پاکستان ہندوستان کے بٹوارے کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ ہندوستان کے صوبے بہار سے بھاری تعداد میں افراد ہجرت کرکے مشرقی پاکستان(مشرقی بنگال) میں آباد ہوئے۔ حسان الحق بہار کے گاؤں بہراواں میں پیدا ہوئے۔ وہ والدین کے ساتھ ہجرت کر کے ڈھاکا کے محلے محمد پور میں آباد ہوئے۔
ان کے بچپن کے دوست عقیل احمد کہتے ہیں کہ سنگرامی نے کبھی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی، انھوں نے اپنی محنت سے اردو اور انگریزی سیکھی اور اسی طرح فوٹو گرافی پر دسترس حاصل کی۔ انھیں سابقہ مشرقی پاکستان کے دار الحکومت ڈھاکا سے شایع ہونے والے ایک اردو روزنامہ پاسبان میں فوٹوگرافر کی ملازمت مل گئی۔ 1960 میں مشرقی پاکستان میں اخبارات کی صنعت کا دارومدار سرکاری اشتہارات پر ہوتا تھا۔ مجموعی طور پر اردو اخبارات کی معیشت کمزور تھی۔
اردو اخبارات کے پڑھنے والوں کی تعداد کم تھی، یوں ان اخبارات میں مستقل معاشی بحران رہتا تھا۔ روزنامہ پاسبان میں صحافیوں کی اکثریت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سے منسلک تھی۔ معروف صحافی علی احمد خان نے کراچی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن NSF سے منسلک رہے۔ جب صحافت کا پیشہ اختیار کیا تو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں فعال ہوئے، وہ مشرقی پاکستان میں کام کرنے والے کمیونسٹ پارٹی سے رابطہ میں تھے اور کمیونسٹ پارٹی کے ہمدردوں میں شامل تھے۔
انھوں نے روزنامہ پاسبان میں یونین قائم کی۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ حسان الحق کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ وہ انتظامیہ کے آدمی ہیں۔ پاسبان میں یونین کا ایک اہم اجلاس ہوا۔ علی احمد خان کہتے ہیں کہ اس اجلاس میں اچانک حسان آگئے تو تقریباً تمام شرکاء نے اچانک خاموشی اختیار کر لی۔ سب کا خیال تھا کہ حسان کو اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے مگر انھوں نے کہا کہ حسان تشریف رکھیں اور اجلاس جاری رکھا جائے۔ یونین کے اس اجلاس نے حسان کی زندگی تبدیل کردی۔ وہ ساری زندگی کے لیے ٹریڈ یونین کے اسیر ہوئے اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سے منسلک ہوئے۔
جب پی ایف یو جے کے رہنما منہاج برنا کو ایوب خان کی حکومت نے زبردستی ڈھاکا بھیجا تو سنگرامی وہاں ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے۔ حسان ڈھاکا یونین آف جرنلسٹس اور پی ایف یو جے کے جلسوں میں جوش و خروش سے نعرے لگانے کی وجہ سے مشہور ہوئے، وہ 1970 میں کراچی آئے اور روزنامہ حریت میں ملازمت کرلی۔ پی ایف یو جے نے 1970 میں غیر صحافتی عملہ کو عبوری امداد دینے کے حق میں 11دن تک تاریخی ہڑتال کی، اس دوران پاکستان کے دونوں حصوں سے کوئی اخبار شایع نہ ہوا۔ حسان کو بنگالی زبان جاننے والے صحافیوں نے سنگرامی کا لقب دیا جو ان کے نام کا حصہ بن گیا۔
1971میں سنگرامی ڈھاکا میں تھے کہ 16دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان دنیا کے نقشہ سے غائب ہوا اور بنگلہ دیش دنیا کے نقشہ پر طلوع ہوا۔ بنگالی تو ترقی کی راہ پر لگ گئے مگر وہاں مقیم اردو بولنے والی آبادی کی زندگی اجیرن ہوگئی۔
حسان سنگرامی بھارت سے ہوتے ہوئے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو پہنچ گئے، وہ اور سیکڑوں افراد پاکستان کے سفارت خانے سے پاسپورٹ اور مدد کے طالب تھے، سنگرامی پاکستانی سفارت خانے کے چکر لگاتے اور احتجاج کرتے ہوئے مایوس ہوئے تو بھارت واپس گئے۔ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے بھارت کی ریاست راجھستان سے تھر کے ریگستان سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
اس زمانہ میں عالمی شہرت یافتہ ادیب شوکت صدیقی پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار روزنامہ مساوات کے مدیر تھے۔ سنگرامی روزنامہ مساوات میں فوٹوگرافر بن گئے۔ سنگرامی اور ان کے خاندان نے کسمپرسی میں نئی زندگی کا آغاز کیا، اورنگی میں کچا مکان بنایا، کچھ عرصہ بعد سنگرامی نے شادی کی۔ ان کی اہلیہ جو ایک معلمہ ہیں ساری زندگی محنت کرنے پر یقین رکھتی ہیں انھوں نے ہر مشکل دور میں سنگرامی کا ساتھ دیا، سنگرامی مشکل حالات میں بھی صحافیوں کی ٹریڈ یونین سے منسلک رہے۔
1978 میں پی ایف یو جے نے جنرل ضیاء الحق کی بعض اخبارات پر پابندیوں کے خلاف رضاکارانہ گرفتاریاں دینے کی تحریک شروع کی سنگرامی گرفتاریاں دینے والے پہلے دستے میں شامل تھے۔ پی ایف یو جے کے سینئر رہنما اور معروف صحافی غلام نبی مغل کا کہنا ہے کہ جیل میں سنگرامی جتنے خوش اور مطمئن تھے دوسرا کوئی فرد نہ تھا۔ وہ مختصر کپڑے پہن کر جیل میں مٹرگشت کرتے۔ مغل صاحب نے انھیں سمجھایا کہ ملاقات کے لیے آنے والے سارے عزیز سمجھتے ہیں کہ جیل والوں نے کپڑے چھین لیے ہیں، یوں ان کا رویہ تبدیل ہوا۔
سنگرامی نے طویل عرصہ بے روزگاری گزاری، وہ مختلف اخبارات کے لیے کام کرتے رہے۔ کئی سال بعد انھیں روزنامہ ڈان میں ملازمت ملی۔ حالاتِ زمانہ انھیں کینیڈا لے گئے جہاں وہ تنہائی کا شکار ہوئے۔ سنگرامی 8ہفتے قبل کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کے اسپتال میں اوپن ہارٹ سرجری کے لیے داخل ہوئے، پھر گھر چلے گئے۔ گزشتہ ہفتہ انھیں ایمرجنسی میں اسپتال منتقل کیا گیا مگر سنگرامی اپنی زندگی کے 80سال پورے کرنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئے۔ حسان کے نام کے ساتھ سنگرامی کا لاحقہ بنگالی زبان میں اس نعرہ سے ماخوذ تھا:
چولبے چولبے سنگرام چولبے، چلے گی چلے گی تحریک چلے گی! اے بریر سونگر م سد ھینوتر سونگرم، اس دفعہ کی تحریک، آزادی کی تحریک۔
یہ نعرے ہی دراصل ان کی زندگی کا محور تھے۔