سندھ میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ اندرون سندھ ڈاکوؤں کا راج ہے۔ پولیس آپریشن کرتی ہے مگر اس آپریشن میں پولیس والے مارے جارہے ہیں۔ ڈاکو پولیس کی بکتربند گاڑی کو ناکارہ بنا کر اپنے جشن کے مناظر سوشل میڈیا پر وائرل کر رہے ہیں۔ اندرون سندھ ڈاکوؤں کی وارداتوں کی خبر وزیر اعظم عمران خان تک پہنچ گئی۔
انھوں نے وزیر داخلہ شیخ رشید کو کراچی بھیجنے کی ہدایت کی۔ اسلام آباد میں یہ خبر گشت کرنے لگی کہ وفاقی حکومت امن و امان کے نام پر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمہ اور گورنر راج کے نفاذ کی سازش کر رہی ہے۔
یہ افواہ اس بناء پر بھی معروضی خبر کے زمرے میں آگئی کہ تحریک انصاف سندھ کے رہنما اور صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والے اراکین اسمبلی دو برسوں سے یہ مطالبہ کررہے ہیں۔ بہرحال شیخ رشید کراچی آئے اور انھوں نے سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی افواہوں کی تردید کی اور اعلان فرمایا کہ وفاقی حکومت ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے لیے مدد کو تیار ہے۔ وزیر اعلیٰ مرد علی شاہ نے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ چاہیں تو شکارپور کے کچے کے علاقہ کا دورہ کرسکتے ہیں۔
اپر سندھ اور جنوبی پنجاب میں ڈاکو راج کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ سندھ میں لاڑکانہ، کشمور، جیکب آباد، کندھ کوٹ، شکارپور، سکھر، گھوٹکی اور جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان اور بہاولپور سے متصل کچے کے علاقہ میں ڈاکوؤں کی کمین گاہیں ہمیشہ سے پائی جاتی ہیں۔ جنوبی پنجاب سندھ کے بالائی علاقوں میں سرداری نظام کی جڑیں خاصی گہری ہیں۔ سردار ہمیشہ سے ڈاکوؤں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ سرداروں کی سرپرستی حکومتی اور ریاستی ادارے کرتے ہیں۔
یوں ڈاکوؤں کا خاتمہ گزشتہ 70 برسوں میں نہیں ہوسکا۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرپرسن ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے ایک متنازعہ عدالتی فیصلہ کے ذریعہ پھانسی دی جس کے خلاف سندھ کے اندرونی علاقوں میں سخت ردعمل ہوا۔ پھر پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ نصرت بھٹو نے مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) قائم کی۔ تحریک بحالی جمہوریت نے 1973کے آئین کی بحالی، عام انتخابات اور مارشل لاء کے خاتمہ کے لیے احتجاجی تحریک شروع کی۔
اس وقت بیگم نصرت بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو مختلف جیلوں اور 70کلفٹن میں نظربند تھیں۔ غلام مصطفی جتوئی ایم آر ڈی کی قیادت کررہے تھے۔ بائیں بازو کی تنظیمیں کمیونسٹ پارٹی، عوامی تحریک، ہاری تحریک اور مزدور انجمنوں نے اس تحریک کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پھر سندھ میں تاریخ میں پہلی دفعہ ایک منظم مزاحمتی تحریک چلی۔
اس تحریک میں عام کارکنوں کے علاوہ وڈیروں، سرداروں اور بڑے زمینداروں نے بھرپور حصہ لیا۔ پیر آف رانی پور، پیر آف گھمبٹ، پیر آف ہالا، جتوئی، بھٹو، چانڈیو اور دیگر قبائل کے افراد نے سیاسی کارکنوں کے ہمراہ گرفتاریاں دیں۔
سندھ کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں لوگوں نے سڑکیں بند کیں۔ کراچی سے پشاور جانے والی قومی شاہراہ اور کراچی سے دادو، لاڑکانہ، کشمور جانے والی شاہراہ پر بھرپور احتجاج ہوا۔ یہ تحریک چھ ماہ تک چلی۔ پھر اچانک ڈاکو ابھر کر سامنے آنے لگے۔ بیڑو چانڈیو جیسا ڈاکو کافی لوگوں کا ہیرو بن گیا، اندرون سندھ سفر مشکل ہوا۔ اغواء برائے تاوان اور رقم کی بناء پر قتل کی وارداتیں بڑھ گئیں۔ یہ سب کچھ ضیاء الحق کے دور اقتدار میں ہوا۔ اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ ڈاکو جدید ترین اسلحہ سے لیس ہیں اور ڈاکو انتہائی تربیت یافتہ ہیں۔
