Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ehtijaj Ka Haq?

Ehtijaj Ka Haq?

جمعیت علماء اسلام نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرداں غیر ریاستی تنظیم انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (H.R.C.P) کو ایک خط کے ذریعے شکایت کی ہے کہ حکومت نے اس جماعت کے بنیادی حقوق سلب کر لیے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کا آزادی مارچ سکھر سے شروع ہوکر کل اس صورت میں اسلام آباد پہنچے گا کہ اگر پنجاب کی حکومت اس کی اجازت دے گی۔

اگرچہ اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ نے جمعیت کے قائد مولانا فضل الرحمن اور آزادی مارچ روکنے کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے اور ان عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں کہا ہے کہ آزادی مارچ کے شرکاء قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت قوائد و ضوابط کی پابندی کرتے ہیں تو ان کے احتجاج کے بنیادی حق کو غصب نہیں کیا جاسکتا مگر خوش آئند خبر یہ تھی کہ اسلام آباد کی انتظامیہ اور جے یو آئی میں معاہدہ طے ہوا ہے۔ امید ہے کہ فریقین اسلام آباد معاہدے کی پاسداری کریں گے۔

یہ ملک کی واحد سیاسی سرگرمی ہے، جس میں خواتین کو شامل نہیں کیا گیا۔ وفاقی حکومت نے آزادی مارچ کو منظم کرنے والی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی لگا دی ہے۔ اسلام آباد کے تمام ٹینٹ فراہم کرنے والے دکانوں کے مالکان کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ آزادی مارچ کے لیے کسی کو کسی قسم کا ٹینٹ یا فرنیچر وغیرہ فراہم نہیں کریں گے۔ اسی طرح لاؤڈ اسپیکر فراہم کرنے والے بھی پولیس کی نگرانی میں ہیں۔

یہی ہدایات کھانے فراہم کرنے والے افراد کو دی گئی ہیں۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اگر آزادی مارچ کے شرکاء نے بقول حکومت کے قواعد و ضوابط کی پابندی کی اور ہتھیار لے کر نہیں آئے اور اشتعال انگریز تقاریر نہ کیں تو حکومت مارچ کوروکنے کی کوشش نہیں کرے گی، مگر اسلام آباد کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کو کنٹینرز سے بند کیا جا رہا ہے۔

حکومت نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیوں کو 30کروڑکے قریب رقم فراہم کی ہے تاکہ صورتحال کو قابوکرنے میں متعلقہ اداروں کو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انسانی حقوق کے سیکریٹری جنرل حارث خلیق نے Reclaming Pakistan Civil Space کے موضوع پر منعقد ہونے والی مجلس میں کہا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی اسی طرح کی شکایات کی ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے اور آزادی مارچ کے شرکاء وزیر اعظم کے استعفیٰ کے بغیر اسلام آباد سے نہیں جائیں گے، اگر انھیں گرفتار کیا گیا تو وہ جیل سے اس تحریک کی قیادت کریں گے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت جعلی انتخابات کے ذریعے وجود میں آئی ہے اور یہ مکمل طور پر ناکا م ہوچکی ہے۔ ملک کے تمام ادارے زوال پذیر ہیں۔

ملک کو بچانے کے لیے حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔ مولانا فضل الرحمن تو اپنی تقاریر میں حکومت کے خاتمے کی سیاسی وجوہات بیان کرتے ہیں مگر جمعیت علماء اسلام کے باقی رہنما عمران خان حکومت کے خاتمے کی مذہبی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی مولانا فضل الرحمن کی اس حکمت عملی کی حمایت کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے پہلے آزادی مارچ کی حمایت نہیں کی تھی مگر پھر موسم تبدیل ہونے اور اپنے والد کی ہدایت پر وہ اس مارچ کی حمایت پر مجبور ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک تقریر میں واضح کیا کہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ کسی طور پر استعفیٰ نہیں دیں گے۔

جب مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور دھرنے کا ذکر ہوتا ہے تو ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کا چار ماہ تک جاری رہنے والا دھرنا یاد آجاتا ہے۔ اس کے بعد لبیک تحریک کے دھرنے کا ذکر ہونے لگتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے دو دفعہ اسلام آباد پر دھاوا بولا۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسلام آباد کے ڈی چوک کی سخت سردی میں ہزاروں کارکنوں کے ساتھ دھرنا دیا تھا۔

