سویلین بالادستی، آئین کی پاسداری، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار فخر الدین جی ابراہیم دنیا سے رخصت ہوگئے، انھوں نے 92 سال کی عمر پائی۔ ساری زندگی اپنے اصولوں کی پاسداری کی۔
انھیں فخرو بھائی بھی کہا جاتا تھا، متحدہ ہندوستان کی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں 1920میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ودھیا پتھ( Vidyapith)میں حاصل کی، یہ درسگاہ مہاتما گاندھی نے قائم کی تھی۔ انھوں نے 1949میں قانون میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
انھوں نے قانون کے مضمون کے علاوہ فلسفہ کے مضمون میں گہری دلچسپی لی۔ 1950میں پاکستان آگئے اور ایس ایم لاء کالج سے ایل ایل ایم کی سند حاصل کی۔ انھوں نے ایک قوم پرستی کا پرچار کرنے والی درسگاہ میں تعلیم حاصل کی تھی جس کی بناء پر وہ ترقی پسند اور سیکولر نظریات سے متاثر ہوئے۔ جب انھوں نے کراچی میں قانون کی پریکٹس شروع کی۔ یہ وہ وقت تھا جب خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم تھے، ملک بغیر آئین کے تھا، پاکستان امریکا کا اتحادی بن چکا تھا۔ ملک ویلفیئر اسٹیٹ کے بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ کی شکل اختیار کررہا تھا۔ بنیادی شہری آزادیوں پر قدغن لگادی گئی تھی۔
ممتاز صحافی زیڈ اے سلہری کراچی سے ایک اخبار ٹائمز آف کراچی شایع کرتے تھے۔ ٹائمز آف کراچی میں ایک کارٹون شایع ہوا جس میں حکومت کی پالیسیوں کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ کراچی میں قائم مرکزی حکومت نے اخبارکے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری کو گرفتارکیا۔ زیڈ اے سلہری نے فخر الدین کو اپنا وکیل مقررکیا، مقدمہ کی تیاری کے لیے کراچی سینٹرل جیل جاتے تاکہ زیڈ اے سلہری سے ہدایات حاصل کرسکیں۔ ایک دن سینٹرل جیل گئے تو ایک توانا خوش مزاج شخص نے ان سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کرایا کہ ان کا نام حسن ناصر ہے اور تعلق کمیونسٹ پارٹی سے ہے۔ حسن ناصر نے ان سے استدعا کی کہ جیل میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے طالب علم نظر بند ہیں۔
کراچی کے کمشنر اے ٹی نقوی کا آدمی آتا ہے اور نوجوان طلبہ سے کہتا ہے کہ وہ معافی مانگ لیں مگر یہ نوجوان انکار کردیتے ہیں اور یوں ان نوجوانوں کی نظربندی کی معیاد بڑھتی جارہی ہے۔ حسن ناصر نے اس نوجوان وکیل سے پوچھا کہ کیا وہ ان نوجوانوں کا مقدمہ لڑیں گے۔ انھوں نے ان نوجوانوں کا مقدمہ بغیر معاوضہ کے لڑنے کا اعلان کیا، یوں فخر الدین جی ابراہیم اور کمیونسٹ رہنما حسن ناصر کی دوستی شروع ہوئی۔
فخرو بھائی ترقی پسند تحریک کے ہمدرد بن گئے اور ساری زندگی ترقی پسندی اور سیکولر رویہ کو اپنا رویے کا حصہ بنالیا۔ انھوں نے ڈی ایس ایف کے ان رہنماؤں کو جن میں ایس آئی یو ٹی کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر سرور، منہاج برنا، احمد حسن، ایم حسن، ایم اے شکور، اقبال علوی، ایس ایم نسیم، ایرک رحیم، انیس ہاشمی، محمد اختر، ایم اے زبیر وغیرہ شامل تھے کی نظربندی کو سندھ چیف کورٹ میں جسٹس زیڈ ایچ لاری کی عدالت میں چیلنج کیا اور جسٹس لاری نے ان طلبہ کی نظربندی کو غیر قانونی قرار دیا۔ انھوں نے اس مقدمہ کے ساتھ ہی طلبہ مزدور کسانوں سیاسی کارکنوں کی دادرسی کے لیے عدالتوں میں مقدمات لڑنے کا سلسلہ شروع کیا۔
فخر الدین صاحب بتاتے ہیں کہ حسن ناصر جب اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے زیر زمین چلے گئے تو وہ اچانک ان کے گھر آجاتے تھے اور دونوں میں خوب بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ حسن ناصر طویل نظربندی کے بعد رہا ہوئے تو حیدرآباد دکن سے ان کی والدہ انھیں بھارت لے جانے کے لیے کراچی آگئیں۔ حسن ناصر کی والدہ فخر الدین سے ملنے آئیں اور استدعا کی کہ وہ حسن ناصر کو بھارت جانے پر تیار کریں، یوں حسن ناصر بھارت چلے گئے۔ فخر الدین اپنی یاد داشتوں کو بیان کرتے ہوئے رنجیدہ ہوجاتے تھے کہ انھیں کچھ مہینوں بعد پتہ چلا کہ حسن ناصر واپس کراچی آگئے ہیں اور انھوں نے زیر زمین سرگرمیاں دوبارہ تیزکر دی ہیں۔ ایوب خان کی آمریت قائم ہوئی۔ حسن ناصر کو گرفتار کر کے ان پر بدترین تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ جان کی بازی ہار گئے۔ جب بھی ترقی پسند تنظیمیں 13نومبر کو حسن ناصر کی یاد میں کسی جلسے کا انعقاد کرتیں تو فخر الدین جی ابراہیم اس جلسہ میں ضرور شرکت کرتے تھے۔