اس زمانہ میں پولیس نے کچے کے علاقوں میں متعدد آپریشن کیے مگر ہر آپریشن ناکام ہوا۔ اندرون سندھ سے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے یہ رپورٹیں بھیجی کہ بعض قوتیں ان ڈاکوؤں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت 1988میں قائم ہوئی مگر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے اس دور میں ڈاکوؤں نے خوب تباہی مچائی۔ پھر وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں مسلح افواج، رینجرز اور پولیس نے مربوط آپریشن کیا اور بہت سے ڈاکو مارے گئے اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنے والے بعض سرداروں اور سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما یوسف جھکرانی حراست میں جاں بحق ہوئے۔ پھر اندرون سندھ خاصے عرصے صورتحال بہتر رہی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ڈاکوؤں کی سرگرمیاں بڑھتی رہیں۔ پختون خواہ کے موجودہ آئی جی ثناء اﷲ عباسی جو 2002-2003میں لاڑکانہ ڈویژن میں تعینات تھے انھوں نے ڈاکوؤں کی سرگرمیوں کے بارے میں مفصل رپورٹ تیار کی تھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس وقت کی سندھ حکومت میں شامل وزراء ڈاکوؤں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ مگر سیاسی مصلحتوں کی بناء پر اس رپورٹ پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پھر 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی مگر ڈاکوؤں کی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے۔ پھر سابق صدر آصف علی زرداری نے ڈاکٹر امام کو آئی جی مقرر کیا۔ ان کی شہرت ایک اچھے پولیس افسر کی رہی ہے۔ انھوں نے ایک قابل افسر ڈاکٹر رضوان کو شکارپور کا ایس پی مقرر کیا۔ ڈاکٹر رضوان نے ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنے والے صوبائی وزراء اور منتخب اراکین اسمبلی کی فہرست جاری کی۔
ان افراد پر ڈاکوؤں کی سرپرستی اور مخالفین کو قتل کرانے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے مگر وزراء نے الزامات کی جارحانہ انداز میں تردید کی اور ان افسروں پر الزامات لگائے مگر سندھ اسمبلی نے اس رپورٹ پر بحث نہیں کی۔ شکارپور کے کچے کے علاقے میں گزشتہ ایک ہفتہ سے ہونے والے واقعات اور پولیس کے ناقص آپریشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر رضوان کی رپورٹ حقائق سے بھرپور تھی۔ اطلاعات یہ ہیں کہ سندھ پولیس کا یہ سب سے بڑا ناقص آپریشن تھا۔ اس میں زیادہ نقصان پولیس والوں کی اموات کی صورت میں ہوا۔
حکومت کو مجبوراً لاڑکانہ شکارپور پولیس رینج کی پوری کمانڈ کو تبدیل کرنا پڑا۔ یہ آپریشن سندھ کے اضلاع کے علاوہ ڈیرہ غازی خان کے کچے کے علاقہ میں بھی ہورہا ہے۔ اگر اس آپریشن میں تمام ایجنسیاں ایک پیج پر رہیں تو فوری طور پر ڈاکوؤں کا خاصا نقصان ہوگا مگر سندھ اور جنوبی پنجاب کے وہ سردار اور منتخب اراکین جو حکومتوں میں شامل ہیں اور ڈاکوؤں کے کاروبار میں ملوث ہیں اگر ان کی سرکوبی نہیں کی گئی۔
چھ سال ایک ماہ سکون رہے گا اور پھر نئے ڈاکو پیدا ہونگے اور وہ پہلے کی طرح طاقت ور ہوجائیں گے۔ وفاقی حکومت اور سندھ کی حکومت نے کورونا کے خاتمہ کے لیے ویکسین لگانے کے پورے پروسیجر میں جس طرح تعاون کیا ہے اگر اپر سندھ اور جنوبی پنجاب سے ڈاکو کلچر کے خاتمہ کے لیے دونوں حکومتیں اسی طرح تعاون کریں تو یہ پورا خطہ ترقی کی دوڑ میں شامل ہوجائے گا جس کا مجموعی فائدہ اس ملک کے غریب عوام کو ہوگا۔