مغل دور میں ہندوستان میں ترقی کا عمل بہت محدود تھا۔ انگریز حکومت کا کام ترقیاتی عمل کو بڑھانا نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ بدیسی دور میں ہندوستان میں وہ ترقی نہیں ہوئی جو اس دوران سوویت یونین، ترکی اور مشرقی یورپ وغیرہ میں ہوئی۔ بدیسی حکومت نے یہ طریقہ کار بلوچستان میں اختیار کیا۔
اس حکومت نے اس صوبہ میں فوجی مقاصد کے لیے سڑکیں بنائیں۔ ریلوے لائن تعمیر کی اور کوئٹہ شہر کو 1935کے زلزلہ کے بعد نئے سرے سے تعمیر کیا۔ انگریز دور میں کراچی سے چمن تک ریلوے لائن تعمیر ہوئی۔ اسی طرح سکھر کو ریلوے لائن کے ذریعہ کوئٹہ سے منسلک کیا گیا۔ کوئٹہ سے دالبدین تک ریلوے لائن تعمیر ہوئی۔
اس دور میں کراچی سے کچا راستہ لسبیلہ تک جاتا تھا اور پھر یہ راستہ دشوار گزار پہاڑی راستوں سے گزر کر خضدار اور کوئٹہ پہنچتا تھا۔ اگرچہ بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح کو کوئٹہ اور زیارت سے گہری دلچسپی تھی، وہ خان قلات کے وکیل رہے تھے اور گرمیوں کی تعطیلات شملہ کے علاوہ زیارت میں بھی گزارتے تھے اور اپنی بیماری کے آخری ایام بھی انھوں نے زیارت میں گزارے مگر ان کے دور حکومت میں بلوچستان کو نہ تو مکمل طور پر صوبہ بنایا گیا اور نہ بلوچستان کی ترقی کے لیے کوئی سوچ و بچار ہوا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں ایران اور ترکی کے ساتھ آر سی ڈی کا معاہدہ ہوا۔
ایران نے بلوچستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ کراچی سے کوئٹہ تک آر سی ڈی ہائی وے تعمیر کی گئی۔ یہ ون وے سڑک تھی اور کئی پہاڑی دروں پر خطرناک موڑ تھے۔ سی پیک کے منصوبہ کے آغاز سے پہلے یہ بلوچستان کی سب سے بڑی معروف سڑک تھی۔
آر سی ڈی ہائی وے سے منسلک سڑک افغانستان کی سرحد تک جاتی ہے اور ایک اور سڑک ایران کی سرحد تک جاتی ہے۔ یہ سڑک 60ء کی دہائی میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس وقت ٹریفک کم تھا۔ کراچی سے کوئٹہ تک شہروں اور پہاڑوں کے دامن میں آباد گاؤں کی بیشتر آبادی غربت کا شکار تھی اور جو لوگ کچھ اچھی پوزیشن میں تھے ان میں سے اکثریت کے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ کوئی بڑا کاروبار کرسکیں۔ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھی۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں خلیجی ممالک میں روزگار کے مواقعے ملتے گئے۔ عمان اور خلیجی ممالک میں ان افراد کو بھی روزگار ملنے لگا جو نیم خواندہ تھے یا صرف انجنیئرنگ کے کسی شعبہ میں مستری اور ٹیکنیشن بننے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ضلع مکران سے خاصے لوگ عمان کی فوج اور پولیس فورس میں شامل ہوئے۔
بلوچستان میں 70ء کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت میں تعلیمی اداروں کے قیام پر خصوصی توجہ دی گئی، یوں لڑکیوں میں بھی تعلیم کی شرح بڑھ گئی۔ ان عوامل میں تبدیلی کے نتیجہ میں سماجی حرکت پذیری بڑھ گئی جس کے نتیجہ میں سڑکوں پر ٹریفک بڑھ گیا مگر آر سی ڈی ہائی وے کے بارے میں ذرائع ابلاغ پر یہ تاثر دیا گیا تھا کہ اس سڑک کو جدید ترین انداز میں تعمیر کیا گیا تھا مگر راقم کو گزشتہ ہفتہ کوئٹہ سے اس سڑک کے ذریعہ کراچی آنے کا موقع ملا تو محسوس ہوا کہ یہ سڑک انتہائی پسماندہ ہے، یہ سڑک 1200کلو میٹر طویل ہے۔
