پی آئی اے کی نجکاری کے دوران جس قسم کا غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا اُس سے ملک میں تشویش کی لہر دوڑگئی ہے اور اہلِ اقتدار کی اہلیت و صلاحیت بارے ابہام دور گیا ہے لوگوں کے ازہان میں یہ خیال تقویت پکڑنے لگا ہے کہ نجکاری کرتے ہوئے اِداروں کی مزید تباہی کو یقینی بنایا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی اِدارہ سنبھل نہ سکے اور منظورِ نظر کو نوازنا آسان رہے۔ نیز حقائق کی کھوج میں مصروف لوگ مایوس ہوکر نجکاری کا عمل مکمل ہونے پر اطمنان محسوس کریں اور تنقیدی لب کشائی کی بلاجواز تصور کریں۔ ملکی صنعت و زراعت اور معیشت کی موجودہ حالت اسی غیر سنجیدہ رویے کی مرہون منت ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ غیر سنجیدگی چھوڑ کر خلوصِ نیت سے فرائض کی ادائیگی کی جائے مگر لگتا ہے کہ تساہل پسند ذمہ داران کو احساس ہی نہیں وہ قرض لیکر امورِ مملکت چلانے کے سوا کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ درست ہے کہ قومی معیشت کو بحال کرنا ہے تو خسارے میں چلنے والے اِداروں کو کارآمد بنانا ہوگا وگرنہ نجکاری ناگزیر ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے وفاق کی آمدن میں کمی اور صوبوں کے حصے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ نجکاری کے نام پر حکومت کو اِدارے تباہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ واقفانِ حال تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کے دوران حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے پر توجہ ہی نہیں دی کیونکہ حکمران اپنے چہیتوں کو یہ اِدارہ کوڑیوں کے بھاؤ دینا چاہتے ہیں اسی لیے اثاثوں کے بھی حصے بخرے کیے گئے اور غیر جانبدار سرمایہ کاروں کو بولی کے عمل سے الگ تھلگ رکھنے کی سعی کی گئی۔ اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو جب بھی اِس واردات کے حقائق آشکار ہوئے عوامی نفرت کا لاواپھٹ سکتا ہے۔
بچت کی دعویدار حکومت نے صدر اور وزیرِ اعظم کے طیاروں کی تزئین و آرائش کے لیے ایک ارب اسی کروڑ مختص کیے ہیں علاوہ ازیں پی آئی اے کی نجکاری کے لیے جن مہنگے ترین منتظمین کی خدمات لی گئیں اُنھیں بھی سوا دو ارب ادا کیا گیا ہے۔ یہ چار ارب سے زائد رقم خرچ کرنے کے باوجود ملک کے اہم ترین اِدارے کی نجکاری نہیں ہو سکی اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ نیلامی کے عمل سے قبل ضروری تیاری نہیں کی گئی۔
خسارے میں جانے والے اِداروں کی نشاندہی اور نجی شعبے کو سونپ دینا ہی حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ازحد ضروری ہے کہ نجکاری کے لیے زیرِ غور تمام اِداروں کے حوالے سے ہر پہلو پر غور و خوض کے بعد ایسی حکمتِ عملی وضع کی جائے جس سے نہ صرف خزانے پر بوجھ کم ہو بلکہ معقول آمدن بھی حاصل ہو۔ بغیر سوچے سمجھے اثاثوں کو نجی شعبے کے حوالے کر دینا بھی قومی مفاد کے منافی ہے لیکن حکومتی رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اِداروں کو بوجھ ظاہر کرکے پھینکنا چاہتی ہے۔ یہ طریقہ کار نہ صرف وفاق کو مزید کمزور کرنے کا باعث بنے گا بلکہ قرض میں ڈوبی معیشت بحال کرنے کے راستے مسدود ہوتے جائیں گے۔ نجکاری کے وزیر علیم خان فرماتے ہیں کہ اِداروں کو بحال کرنا میری ذمہ داری نہیں۔ ارے بھئی آپ موجودہ حکومت کے اہم وزیر ہیں جن کے پاس کئی وزارتوں کے قلمدان ہیں اگر آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں تو یہ بتادیں کس کی ذمہ داری ہے؟ تاکہ عوام اپنی حکومت سے توقعات ہی وابستہ نہ کرے۔
