بھارت صحت کے تناظر میں تاریخ کے بد ترین بحران سے گزر رہا ہے۔ کورونا 19نے ہر طرف موت کے سائے بکھیر دیے ہیں۔ لوگ آکسیجن نہ ہونے کی بناء پر مر رہے ہیں۔ اسپتالوں میں اب مریضوں کے کھڑے ہونے کی جگہ تک نہیں ہے۔ مرنے والوں کی لاشوں کو جلانے والی لوہے کی بھٹیاں مسلسل استعمال سے پگھل گئی ہیں۔
شمشان گھاٹوں سے 24 گھنٹے شعلے ابھرتے نظر آتے ہیں۔ قبرستانوں میں قبروں کا ملنا مشکل ہورہا ہے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے 10پروفیسر اس وائرس کی نذر ہوگئے مگر اس بحران میں وزیر اعظم مودی کی جماعت کا ہندو توا کا فلسفہ بھی شمشان گھاٹوں میں نذر آتش ہوگیا ہے۔ مسلمانوں نے انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مریضوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔
مسلمانوں کے خون سے مریضوں کی جان بچائی جارہی ہے اور عطیہ دینے والے مسلمان یہ شرط عائد نہیں کررہے ہیں کہ کس مریض کو پلازمہ لگایا جائے۔ پلازمہ دینے والوں میں تبلیغی جماعت کے کارکن بھی سرفہرست ہیں۔
بھارتی حکومت کے ہندو انتہاپسند وں نے گزشتہ سال تبلیغی جماعت پرکورونا پھیلانے کے الزامات لگائے تھے اور دہلی میں اس جماعت کے مرکزکو سیل کیا گیا تھا۔ بعد میں مہاراشٹرا ہائی کورٹ نے اس الزام کو غلط قرار دیا تھا کہ محض تبلیغی جماعت کی بناء پر بھارت میں کورونا پھیلا۔ دہلی اورگجرات سے مسلمانوں نے انسانیت کی خدمت کی نئی مثال قائم کی۔ انھوں نے کئی مساجد کو اسپتالوں میں تبدیل کردیا۔
ان مساجد میں مریضوں کے بستر لگادیے گئے ہیں اور ڈاکٹر مریضوں کے علاج پر توجہ دے رہے ہیں۔ مسلمان امراء مریضوں اور لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والوں کے لیے عطیات بھی دے رہے ہیں۔ اتر پردیش کے ایک مسلمان نوجوان نے اپنی کار اور اپنی بیوی کا زیور بیچ کر مریضوں کو آکسیجن فراہم کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔
سوشل میڈیا پر پیش کی جانے والی ایک وڈیو میں ایک ہندو پولیس والا تراویح پڑھنے والے مسلمانوں سے اپیل کررہا ہے کہ وہ تراویح کی نماز کے اختتام پر اس بیماری کے خاتمہ کے لیے دعا کریں۔ اس بیماری نے وزیر اعظم مودی کے اچھے طرزِ حکومت کی دھجیاں اڑادی ہیں۔
مودی حکومت نے گزشتہ سال کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے خاطرخواہ اقدامات کیے تھے۔ حکومت نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگایا تھا، یوں لاکھوں افراد معاشی طور پر تو متاثر ہوئے تھے مگر وائرس کی ترسیل رک گئی تھی۔
بھارت کے Serum Institute میں وائرس پر قابو پانے کے لیے ویکسین کی تیاری شروع ہوئی۔ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیارکردہ ویکسین اس انسٹی ٹیوٹ میں جلد تیار ہوئی۔ حکومت نے شہریوں کو ویکسین لگانے پر خصوصی توجہ دی اور یہ ویکسین دیگر ممالک کو برآمد کی جانے لگی۔ یوں بھارت کی صرف آٹھ فیصد آبادی کو ویکسین لگی تھی۔
برطانیہ سے آنے والے وائرس نے تباہی مچانی شروع کی تو وزیر اعظم مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما پہلے مختلف ریاستوں میں انتخابی مہم چلانے میں مشغول رہے۔ پہلے بہار میں مہم چلائی اور پھر بنگال میں ممتا بندرجی کی حکومت کو الٹنے کے لیے جلسے جلوس منعقد ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ مذہبی جنونیت بھی کورونا کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اتر پردیش کی حکومت نے ہندوؤں کے روایتی تہوارکنبھ میلہ کی تقاریب پر پابندی نہیں لگائی اور لاکھوں یاتریوں نے دریائے گنگا میں مقدس اشنان لیا۔
بھارت کے سینئر صحافی جاوید نقوی لکھتے ہیں کہ 1943ء میں بنگال میں تاریخ کا بدترین قحط پڑا تھا جس میں ایک اندازہ 20 لاکھ سے زائد افرا د جاں بحق ہوئے تھے۔ اس قحط کی وجہ برطانوی حکومت کی بد انتظامی تھی۔ اب بھارت میں وائرس پھیلنے کی ایک وجہ بد انتظامی اور مذہبی جنون بتایا جاتا ہے۔ یوں وائرس پورے بھارت میں سرائیت کرگیا۔
