انسانی حقوق کے تناظر میں پاکستان کے خلاف بین الاقوامی فورمز پر ایک منفی پروپیگنڈہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں عمومی طور پر پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ روا سلوک پر اعترضات کیے جاتے ہیں۔
ان اعتراضات میں تبدیلی مذہب اور اقلیتی برادری کی لڑکیوں کی زبردستی شادی اور زبردستی مسلمان کرنے کے الزامات شامل ہیں۔ ان میں ایک سنگین الزام کمسن بچوں اور بچیوں کی تبدیلی مذہب کا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت اور زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جب یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ والدین کی مرضی کے بغیر نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں کے مذہب کو تبدیل کیا جاتا ہے، ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہوتی ہے۔
لاہور کی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا ایک رکشہ ڈرائیور نے اپنی کم سن لڑکی کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ اس رکشہ ڈرائیو کا مدعا یہ تھا کہ اس کی بیٹی کو اغواء کیا گیا اور زبردستی مذہب تبدیل کرایا اور پھر شادی کردی۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ کم سن بچیوں کی تبدیلی مذہب کے مقدمہ میں بچے کی ذہنی صلاحیت کا اندازہ لگانا ضروری ہے، اگریہ ثابت ہوجائے کہ تبدیلی مذہب کے لیے کسی دباؤ یا زبردستی کی گئی ہے تویہ عمل غیر قانونی ہوگا۔ معزز عدالت نے واضح کیا کہ آئین کا آرٹیکل 20 ہر فرد کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دیتا ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی شخص کو زبردستی تبدیلی مذہب پر مجبورکیا جائے۔ انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں والدین کی مرضی کے بغیرکم سن بچیوں کی تبدیلی مذہب کو ایک گھناؤنا فعل سمجھا جاتا ہے۔
اس صدی کے آغاز کے ساتھ مذہبی انتہاپسندی کی لہر نے پورے ملک کو لپیٹ میں لیا۔ مسلکی اختلاف پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا، روشن خیال مسلمان خاص طور پر نشانہ بنے۔ غیر مسلم اقلیتوں اور لسانی اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر خودکش حملے ہوئے۔ ان کے مذہبی رہنما ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔
لڑکیوں کے مذہب تبدیلی اور زبردستی شادی کے زیادہ تر واقعات پہلے سندھ میں ہوئے، پھر پنجاب اور خیبر پختون خوا سے بھی خبریں آنے لگیں۔ پنجاب میں زیادہ تر توہین کے الزامات کے تحت اقلیتی برادری کے مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھی گرفتارکیا گیا۔
پاکستان کی عدالتوں نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جامع فیصلے کیے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ میں اقلیتوں کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کے لیے لائحہ عمل واضح کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس تصدق حسین جیلانی کے فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے سابق آئی جی پولیس ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل کمیشن قائم کیا۔ ڈاکٹر شعیب سڈل نے اقلیتوں کی شکایات کا بغور جائزہ لیا۔ اقلیتوں سے تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبوں میں امتیازی سلوک کی شکایات ختم کرنے کے بارے میں تجاویز پیش کی گئیں۔
ان تجاویز میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں شامل ایسے مواد کی نشاندہی کی گئی جس سے اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا اظہار ہوتا ہے، مگر رجعت پسند عناصر نے اس رپورٹ کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ گزشتہ ماہ رحیم یار خان میں کچھ ہندو لوگوں کو مسجد سے پانی پینے پر مارا پیٹاگیا اورشرپسندوں نے عوام کو اشتعال دیا جس کے نتیجے میں ایک مندر نقصان پہنچاتھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ازخود نوٹس لیا اور ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔
عدالتی حکم پرکئی افراد گرفتار ہوئے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ جن لوگوں نے مندر کو نقصان پہنچایا ہے، ان پر جرمانہ کیا جائے اور یہ رقم مندر کی مرمت پر خرچ کی جائے۔ جسٹس گلزار پر مشتمل تین رکنی بنچ نے گزشتہ ہفتہ اس مقدمہ کی دوبارہ سماعت کی۔ ان کے سامنے اقلیتی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ پورے ملک میں اقلیتوں کی 20ہزار آسامیاں خالی پڑی ہیں معزز چیف جسٹس نے اقلیتوں کی 20ہزار آسامیوں پر تقرر نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس گلزار نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ وفاق، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتیں اقلیتوں کے ملازمتوں کے کوٹے پر بھرتیاں نہیں کررہی ہیں۔ چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے علاوہ چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریوں کو ہدایت کی کہ وہ ایک رکنی کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے گرد رجعت پسند عناصرکا حصار قائم کیا ہوا ہے۔ انھوں نے اس معاملہ پر اصولی مؤقف اختیار کرنے کے بجائے منفی دباؤکو قبول کیا۔ ایسی صورت حال سے پاکستان کا بین الاقوامی تشخص متاثر ہو رہا ہے۔
یورپی یونین کمیشن نے پھر پاکستان کو تنبیہ کی ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے متعلق قوانین پر نظرثانی کی جائے، اگر یورپی یونین کمیشن کی اس رپورٹ پر عمل درآمد نہ ہوا تو وہ جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس واپس لے سکتے ہیں۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جب اعلیٰ عدالتیں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے جرات مندانہ فیصلے کررہی ہیں توحکومت کے اس رویہ کا کوئی جواز نہیں۔