لشکری رئیسانی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ وہ نواب آف سراوان نواب غوث بخش رئیسانی کے صاحبزادے ہیں۔ لشکری رئیسانی صرف کتابیں ہی نہیں پڑھتے بلکہ بلوچستان میں نوجوانوں لڑکوں اور لڑکیوں کو کتب بینی کی طرف راغب کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔ انھوں نے بلوچستان سمیت اس خطہ میں آباد انسانی گروہ، قبائل اور نسلوں اور ذاتوں کے بارے میں عمیق مطالعہ کررکھا ہے۔
2008 کے انتخابات میں ان کے بڑے بھائی نواب اسلم رئیسانی پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے جب کہ وہ خقس سینیٹر منتخب ہوئے، وہ پارلیمنٹ کی آئین میں ترمیم کی کمیٹی میں شامل تھے۔ اس کمیٹی نے رضا ربانی کی قیادت میں آئین میں ترمیم کا جامع مسودہ تیار کیا جو 18ویں ترمیم کے طور پر معروف ہوئی۔ 18ویں ترمیم کے ذریعہ صوبوں کو خودمختاری ملی۔ کہا جاتا ہے کہ اگر 1970 میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن 18ویں ترمیم جیسے مسودہ پر متفق ہوجاتے تو مشرقی پاکستان اب تک پاکستان کے نقشہ میں شامل ہوتا۔
لشکری رئیسانی نے کتاب دوست موومنٹ کا آغاز کیا۔ جس کا مقصد بلوچستان کے نوجوانوں کو کتابوں کی طرف راغب کرنا تھا۔ انھوں نے اپنی ذاتی لائبریری سے ہزاروں کتابیں ویمن یونیورسٹی کو ئٹہ کی لائبریری کو عطیہ بھی کی ہیں۔ کتاب دوست موومنٹ Non profit تنظیم ہے۔ لشکری رئیسانی بلوچستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں 34 ہزار کے قریب نایاب اور منفرد موضوعات پر تحریر کی جانے والی کتابیں مفت میں دے چکے ہیں۔
وہ بلوچستان پیس فورم کے سربراہ ہیں۔ جس کے تحت اب تک مختلف لوگوں اور اداروں سے 25 ہزار کے قریب کتابیں عطیہ کے طور پر وصول کرکے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے علاوہ مختلف لائبریریوں کو فراہم کر چکے ہیں۔ انھوں نے بلوچستان کے دور دراز علاقہ جھلاوان لاء کالج خضدار کی لائبریری کے لیے اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں مہم چلائی۔
نوابزادہ لشکری رئیسانی ایک ایک وکیل کے پاس گئے اور گزارش کی کہ قانون کی کتابوں کو عطیہ کے طور پر دیں، یوں اسلام آباد کے وکلاء نے تعاون کیا اور لاء کالج کی لائبریری خوشحال ہوئی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پاکستان بار کونسل کی لاء کالج کو ایکریڈیشن دینے کی شرائط پوری ہوئیں۔ لشکری صاحب کا عزم ہے کہ وہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب کتابیں بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو فراہم کریں۔
کتب بینی ہی کسی قوم کی ترقی کی ضمانت ہے۔ امریکا اور یورپ میں کتابوں کے مطالعہ کی روایت بہت مستحکم ہے۔ ان ممالک میں لوگ بسوں، ریل گاڑیوں، جہازوں، پارکوں اور اسپتالوں میں مطالعہ کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکا اور یورپ میں سیاست دان، صحافی، اساتذہ، وکلاء اور سرکاری ملازمین کتابیں لکھتے ہیں۔ نیویارک میں رہنے والے ایک پاکستانی کہتے ہیں کہ جب شہر میں نئی کتاب آتی ہے تو لوگ مصنف سے کتاب پر دستخط کرنے کے لیے قطار لگاتے بناتے ہیں۔ بھارت میں گزشتہ 70 برسوں میں کتب بینی کا رجحان حیرت انگیز طور پر بڑھا ہے۔ وہاں ہر خواندہ شخص کتاب پڑھنے میں مصروف نظر آتا ہے۔
چند سال قبل ایک سروے میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ بچوں کی معروف سیریز ہیری پوٹر کی جتنی جلدیں لندن اور سنگاپور میں فروخت ہوئیں اتنی نئی دہلی میں فروخ ہوئی تھیں۔ بھارت کے کسان دو ماہ سے بھارت کے دار الحکومت نئی دہلی کا گھیراؤ کیے ہوئے ہیں جسے کسان اندولن کہا جاتا ہے۔
لاکھوں کسانوں کی عارضی بستیوں کے بارے میں ایک ڈاکیومنٹری میں بتایا گیا تھا کہ ان بستیوں میں زندگی کی دیگر ضروریات کے اسٹالوں کے ساتھ کتابوں کے اسٹالز بھی موجود ہیں اور روزانہ 300 کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ کسان دن بھر نعرے لگاتے، رہنماؤں کی تقاریر سنتے، پولیس کے دباؤ، لاٹھی چارج اور خفیہ ایجنسیوں کے کارکنوں کی رخنہ اندوزی کو ناکام بنانے میں گزرتا ہے مگر پھر بھی کتابیں ضرور پڑھتے ہیں۔
پاکستان میں قوم کے ہیروز میں کتابیں لکھنے اور پڑھنے کا شوق کم رہا ہے۔ ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کوئی کتاب ورثہ میں چھوڑ کر نہیں گئے مگر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور عمران خان نے کتابیں خود تحریر کیں۔ پہلے فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے کتاب Friends not master تحریر کی۔ مگر پھر یہ انکشاف ہوا کہ یہ کتاب اس وقت کے اطلاعات کے سیکریٹری الطاف گوہر نے تحریر کی تھی۔ اس طرح صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک کتاب In the line of fire تحریر کی۔ مگر پھر یہ انکشاف ہوا کہ یہ کتاب ان کے دوست ہمایوں گوہر نے تحریر کی جو سابق سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر کے صاحبزادے ہیں۔
ملک میں کاغذ درآمد ہوئے۔ پرنٹنگ پر آنے والی لاگت بڑھنے سے کتاب پر آنے والی لاگت زیادہ ہوگئی ہے جس کی بناء پر کتابوں کی قیمتیں اشیاء صرف کی طرح بڑھ گئیں۔ پبلشرز ایک کتاب کی 500 جلدیں شایع کرتے ہیں۔ اس طرح مصنفین کو رائلٹی دینے کی روایت نہیں ہے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی کتابوں میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔
انھوں نے گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تین کتابوں کے نام تجویز کیے اور فرمایا کہ ان کتابوں کے مطالعہ سے نئی معلومات ملیں گی۔ عارف علوی کی کتب بینی کے لیے ایک اچھی کوشش ہے۔ صدر عارف علوی کو کتابوں کی اشاعت میں رکاوٹوں کے خاتمہ اور کتب بینی کے لیے لوگوں کو راغب کرنے کے لیے کچھ سوچ و بچار کرنی چاہیے۔ لشکری رئیسانی کہتے ہیں کہ بلوچستان سے پسماندگی، بے چینی اور افراتفری کا خاتمہ علم و کتاب سے ممکن ہے۔