پاکستان گزشتہ سال بھی وائرس سے متاثر ہوا تھا مگر وزیر اعظم عمران خان کی مخالفت کے باوجود کئی مہینہ تک پورے ملک میں لاک ڈاؤن رہا، فضائی اور ریل کا سفر معطل رہا۔ بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر پابندی رہی اور کورونا وائرس محدود رہا۔ نامعلوم وجوہات کی بناء پر وائرس کمزور پڑگیا۔ حکومت نے اس سال کے شروع تک کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی درآمد پر توجہ نہیں دی تھی۔ جب بھارت، بنگلہ دیش، یورپی ممالک اور امریکا سے ویکسین لگانے کی خبریں آئیں تو وزارت صحت کے ادویات کنٹرول کرنے کے ادارہ نے اس بارے میں سوچنا شروع کیا۔
اس موقع پر چین کام آیا اور چین نے ویکسین کے کئی لاکھ ڈوز عطیہ کے طور پر دیے، یوں ویکسین لگانے کا کام شروع ہوا۔ سائنس سے لاعلم لوگوں نے ویکسین کے بارے میں پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ کچھ نے ویکسین کو مردانہ قوت کے لیے خطرناک قرار دیا۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نجی شعبہ کو ویکسین کی فروخت کا اختیاردیا گیا ہے۔ ایک مثبت بات یہ ہوئی کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کے مربوط رابطہ کی بناء پر ویکسین لگانے کا عمل انتہائی بہتر انداز میں جاری ہے مگر ابھی تک آبادی کے ایک فیصد سے کم حصہ کو ویکسین لگی ہے۔
اس دفعہ برطانیہ سے منتقل ہونے والے وائرس نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تباہی مچا دی۔ پاکستان میں پہلی دفعہ وائرس سے متاثرہ افراد کی شرح 20فیصد سے زیادہ ہوئی۔ اس دفعہ وائرس نے بچوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا۔ حکومت نے اب لاک ڈاؤن کرنے اور SOPs پر عمل درآمد کے لیے فوج طلب کرلی ہے۔ پاکستان میں مریضوں کی تعداد بڑھنے سے اسپتالوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ لاہور، ملتان، اسلام آباد، پشاور اور ملتان وغیرہ میں اسپتالوں میں بیڈ خالی نہیں ہیں۔ اسپتالوں میں آئی سی یوز بھرگئے ہیں۔ اس صورتحال میں آکسیجن کی کمی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے وزیر شبلی فراز نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے پیش رو کے دور میں تیار کیے جانے والے وینٹی لیٹر ناقص ثابت ہوئے ہیں۔ حکومت نے مساجد اور دیگر عبادت گاہوں کے لیے SOPs نافذ کیے ہیں مگر انتہاپسندانہ ذہن اور سائنسی طرزِ فکر سے دوری کی بناء پر ان SOPsپر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں ہونے والے مذہبی اجتماعات کے منتظمین نے ان SOPs کو اہمیت نہ دی اور مذہبی جلوسوں کے انعقاد کی اجازت دیدی گئی اور بازاروں میں عیدکی خریداری کو محدود نہیں کیا گیا تو بھارت جیسی صورتحال پاکستان میں بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کی خبریں غیر ملکی اخبارات اور چینلز میں شایع اور نشرکی جارہی ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترکی کے ایک چینل کوانٹرویو دیتے ہوئے دونوں ممالک میں بات چیت اور اس معاملہ میں یو اے ای کے کردارکی تردید کی اور دونوں ممالک کی بات چیت میں مسلح افواج کے درمیان دو ماہ قبل کنٹرول لائن پر سیز فائرکرنے پر اتفاق ہوا تھا جس سے کنٹرول لائن کے دونوں طرف رہنے والے لاکھوں افراد کی زندگیوں کو سکون حاصل ہوا تھا۔
دونوں ممالک ایک جیسے حالات کا شکار ہیں۔ دونوں طرف کا صحت کا نظام اس خوفناک بیماری کے تدارک میں کامیاب نہیں ہورہا ہے۔ اس صورتحال میں دونوں ممالک کے درمیان بات چیت شروع ہونی چاہیے۔ دونوں ممالک اب سب سے پہلے صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے طریقوں پر مذاکرات کریں۔