تحریک انصاف کی حکومت کی ناقص پالیسوں کی بناء پر دو آئینی اداروں کا تشخص خطرہ میں پڑگیا ہے۔ حکومت نے الیکشن کمیشن اور احتساب کے قومی ادارہ نیب کو اپنے قبضہ میں لینے کے لیے ممکنہ اقدامات شروع کردیے۔
الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی میعاد کو ختم ہوئے خاصہ عرصہ ہوا، وفاقی وزراء نے ماضی کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ آئین میں درج طریقہ کار پر عملدرآمد نہیں کریں گے۔
آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اس کے چاروں ارکان کے تقرر کے لیے وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کے درمیان اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔ دو سال قبل جب سندھ اور بلوچستان کے اراکین ریٹائر ہوئے تھے تو وزیر اعظم نے اسی طرح کے اعلانات کیے تھے، پھر اس معاملہ میں وزارت خارجہ کو شامل کیا گیا تھا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے الیکشن کمیشن کے اراکین کے تقرر کے لیے دو نام تجویز کیے تھے مگر قائد حزب اختلاف نے وزیر خارجہ کے جاری کردہ ناموں سے اتفاق نہ کیا۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ایک آرڈیننس جاری کیا اور ان ارکان کو الیکشن کمیشن کے اراکین کی حیثیت دیدی تھی۔ اس اقدام سے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان اٹھنے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر نے اپنے قانونی فرائض کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان ارکان سے حلف لینے سے انکار کیا تھا۔ وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کی رائے تھی کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کے لیے حلف اٹھانا لازمی نہیں ہے۔ بہرحال یہ تنازع اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہوا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس آرڈیننس کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا تھا اور چیف الیکشن کمشنر کے فیصلہ کو برقرار رکھا تھا، جس کے بعد وزیر اعظم تین ناموں کا پینل قائد حزب اختلاف کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوئے تھے اور پارلیمانی کمیٹی کی مشاورت سے الیکشن کمیشن کے دو ناموں پر اتفاق ہوا اور کمیشن مکمل ہوگیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے آزادانہ فیصلوں کی ایک نئی روایت ڈالی۔ ڈسکہ میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں 15 پریزائیڈنگ افسر اغواء ہوگئے۔ نامعلوم افراد ان پریزائیڈنگ افسروں کو کسی سیف ہاؤس میں لے گئے۔ چیف الیکشن کمشنر نے ڈسکہ کے ڈپٹی کمشنر، سیالکوٹ کے کمشنر، پنجاب کے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس سے رات گئے تک رابطے کیے مگر کسی نے چیف الیکشن کمشنر کی بات پر توجہ نہ دی۔ یہ پریزائیڈنگ افسر انتخابی نتائج کے ہمراہ علی الصبح ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچ گئے۔
چیف الیکشن کمشنر نے ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے ضمنی انتخاب کا نتیجہ روک دیا اور دوبارہ انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ تحریک انصاف کے امیدوار نے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا مگر سپریم کورٹ نے دوبارہ انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ برقرار رکھا۔ چیف الیکشن کمشنر نے اس کے ساتھ حکم جاری کیا کہ پریزائیڈنگ افسروں کو اغواء کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو الیکشن کمیشن کا جرات مندانہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق پریزائیڈنگ افسروں اور اغواء کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ وزیر اعظم نے چیف الیکشن کمشنر پر جانبداری کے الزامات لگائے۔
کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں یہی کہانی دہرائی گئی اور چیف الیکشن کمشنر کے آزادانہ فیصلوں سے اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ جب چیف الیکشن کمشنر نے سینیٹ کے انتخاب کے طریقہ کار میں غیر آئینی ترمیم ماننے سے انکارکیا تو وفاقی وزراء نے ان کے خلاف محاذ کھول دیے، حتیٰ کہ وزیر اعظم بھی اس مہم میں شامل ہوگئے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے سابق وزیر کو الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا نسخہ مل گیا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ 2023 کے انتخابات اس مشین کے ذریعے کرائے جائیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس مشین کو مسترد کیا۔ ان جماعتوں کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں RTS کے نظام کو ایک منصوبہ کے تحت ناکارہ کیا گیا۔ حکومت نے کبھی بھی RTSکو ناکارہ کرنے والے عناصر کی نشاندہی نہیں کی۔ اس بناء پر خطرہ ہے کہ مشین بھی مینیج ہوجائے گی۔ الیکشن کمیشن نے اس مشین کے استعمال پر مختلف نوعیت کے 37 اعتراضات عائد کیے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت نے اس مشین کا Source Code دینے سے انکار کیا، وفاقی وزراء نے چیف الیکشن کمشنر پر حزب اختلاف سے پیسے لینے کے الزامات لگائے۔ چیف الیکشن کمشنر نے نوٹس جار ی کیے تو یہ وزراء نوٹس کا جواب دینے کے لیے وقت مانگ رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پارلیمنٹ کی اکثریت سے قانون منظور کرایا جائے گا، اگر حکومت نے اکثریت کی بنیاد پر الیکٹرونک مشین کے ذریعہ انتخاب کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو چیف الیکشن کمشنر اور تمام اراکین کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہے گا۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے اپنے مستعفی ہونے کے فیصلے کا کئی دفعہ اظہارکیا ہے، یوں الیکشن کمیشن ختم ہوجائے گا۔ ایسی ہی صورتحال نیب کے چیئرمین کی ہے۔ نیب کے چیئرمین جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کی میعاد اگلے چند دنوں میں ختم ہونے والی ہے۔ حکومتی قیادت نیب کے نئے چیئرمین کے تقرر کے لیے آئینی راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ وفاقی وزراء کہتے ہیں کہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے مقدمات نیب میں زیرِ تفتیش ہیں، اس لیے ان سے اس بارے میں بات چیت نہیں ہوسکتی۔
قانونی ماہرین اس دلیل کوغلط قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کے وزراء پہلے حزب اختلاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کی پیشگوئی کرتے ہیں پھر نیب ان کے خلاف مقدمات قائم کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نیب حکومت کی بی ٹیم ہے۔ نیب کے افسران کسی سیاستدان کو تفتیش کے لیے بلاتے ہیں تو تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی کمنٹری شروع کردیتے ہیں۔ موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین نیب کے رویہ کے سب سے بڑے ناقد رہے ہیں۔ ان کے خلاف اب بھی کئی ریفرنس نیب میں زیرِ التواء ہیں۔ جب حکومتی عہدیداروں کے ریفرنس نیب میں گئے تھے تو وہ سب پاک صاف قرار پائے۔
وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کے سب سے بڑے فنانسر جہانگیر ترین کے خلاف شوگر اسکینڈل میں اربوں روپے کمانے کے خلاف تحقیقات شروع کی تھیں اور پھر اچانک فریقین کسی سمجھوتہ پر پہنچ گئے۔ حکومت نے یہ معاملہ ایف آئی اے یا نیب کے بجائے اپنے رکن بیرسٹر علی ظفر کے سپرد کردیا جنھوں نے جہانگیر ترین کو پاک و صاف قرار دے دیا۔ ایک اعلیٰ افسر کے خلاف امریکا کے اخبار میں لاکھوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کا اسکینڈل شائع ہوا۔ وزیر اعظم نے اس اعلیٰ افسر سے ایک ہی ملاقات میں یہ بات جان لی کہ اس سے زیادہ کوئی شفاف افسر پاکستان میں نہیں ہے۔
اس بناء پر حزب اختلاف کی تمام جماعتیں نیب کو حکومت کی بی ٹیم قرار دیتی ہیں مگر وزیر داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ نیب کے اگلے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ہونگے۔ حکومت اپنے مقصد کے لیے یکطرفہ قانون سازی کرے گی۔ حکومت نے فی الحال پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے قیام پر آمادگی کا اظہار کیا ہے، اگر حکومت نے اکثریت کی آمریت کی بناء پر ان دونوں اداروں کے تشخص کو نقصان پہنچایا تو ملک میں انارکی کی صورتحال پیدا ہوگی جس کا سب سے زیادہ نقصان خود وفاقی حکومت کو ہوگا۔