Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bangladesh Ki Taraqi Ki Wajohat

Bangladesh Ki Taraqi Ki Wajohat

پاکستان کے قیام میں مشرقی بنگال کے عوام کا بنیادی کردار رہا مگر قیام پاکستان کے بعد نئے ملک کے دارالحکومت کراچی میں قائم ہونے والی مرکزی حکومت نے اکثریت صوبہ مشرقی پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جس سے بنگالی آبادی میں احساس محرومی پیدا ہونا شروع ہوا۔

پہلے 10 برسوں میں تین بنگالی رہنما مختصر مدت کے لیے وزیر اعظم کے عہدہ پر تعینات ہوئے مگر 1958ء میں جب جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا اور پھر ایک ایسا آئین بنایا جو ان کی ذات کے گرد گھومتا تھا۔

پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعہ صدارتی انتخاب میں شکست کے بعد مشرقی پاکستان کے عوام کی ناامیدی بڑھ گئی۔ مارچ 1971ء سے 16 دسمبر 1971ء تک مشرقی پاکستان خانہ جنگی کا شکار رہا۔ پھر بھارت کی فوج کی مداخلت ہوئی اور ملک ٹوٹ گیا۔ جب بنگلہ دیش بنا تو اس کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا تھا۔

سیلابوں اور طوفانوں سے ہر سال ہزاروں افراد کا مرنا معمول کی بات تھی۔ سڑکیں اور پل ٹوٹ پھوٹ چکے تھے، امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب تھی اور پٹ سن کے علاوہ کوئی شے برآمد نہیں کی جاتی تھی۔

غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح 70 فیصد سے زیادہ تھی۔ بنگلہ دیش میں زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات دنیا کے 10ممالک میں سرفہرست تھی مگر 50 سال بعد پاکستان اور بھارت اب بنگلہ دیش سے غریب ہوگئے ہیں۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر پیش کیے جانے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بنگلہ دیش کی GDP میں 9فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1971ء میں پاکستان بنگلہ دیش سے 70 فیصد زیادہ امیر تھا مگر آج بنگلہ دیش پاکستان کے مقابلہ میں 45 فیصد امیر ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی 3 لاکھ 4 ہزار ہے۔

پاکستان کی 2 لاکھ 38ہزار روپے اور بھارت کی 3 لاکھ روپے تک پہنچی ہے۔ اس طرح نئے معاشی اعداد و شمار کے تجزیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بنگلہ دیش کئی بھارتی ریاستوں سے امیر ہے۔ گذشتہ عشرہ میں بنگلہ دیش کی برآمدات میں 8اعشاریہ 6 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جب کہ دنیا کے باقی ممالک کی تجارت میں مجموعی طور پر اوسطاً اعشاریہ چار فیصد (0.4) اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس طرح لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے۔

یہ بات اس تناظر میں اہم ہوگئی ہے کہ پاکستان اور بھارت میں یہ تناسب کم ہوا ہے۔ امریکی ماہرین بنگلہ دیش کی برآمدات میں اضافہ کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ معیشتیں بنگلہ دیش کو زیرو ٹیرف فری رسائی دیتی ہیں مگر بنگلہ دیش کو 2026ء میں ان مراعات سے دستبردار ہونا پڑے گا، یوں بنگلہ دیش کی حکومت کا امتحان شروع ہوگا۔ اس وقت ویتنام کی طرح بنگلہ دیش کی معیشت کی پختگی ہوگئی۔ بنگلہ دیش میں اپنے قیام کے چند سال بعد عدم استحکام پیدا ہوا جب اس ملک کے بانی سابق صدر مجیب الرحمن ایک فوجی بغاوت میں جاں بحق ہوئے تھے۔

اس حملہ میں ان کی اہلیہ اور کئی بچے بھی ہلاک ہوئے تھے۔ صرف ایک بیٹی شیخ حسینہ واجد جو ملک سے باہر تھیں زندہ بچ گئی تھی۔ پھر فوج کے سربراہ جنرل ضیاء اور جنرل ارشاد برسر اقتدار آئے۔ اس طرح جنرل ضیاء کی اہلیہ بھی اقتدار پر قابض ہوئیں مگر پھر حسینہ واجد نے اقتدار سنبھال لیا۔ اگرچہ کہ بنگلہ دیش سیاسی بحرانوں کا شکار رہا۔ شیخ حسینہ واجد کی حکومت میں بنگلہ دیش کی آزادی کی مخالفت کرنے والی جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیاں دی گئیں جس کی دنیا میں مذمت ہوئی۔

