سندھ اسمبلی نے قرارداد منظورکی کہ وزیر اعظم عمران خان چینی حکام سے سی پیک پر ہونے والے مذاکرات میں کراچی سرکلر ریلوے کے مسئلہ کو ML-I منصوبے کی آڑ میں نظر انداز نہ کریں۔ وزیر اعظم کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے چین سے مالیاتی اعانت کے حصول کو یقینی بنائیں۔ وزیر اعظم اہم قومی اور بین الاقوامی معاملات پر چین کی قیادت سے اتفاق رائے کرکے واپس گئے مگر سرکلر ریلوے کا مسئلہ حل نہ ہوا۔
وفاقی حکومت نے سندھ اسمبلی کی قرار داد پر کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے اس قرارداد کی مخالفت کی مگر وفاقی حکومت کی خاموشی کراچی کے عوام میں تشویش اور بے چینی کو بڑھا رہی ہے۔ وفاقی حکومت کراچی سے پشاور تک دوسری ریلوے لائن ML-I کے منصوبہ کو آخری شکل دے رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ سے ڈرگ روڈ تک 18 کلومیٹر کی ریلوے لائن ML-I منصوبہ کا حصہ ہے۔
سندھ اسمبلی کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ سے ڈرگ روڈ تک کی ریلوے لائن کے ٹکڑے کو ML-I منصوبہ میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ ریلوے لائن کے اس ٹکڑے کو کے سی آر کے منصوبہ سے منسلک کیا جائے اور ML-I منصوبہ کے لیے ایک اور علیحدہ ٹریک تعمیرکیا جائے۔
جب 2016 میں پاکستان اور چین نے سی پیک منصوبہ پر اتفاق رائے کیا تھا تو یہ خوش خبری سنائی گئی تھی کہ کے سی آر منصوبے کی بحالی سی پیک میں شامل ہے، مگر لاہور میں اورنج ٹرین منصوبہ کی تعمیر شروع ہوگئی مگر کے سی آرکا منصوبہ محض اخبارات کے صفحات تک محدود رہا۔
سندھ اسمبلی کی قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کو متعدد خطوط تحریرکیے مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ 2018 میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ چین کے دورے پرگئے تو واپسی پر انھوں نے کراچی کے شہریوں کو بری خبر سنائی کہ چین کے سی آر منصوبہ میں دلچسپی نہیں رکھتا مگر وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ خبریں شایع ہوئیں کہ کے سی آر کو سی پیک میں شامل کرلیا گیا ہے مگر پھر کہا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی پشاور ریلوے لائن منصوبہ کو کے سی آر کی بحالی پرفوقیت دے رہی ہے اور اس منصوبہ کے لیے کے سی آر کی ریلوے لائن استعمال ہوگی۔
کراچی سرکلر ریلوے 60 کی دہائی میں شروع ہوئی۔ 70 اور 80 کی دہائی میں کے سی آر کراچی شہریوں کے لیے سستے اور وقت پر پہنچنے والے سفرکا سستا ترین ذریعہ تھی، مگر 80 کی دہائی کے آخری عشرے میں سرکلر ریلوے زوال پذیر ہونا شروع ہوئی اور 90 میں یہ مکمل طور پر بند ہوگئی۔ کراچی کے عوام ایک سستے ٹرانسپورٹ کے نظام سے محروم ہوگئے۔
اس دوران برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے سرکلر ریلوے کی خرابیوں پرکوئی توجہ نہیں دی۔ اس صدی کے آغاز پر جاپان کی کمپنی جائیکا نے سرکلر ریلوے کی بحالی میں دلچسپی کا اظہارکیا اور جائیکا کا ایک وفد کراچی آیا۔ یہ وفد تکنیکی ماہرین پر مشتمل تھا۔ جب ماہرین ریلوے ٹریک کا معائنہ کرنا چاہتے تھے تو حکومت سندھ نے سیکیورٹی کے نام پر ماہرین کو ریلوے لائن کے معائنہ کی اجازت نہیں دی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ 2012میں جاپان کی ترقیاتی ایجنسی جائیکا نے فیصلہ کیا کہ وہ اس منصوبے کی بحالی میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے، یوں سندھ کی حکومت نے کے سی آر کے لیے خط وکتابت شروع کی۔
کراچی جنرل ضیاء الحق کے دور سے انتشار اور بدامنی کا شکار رہا۔ 1982 کے بعد لسانی فسادات نے کراچی شہر کو لپیٹ میں لے لیا، مختلف وجوہات کی بناء پر ٹارگٹ کلنگ عروج پر پہنچ گئی۔ شہر سے بوری بند لاشوں کے ملنے کا سلسلہ شروع ہوا اور سرکاری املاک پر قبضے کے سلسلہ کا آغاز ہوا۔ لینڈ مافیا نے کراچی سرکلرریلوے کی زمینوں سمیت سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔
کئی بلڈرز نے ریلوے کی زمین پر ہاؤسنگ پروجیکٹ شروع کیے۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے ان پروجیکٹس کو این او سی جاری کیے۔ کے ڈی اے نے الاٹ منٹ لیٹر دیے۔ کے ای ایس سی اور سوئی گیس کمپنی نے بجلی اورگیس کے کنکشن دیے۔ پی ٹی سی ایل کے ٹیلی فون لگ گئے۔ ریلوے لائن اور ریلوے اسٹیشن کی زمینوں پر تھانے، اسکول اور بلدیاتی اداروں کے دفاتر تعمیر ہونے لگے۔ اوور ہیڈ برج بھی تعمیر ہوگئے، پلاٹوں کی چائنا کٹنگ شروع ہوئی تو ان زمینوں پر 60 اور 80 گزکے پلاٹ بن گئے، یوں دکانیں کھلیں اور بازار بن گئے۔ اس عرصے میں مختلف حکومتیں برسر اقتدار آئیں مگر کسی حکومت نے ریلوے کی زمینوں کو بازیاب کرانے کی کوشش نہیں کی، یوں سمجھ لیں کہ اعلیٰ سطح پر طے کرلیا گیا کہ کراچی شہر کو سرکلر ریلوے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس دوران کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام تباہ ہونے لگا۔
سرکاری شعبے میں چلنے والی بڑی بسیں بند ہوگئیں۔ لوٹ مار اور آتش زنی کے مسلسل واقعات، بھتے کو سرکاری تحفظ ملنے کی بناء پر ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے وابستہ سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری بند کر دی۔ اب نجی شعبے کو پبلک ٹرانسپورٹ میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ یہی وجہ تھی کہ نئی کراچی سے کیماڑی تک چلنے والی ایف 11 منی بسیں جو علی الصبح سے رات کے آخری پہر تک چلتی تھیں اس روٹ سے غائب ہونے لگیں۔ یہ صورتحال پوری شہر میں ہوئی۔ پہلے ناظم نعمت اﷲ خان نے نجی شعبے کی مدد سے آرام دہ اور معیاری بسیں چلائیں۔ مضافاتی علاقوں تک جانے والی میٹرو بسیں چلنے لگیں۔ ان بسوں میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سیٹ بائی سیٹ سفر کرتے تھے۔ مگر چھ ماہ بعد سڑکوں پر چلنے والی رونق ختم ہوگئی۔ عام آدمی کے لیے موٹر سائیکل اور چنگ چی رکشہ پر سفرکے علاوہ کچھ نہ بچا۔
جب کراچی میں سی این جی کی بندش ہوتی ہے تو بس اور منی بس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ خواتین، بچے اوربوڑھے رات گئے تک بس اسٹاپوں پر نظر آتے ہیں۔ ہر منی بس کی چھت پر مسافر لدے ہوتے ہیں یا میاں بیوی تین چار بچوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر سفرکرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس گلزار احمد نے پبلک ٹرانسپورٹ کی زبوں حالی کو محسوس کرتے ہوئے، اس سال کے اوائل میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے تجاوزات کے خاتمے کا آپریشن شروع کیا جائے اور چھ ہفتے میں اس آپریشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر صوبائی حکومت نے تجاوزات کے خاتمے کا آپریشن شروع کیا۔ وفاقی حکومت نے اس آپریشن میں مکمل تعاون کیا۔ پاکستان ریلوے کے افسر بلدیہ کراچی کے عملے کے ساتھ آپریشن میں شریک رہے۔ یوں رمضان المبارک کے باوجود یہ آپریشن مقررہ وقت پر مکمل ہوا۔ جو کام 20 سال سے نہ ہوا تھا وہ چھ ہفتوں میں ہوا مگر اس آپریشن کے مکمل ہونے پر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے حکم سنایا کہ سرکلر ریلوے چلانے کی ذمے داری صوبائی حکومت کی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت کے پاس تو ریلوے کا شعبہ ہی نہیں ہے، یوں تجاوزات کے خاتمے کے باوجود یہ معاملہ ہنوز التواء کا شکار رہا۔
اس دوران ذرایع ابلاغ میں یہ خبریں شایع ہونے لگیں کہ ریلوے کی زمینوں پر دوبارہ تجاوزات قائم ہو رہی ہیں۔ اس خبر نے مزید مایوسی بڑھا دی کہ وفاقی حکومت کو کے سی آر کے کے لیے چین سے قرضہ دلانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سی پیک معاہدے کے تحت وفاقی حکومت کو اس قرضے کی گارنٹی دینی ہے۔ قرض کی ادائیگی کی ذمے داری مکمل طور پر سندھ حکومت کی ہے۔ اب سیکریٹری ریلوے سکندر سلطان راجہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں کہا ہے کہ سندھ حکومت سرکلر ریلوے منصوبے کو اب جاپان کی ترقیاتی ایجنسی جائیکا کے ساتھ شروع کرنے پر غورکر رہی ہے کیونکہ جائیکا کی کی شرائط چین کی شرائط کے مقابلے میں بہتر ہیں۔
کراچی کے عوام وزیر اعظم عمران خان کے چین کے دورے سے اسی طرح مایوس ہوئے ہیں جس طرح وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور صدر آصف زرداری کے دوروں کے نتائج سے مایوس ہوئے تھے۔ وفاقی حکومت کراچی کے مسائل کے حل کا دعویٰ کرتی ہے، اس دعویٰ کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے کے سی آرکی بحالی کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