یہ سڑک مستونگ، قلات، خضدار اور لسبیلہ ضلع کو کراچی سے منسلک کرتی ہے مگر آج بھی یہ سڑک یکطرفہ ہے اور کوئٹہ سے کراچی تک یہ سڑک اسٹریٹ لائٹ سے محروم ہے۔ وڈھ کے قریب اور لسبیلہ کے قریب یہ سڑک انتہائی مخدوش حالت میں ہے۔ ان دو مقامات پر گاڑیوں کو گڑھوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔
رات کے اندھیرے میں سیکیورٹی اور ٹریفک کے تناظر میں یہ بارشوں میں یہ مخصوص حصہ سفر کے لیے انتہائی خطرناک ہوجاتا ہے۔ اس علاقہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان حصوں کی دوبارہ تعمیر کا کام کئی برسوں سے جاری ہے جو نامعلوم وجوہات پر اب تک مکمل نہیں ہوپایا۔ بلوچستان میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کا تصور کمزور ہے۔ اس سڑک پر سفر کرنے والے کار، بسوں اور ٹرک ڈرائیوروں میں سے بیشتر کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اس کی میعاد ختم ہوگئی ہے۔
بلوچستان کے امور کے ماہر صحافی عزیز سنگھور نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ بیشتر ڈرائیور ڈرائیونگ کا تجربہ نہیں رکھتے اور بغیر ٹیسٹ دیے لائسنس حاصل کرلیتے ہیں ان میں سے کئی تو سڑکوں پر ڈرائیونگ کی صلاحیت نہیں رکھتے، سیفٹی بیلٹ باندھنے کو تیار نہیں ہیں۔ جب راقم نے کار کے ڈرائیور سے سیفٹی بیلٹ باندھنے کی استدعا کی تو موصوف نے فرمایا " اﷲ بچانے والا ہے۔" ڈرائیور گاڑی کو تیز رفتاری سے چلاتے ہوئے موبائل فون کو اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے یہ کوئی حفاظتی آلہ استعمال کررہے ہوں۔
عزیز سنگھور نے لکھا ہے کہ بلوچستان میں موٹر وہیکل قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ جو گاڑی سڑک پر ایک دفعہ آتی ہے اس کا کبھی معائنہ نہیں ہوتا اور پھر یہ گاڑی کسی حادثہ میں تباہ ہوجاتی ہے یا استعمال کے قابل نہیں رہتی۔ عزیز سنگھور کہتے ہیں کہ بلوچستان میں سڑکوں کے حادثات میں ہر سال ہزاروں افراد جاں بحق ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے بہت سے قیمتی افراد جن میں ماہر ڈاکٹرز، غیر سرکاری افسران اور سیاستدان ٹریفک کے حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
چین سے سی پیک کے معاہدہ کے بعد جدید سڑکوں کی تعمیر شروع ہوئی۔ کراچی سے گوادر تک ساحل کے ساتھ کوسٹل ہائی وے پر تعمیر ہوئی۔ یہ سڑک بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر ہوئی۔ بلوچستان کی ہائی ویز پر موٹر وے پولیس اور مقامی پولیس کہیں نظر نہیں آتی، یوں کہیں بھی چیکنگ نہیں ہوتی۔
صرف لیویز اور کوسٹ گارڈز کی چوکیاں اسلحہ اور منشیات کی منتقلی روکنے کے لیے پوچھ گچھ کرتی ہیں۔ عزیز سنگھور اس موضوع پر مزید لکھتے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ صرف سڑکوں کی تعمیر اور ٹریفک قوانین کے نفاذ میں ہی امتیازی سلوک نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں یہی صورتحال ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دس سے بارہ گھنٹوں تک بجلی کی لوڈشیڈنگ عام سی بات ہے۔
مکران ضلع میں ایران سے بجلی آتی ہے جو انتہائی مختصر مدت کے لیے ہوتی ہے۔ بلوچستان میں گیس نکلی، مگر بلوچستان کے بیشتر علاقہ 70سال گزرنے کے باوجود اس گیس سے محروم ہیں۔ حکومتیں آتی ہیں اور رخصت ہوجاتی ہیں، بلوچستان کی سڑکوں کی حالت بھی نہیں بدلتی نہ ہی دیگر مسائل حل ہوتے ہیں۔ یوں یہ خونی سڑکیں مسلسل زندگیاں چھین رہی ہیں۔