وہ الیکشن کمیشن کو غیر قانونی قرار اور حکومت کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری، عمران خان نے اسلام آباد میں چار ماہ تک دھرنا دیا۔ اس طرح تحریک لبیک والے اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ پر ایک ہفتے سے زائد تک بیٹھے رہے مگر اس وقت کی برسر اقتدار حکومتوں نے ان دھرنوں کے شرکاء کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا، مہینوں عمران خان کے دھرنے کے شرکاء کی کھانے پینے کی ضرورت کا خیال رکھا گیا اور یہی صورتحال ڈاکٹر طاہر القادری اور مولانا خادم حسین رضوی کے دھرنوں میں ہوئی۔ یوں لوگ آزادی سے ان دھرنوں میں شرکت کرتے رہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ان تینوں دھرنوں کے پیچھے جو قوتیں ہیں ان کے مقاصد تو حاصل ہوئے مگر نہ تو ڈاکٹر طاہر القادری، عمران خان اور مولانا خادم حسین رضوی اپنا کوئی مقصد حاصل کرسکے۔

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شہری آزادیوں پر قدغن لگا دی تھی، دائیں اور بائیں بازو کی قوتیں زیر عتاب تھیں۔ جب 1977 میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو مخالف جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد (P.N.A) بنایا۔ اس اتحاد میں جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، جماعت اسلامی کے علاوہ تحریک استقلال اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سمیت دیگر جماعتیں شامل تھیں۔ پی این اے کی بنیادی دستاویز بنیادی حقوق کے تحفظ، بلوچستان میں فوجی آپریشن کے خاتمے، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی جیسے اہم نکات پر مشتمل تھی۔ سیکیولر جماعتوں تحریک استقلال اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کو پی این اے میں شرکت کا جواز مل گیا تھا۔

پی این اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود اور جے یو پی کے رفیق باجوہ سیکریٹری جنرل تھے، پھر جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ مگر جب پی این اے نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک شروع کی تو اس تحریک نے مذہبی رنگ اختیار کر لیا۔ نظام مصطفی اور "گنجے کے سر پر ہل چلے گا " کا بنیادی نعرہ بن گئے۔

پی این اے کی تحریک نے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھارا اور ملک کو اسلامی ریاست بنانے کے خواب دکھائے، مگر اس تحریک کا انجام جنرل ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالنے پر ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے پی این اے کی تحریک کو استعما ل کیا اور اسلامی نظام کے نام پر 10 سال حکومت کی اور تمام ادارے تباہ ہوگئے۔

سینئر صحافی امتیاز عالم نے جو مولانا فضل الرحمن کے اسیری کے زمانے کے دوستوں میں سے ہیں اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ تحریک پی این اے جیسا رخ نہ اختیار کر لے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر کا مؤقف ہے کہ ہمیں کسی ایک پارٹی کے لیے جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے اور آزادی مارچ میں حصہ لینا چاہیے مگر معاملہ صرف کسی پارٹی کے لیے جگہ چھوڑنے کا نہیں ہے بلکہ مجموعی بیانیہ کا ہے۔ عمران خان اگر پانچ سال پورے کرلیں تو ملک کا اتنا نقصان نہیں ہوگا جتنا جنونی نظریات کی بالادستی سے ہوگا۔

بد قسمتی کی بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان یہ نہیں کہہ رہے کہ پارلیمنٹ ان کے ساتھ ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے، یوں وہ افہام وتفہیم کی طرف نہیں جارہے ہیں۔ شیخ رشید بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ 9 نومبر تک سب سامنے آجائے گا تو اس سے کچھ اور ہی حقیقت بیان ہو رہی ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ کسی مخالف رہنما کی شہریت کی منسوخی اور گرفتاریوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا، بنیادی مسائل کے حل کی ضرورت ہے۔ آزادی مارچ کے شرکاء کا احتجاج کا حق ہے مگر جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کو ایک دفعہ پھر حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