نجکاری کمیشن نے پی آئی اے کے حوالے سے جس حماقت کا مظاہرہ کیا ہے سچ پوچھئے تو عوام میں شدید غم و غصہ ہے جس نے خسارے کا بڑا بوجھ اپنے ذمہ لینے کے باوجود حکومت نے دو روز قبل بولی کے مرحلے میں جن چھ لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا اُن میں سے صرف ایک جس نے بولی کے عمل میں حصہ لیا۔ اُس نے بھی حکومت کی مقرر کردہ پچاسی ارب کے مقابلے میں صرف دس ارب کی پیشکش کی جو مزاق کے سوا کچھ نہیں۔ اِس طرح نہ صرف نجکاری کے عمل سے وابستہ توقعات متاثر ہوئیں ہیں بلکہ معاشی بحالی کی کاوشوں کے حوالے سے حکومتی خلوص کے حوالے سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہے۔ عوامی حلقوں میں اب یہ سوچ پختہ ہورہی ہے کہ نجکاری کی آڑ میں کچھ اہم لوگ ملکی اِدارے ہتھیانا چاہتے ہیں مگر اب عوام لاعلم نہیں وہ ساری کارستانی دیکھ رہی ہے۔ اگر اپنے حامی افراد میں اہم اِدارے بانٹنے کا عمل جاری رہاتونہ صرف عوامی حمایت ختم بلکہ حکمرانوں سے نفرت کی لہر شدت اختیارکر سکتی ہے۔
دس ارب کی پیشکش کرنے والے بلیوورلڈ سٹی کے بدنام پراپرٹی ڈیلر سعد نذیر اور اُس کے حصہ دار چوہدری ندیم اعجاز کو غیر سنجیدگی کی سزا دینی چاہیے جس نے نہ صرف بولی کے نام پر مزاق کیا بلکہ دس ارب دینے کی بجائے فرمائش کہ اتنی مالیت کے پلاٹس لے لیں کیا یہ بولی ہے؟ نہیں جناب یہ تو مزاق تھا جو بڑے اہتمام سے کیا گیا۔ مقصد اِدارے سے لوگوں کو بدظن کرنا ہے اتنی رقم میں تو ایک جدید جہاز بھی نہیں خریدا جا سکتا۔ پی آئی اے کے پاس تو سولہ طیارے روزوشب اُڑان بھر رہے ہیں۔ برطانیہ، امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے منافع بخش روٹ ہیں۔ نجکاری کے عمل کی ذمہ داری اپنے چہیتے اور بدنام فواد حسن فواد کو دینے سے ظاہر ہے کہ شفاف نجکاری مقصد ہی نہیں بلکہ کسی معتمدکو سونپنا ہے۔ شاید مناسب وقت پر خود بھی شامل ہونے کا منصوبہ ہو اسی لیے تو بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی گئی مبادا بولی کے عمل میں شامل ہو کر رنگ میں بھنگ ڈال دیں۔
ایسا مزاق پاکستان سے ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے پاکستان نے امریکہ سے ایف سولہ خریدنے کے لیے چھ سو ملین ڈالر ادا کیے لیکن جوہری پروگرام کو جواز بنا کر نہ صرف امریکہ نے پاکستان کو طیارے دینے کا عمل روک دیا بلکہ جو طیارے تیار حالت میں تھے اُن کی پارکنگ فیس کے نام پر بھی پیسے پاکستان کے کھاتے میں شمار کیے جاتے رہے۔ نواز شریف نے واشنگٹن دورے کے دوران صدر بل کلنٹن سے استدعا کی تو نصف رقم واپس کرنے کے ساتھ بقیہ پیسوں کا خوردنی تیل فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ بعد میں پرویز مشرف اقتدار میں آئے توانھوں نے ایک بینکار شوکت عزیز کو وزیرِ خزانہ بناکر ہدایت کی کہ ملکی معیشت بحال کریں۔
شوکت عزیز نے امریکہ کو پیشکش کی کہ پاکستان کو جو تین لاکھ ٹن گندم دی گئی ہے وہ کاغذات میں مفت کی بجائے قیمتاََ لکھ دیں اور یہی گندم ملکی ضرورت سے زیادہ ظاہر کرتے ہوئے بعد میں افغانستان کو عطیہ کردی گئی۔ اِس طرح نیک نامی بھی کما لی گئی اور ملکی معیشت تو ٹھیک نہ ہوئی البتہ شوکت عزیز نے اپنی معاشی حالت بہترین کر لی۔ اِس واردات سے خوش ہو کر مشرف نے شوکت عزیر کو وزیرِ خزانہ سے وزیرِ اعظم بنا دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فواد حسن فواد مزید کِس اہم ترین منصب کے حقدار قرار پاتے ہیں جب پی آئی اے کو خریدنے یا پھر ائر پنجاب بنانے کی باتیں ختم ہوں گی اور کے پی کے کی طرف سے بھی اِس اِدارے کو خریدنے کا شور تھمے گا تبھی اِس بارے شاید کچھ معلوم ہو پائے۔