عدلیہ کی آزادی اور میڈیا کی آزادی پر قدغن لگی، سیاسی رہنماؤں پر بدعنوانی کے الزامات لگے مگر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد فوج میں بھرتی ہونے والے افسروں نے جمہوری حکومت کو ختم کرنے اور فوج کا راج قائم کرنے کی کوشش نہیں کی، یوں حسینہ واجد کی اچھی طرز حکومت درست خارجہ اور معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں یورپی یونین اور امریکا کی حمایت حاصل ہوئی اور یورپی یونین کی صفر ٹیرف (0 Tariff) پالیسی سے برآمدات کے تمام اہداف پورے ہوئے۔ پھر برسر اقتدار حکومتوں نے ملک میں پلوں، سڑکوں اور ریلوے لائن کی تعمیر اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے ڈیم بنانے کی اسکیموں کو مقررہ وقت پر مکمل کیا۔

پروفیسر ڈاکٹر یونس کے گرامن بینک نے غیر سرکاری سطح پر خواتین کی اقتصادی حالت بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا، یوں خواتین کی ترقی کی بناء پر غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں کمی ہوئی اور خواتین کی معاشی بہتری سے گھریلو تشدد کے واقعات میں کمی آئی۔

پروفیسر سکندر مہدی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر ہیں، انھوں نے بچپن اور جوانی کے ابتدائی دن سابقہ مشرقی پاکستان میں گزارے اور ڈھاکہ یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ بنگلہ دیش کی ترقی کے محرکات کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں نیشنل ازم کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ بنگالی قوم کی جدوجہد کا ایک تاریخی پس منظر رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ نیشنل ازم نے بنگلہ دیش کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ پروفیسر سکندر مہدی کہتے ہیں کہ بنگالی پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے، وہ اقتدار چاہتے تھے۔ مشرقی پاکستان کی منتخب قیادت کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا تو ان کا بیانیہ تبدیل ہوا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے وقت وہاں کے دانشوروں میں یہ بیانیہ مقبول تھا کہ بنگلہ دیش کو بہتر ترقی یافتہ ملک بنانا ہے۔ اس جذبہ نے بنگلہ دیش کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بنگلہ دیش کے ادارے قانون اور جمہوری اداروں کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور یہ ادارے جمہوری امنگوں کے ترجمان بن گئے۔

پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی قیادت نے بصیرت کا استعمال کرتے ہوئے جیو پولیٹیکل حقیقتوں کو تسلیم کیا اور بھارت سمیت دیگر پڑوسی ممالک سے پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات استوار کیے جس کے نتیجہ میں دفاعی بجٹ میں حیرت انگیز کمی کی گئی اور یہ رقم تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوئی۔ پھر بنگلہ دیش کی معیشت میں عورتوں کا کردار خاصا بڑھا جس نے بنگلہ دیش کی ترقی میں ایک مثبت کردار ادا کیا۔

پھر یورپی یونین نے بنگلہ دیش کی کاٹن اور ریڈی میڈ کپڑوں کی صنعت پر ٹیکسوں کی شرح بہت کم کردی تھی، یوں یہ صنعتیں مضبوط ہوئیں، نوجوانوں کو روزگار کے بہت سے مواقع ملے اور بنگلہ دیش ترقی کی دوڑ میں اپنے پڑوسی ممالک سے آگے نکل رہا ہے۔ مگر 49سال کے مختصر عرصہ میں بنگلہ دیش کی ترقی پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کو سوچ و فکر کی دعوت دے رہی ہے کہ وہ کون سی پالیسیاں ہیں کہ 8سال بعد بنگلہ دیش دوسرے ممالک کو قرض دینے کے قابل ہوگا۔