گزشتہ سے پیوستہ سال کے آخری مہینے میں ایک نامعلوم وائرس نے چین کے شہر ووہان پر حملہ کیا، یوں سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔ یہ وائرس انسانوں کے ذریعہ پوری دنیا میں پھیل گیا، پہلے اٹلی اور اسپین پھر امریکا اور برطانیہ اس وائرس سے متاثر ہوئے۔ یہ وائرس ایران، برطانیہ اور دیگر ممالک سے آنے والے مسافروں کے ذریعہ پاکستان میں داخل ہوا۔
یوں گزشتہ سال کے پہلے 6 مہینے اس وائرس سے لڑتے ہوئے گزرے۔ ملک میں پہلی دفعہ مکمل لاک ڈاؤن ہوا، کئی ماہ تک ریل، بس، جہاز سب بند رہے۔ تمام کاروبار زندگی معطل رہا۔ حکومت نے SOPs نافذ کیے، یوں مساجد میں نمازیوں کو محدود کیا گیا۔ بازاروں میں صرف کھانے پینے اور ادویات کی دکانیں کھلی رہیں۔
اس وائرس سے متاثرہ افراد کے لیے اسپتالوں میں بسترکم پڑ گئے۔ حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر وینٹی لیٹر درآمد کیے، پھر ملک میں ہی وینٹی لیٹر تیارہونے لگے۔ پاکستان میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ وائرس کمزور پڑگیا۔ یہ وائرس COVID-19 کہلایا۔ پاکستان میں اب تک 5لاکھ افراد کورونا سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 11ہزار اپنی زندگی کی جنگ ہار گئے۔
دنیا بھر میں اس وائرس پر قابو پانے کے لیے ویکسین کی تیاری شروع ہوئی۔ چین، برطانیہ، امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں ویکسین کی تیاری زوروں پر ہوئی۔ امریکا اور چین سے یہ خبریں آنے لگیں کہ گزشتہ سال کے آخری مہینوں میں ویکسین دستیاب ہوگی۔ چین کی ایک کمپنی نے اسلام آباد اورکراچی کے منتخب اسپتالوں میں اس ویکسین کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے میڈیکل ٹرائل شروع کیے۔
ملک میں کورونا وائرس کی روک تھام اور فیصلہ سازی کے لیے اسلام آباد میں سینٹرل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم ہوا۔ گزشتہ سال کے پہلے تین ماہ وفاقی حکومت اور حکومت سندھ کے فیصلوں میں تضاد پیدا ہوا مگر پھر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سینٹرل کمانڈ سینٹرکے فیصلوں کی پابندی کریں گے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر جو کمانڈ سینٹر میں وزیر اعظم کی نمائندگی کرتے ہیں مسلسل یہ اعلان کرنے لگے کہ پاکستان کورونا وائرس کے بچاؤ کے لیے چین سے ویکسین کی درآمد پر بات چیت کررہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ نئے سال کے آغاز پر یہ ویکسین دستیاب ہوگی۔ نیا سال شروع ہوا تو امریکا اور برطانیہ نے ویکسین لگانے کے طریقہ کار کے اعلانات کیے۔ ان ممالک نے فیصلہ کیا کہ پہلے مرحلے میں ڈاکٹروں، نرسوں، پیرامیڈیکل اسٹاف اور 80 سال یا اس سے زائدکی عمر کے افراد کو ویکسین لگائی جائے۔ اس مہینہ کے آغاز پر امریکا، یورپ اور چین میں یہ ویکسین لگنا شروع ہوئی۔
گزشتہ ہفتہ دہلی کے ایک اسپتال میں ایک خاکروب کو ویکسین لگا کر بھارت میں ویکسین لگانے کے کام کا آغاز ہوا۔ بھارت حکومت کا کہنا ہے کہ ہر ہفتہ ہزاروں افراد کو ویکسین لگائی جائے گی۔ دستیاب اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیارکردہ Astra Zeneca ویکسین اب بھارت کے Serum Institute میں تیار ہوئی ہے، یہ ویکسین نسبتاً سستی ہے۔ بھارت اپنی ضروریات کے بعد پڑوس ممالک نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش کو یہ ویکسین فراہم کرے گا۔ ان ممالک نے اس ویکسین کی تیاری کے لیے بھارت کو پیشگی رقم ادا کردی ہے۔
پاکستان میں ادویات کی رجسٹریشن کے ادارہ DRAPکے حوالہ سے یہ خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنی تھیں کہ چین کی ادویات بنانے والی سرکاری کمپنی Sinopharm کی تیار کردہ ویکسین کی منظوری دی گئی۔ حکومت نے تخمینہ لگایا تھا کہ اس سال چینی ویکسین کے 1 ملین (دس لاکھ) ڈوز دستیاب ہوں گے۔
