ فلاں فلاں ضلع کا ڈپٹی کمشنر اتنے کروڑ دے کر لگا ہے مگر کوئی ذمے دار شخص ان الزامات کی تردید نہیں کرتا۔ آمنہ کی آہ و بکا 80 سالہ بوڑھی عورت کی چیخ و پکار اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں پولیس عوام کو تحفظ دینے میں اسی طرح ناکام ہے جیسی دیگر صوبوں کی۔ اب یہ بات مکمل طور پر عیاں ہوگئی ہے کہ پنجاب میں گورننس کی صورتحال باقی صوبوں سے بھی خراب ہے۔ اس صورتحال میں آمنہ کی فریاد کون سنے گا؟