اب یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ ادویات کی کنٹرول کے اس ادارہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیارہ کردہ ویکسین Astra Zenecaکی منظوری دی ہے۔ سندھ میڈیکل اسٹور کے ترجمان عثمان غنی کا تخمینہ ہے کہ اس ویکسین پر لاگت 6 سے 7 ڈالر آئے گی مگر عثمان غنی قطعی طور پر یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کے عوام کو یہ ویکسین کب ملے گی مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت میں اس ویکسین پر کم لاگت آئی ہے۔
وزیر اعظم کے صحت کے مشیر ڈاکٹر فیصل سلطان نے اس مہینہ کے وسط میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ابھی تک ویکسین کی فراہمی کے لیے کسی ملک سے معاہدہ حتمی شکل اختیار نہیں کرپایا ہے۔ اب ڈاکٹر فیصل سلطان کہتے ہیں کہ حکومت نے اس ضمن میں چین اور برطانوی ہائی کمشنر سے مذاکرات کیے ہیں۔
وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ انھیں مارچ کے اختتام تک ویکسین کے 10 لاکھ ڈوز ملک میں دستیاب ہونگے۔ ڈاکٹر سلطان نے مزید کہا کہ ملک بھر میں 17 ہزار رضاکاروں کو چین کی تیار کردہ ویکسین لگائی گئی ہے۔ بھارت کے Serum Institute سے تعلقات خوشگوار ہیں، یوں امید کی جاسکتی ہے کہ بھارت کا یہ ادویات کی تیاری کا انسٹی ٹیوٹ پاکستان کے ساتھ بہتر سلوک کرے گا۔ جب وفاقی حکومت نے ویکسین کی خریداری اور ملک میں دستیاب ہونے کے بارے میں متضاد مؤقف اختیارکیا۔
حکومت سندھ نے یہ اعلان کیا کہ وہ ویکسین درآمد کرنے کو تیار ہے تو وزیر اعظم کے صحت کے مشیر ڈاکٹر فیصل سلطان نے صحافیوں کو بتایا کہ وفاقی حکومت کو حکومت سندھ کی جانب سے کورونا ویکسین درآمد پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بھارت سے تمام قسم کے تجارتی روابط پر پابندی ہے۔ ادویات کی تیاری کا خام مال بھارت سے درآمد ہوتا تھا۔
بھارت کی ادویات وافر مقدار میں آتی تھیں۔ بھارت سے درآمد ہونے والے ادویات کی تیاری کے خام مال پر پابندی کے بعد ملک میں ادویات کی صنعت ایک نئے بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ اب دیگر ممالک سے انتہائی مہنگے داموں پر خام مال دستیاب ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان نے اپنے فیصلہ پر نظرثانی کی اور جان بچانے والی ادویات اور ادویات کی تیاری کے خام مال کی درآمد کی اجازت دیدی، یوں کچھ صورتحال بہتر ہوئی۔
سندھ میں کتوں کے کاٹنے سے اموات اور اپاہج ہونے کی شرح خطرناک حد تک بڑھی ہوئی ہے۔ کتے کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین بھارت سے درآمد ہوتی تھی۔ اس ویکسین کی ملک بھر میں شدید قلت ہے۔ بھارت سے اسمگل ہوکر یہ ادویات مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہیں جو خاصی مہنگی ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت اچھی طرز حکومت سے محروم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کورونا کی ویکسین دستیاب نہیں اور نہ ہی اس ویکسین کی ملک میں تیاری کے دور تک کوئی امکانات ہیں۔ یہ وقت ہے کہ جذبات اور سستی شہرت کے کلچر سے نجات حاصل کی جائے۔ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا آغاز کیا جائے۔ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا آغاز طبی شعبہ سے ہونا چاہیے۔ بھارت سے کتابوں اور ادویات کی درآمد پر تمام پابندیاں ختم ہونی چاہیئیں۔ مہلک امراض، کینسر، گردے اور جگر کے امراض اور امراض قلب وغیرہ کا جدید ترین علاج بھارت میں دستیاب ہے۔
یہ علاج سستا اور معیاری ہے۔ پاکستان سے جانے والے مریض بھارت میں کھانے پینے اور بات چیت میں تنہائی محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اس بناء پر بھارت جانے والے مریضوں کو سرحد پر ویزا دینے کی پالیسی پر غور ہونا چاہیے۔
حکومت پاکستان کو کورونا ویکسین کی درآمد کے لیے بھارت سے بات چیت کا آغازکرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فروری کے مہینہ میں یہ ویکسین دستیاب ہو۔ حکومت کا اس ویکسین کو مفت میں فراہم کرنے کا فیصلہ قابلِ ستائش ہے مگر یہ اعلان ویکسین کی دستیابی تک بے معنی ہے۔ اس دفعہ عوام کی صحت کی خاطر بھارت سے تعلقات کو معلوم پر لانے کا عمل شروع ہونا چاہیے تاکہ ویکسین اگلے ماہ تک دستیاب ہو اور ملک میں کورونا کے مرض پر قابو پایا جاسکے۔