فخر الدین جی ابراہیم سندھ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور مختصر عرصہ کے لیے چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات رہے۔ یہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا پہلا دور تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بنیادی انسانی حقوق معطل کردیے تھے۔ اخبارات میں پابندیاں عائد تھیں۔ بھٹو حکومت میں دائیں اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمات قائم ہوئے۔ بہت سے کارکنوں اور رہنماؤں کو بغیر مقدمہ چلائے نظربند رکھا جاتا تھا۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی عدالت میں جب بھی کسی بھی جماعت کے کارکنوں کی نظربندی کے خلاف مقدمات پیش ہوئے۔ جج صاحب کی یہ کوشش ہوتی کہ ان کارکنوں کو ضمانت مل جائے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما مسرور احسن، ایک اور رہنما اشفاق حسین توفیق کے ہمراہ کراچی سینٹرل جیل میں نظربند رہے۔ ان رہنماؤں نے بی کلاس کی درخواست دائر کی تو جج صاحب نے جیل حکام کو ہدایت کی کہ ان رہنماؤں کو بی کلاس دی جائے، پھرگریجویشن کا نتیجہ آنے پر ان کی ضمانتیں منظور کرلی گئیں۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو سپریم کورٹ کا جج بنادیا گیا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ جب لاہور ہائی کورٹ کے انتخابات کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کے مقدمہ کی سماعت میں تیزی پیدا کی۔ جنرل ضیاء الحق نے عبوری آئینی حکم (P.C.O)نافذ کردیا۔ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور الحق تھے۔
فخر الدین نے کئی دفعہ بتایا کہ چیف جسٹس نے تمام ججوں کوکمرے میں جمع کیا، میں سپریم کورٹ کا سب سے جونیئر جج تھا۔ چیف جسٹس نے مجھ سے پوچھا آپ عبوری آئینی حکم (P.C.O) پر حلف اٹھائیں گے۔ میں نے جواب دیا سر میں گھر جا رہا ہوں۔ پھر چیف جسٹس نے باقی ججوں سے ایک ایک کر کے پوچھا، سب نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا اعلان کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں ہی تنہا رہ گیا ہوں۔ فخر الدین کہتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے سینئر جج دوراب پٹیل کے کمرے میں گئے اور ان سے رائے معلوم کی تو دوراب پٹیل نے بھی کہا کہ وہ پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھائیں گے۔
فخر الدین کراچی آگئے۔ دوبارہ اپنی لاء فرم کو منظم کیا۔ جب بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم بنیں تو فخرالدین جی ابراہیم کو سندھ کا گورنر مقرر کیا گیا۔ فخرالدین گورنر بننے سے پہلے ایس ایم لاء کالج میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ انھوں نے اپنے گورنری کے دور میں اعزازی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ فخر الدین پہلے گورنر تھے جنھوں نے بحیثیت چانسلر سرکاری یونیورسٹیوں کے معاملات میں اپنا آئینی کردارادا کیا۔ انھوں نے کراچی اور سندھ یونیورسٹیوں کے سینیٹ کے اجلاسوں کی مسلسل صدارت کی۔ فخر الدین جی ابراہیم نے سینٹرل پولیس لائنز کمپنی (C.P.L.C) کا ادارہ قائم کیا۔
اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت کو برطرف کیا اور گورنر فخر الدین جی ابراہیم کو ہدایت کی گئی کہ وہ سند ھ اسمبلی کو توڑ دیں۔ بے نظیر بھٹو کی خواہش تھی کہ فخرو بھائی کچھ عرصہ کے لیے مزید گورنر کے فرائض انجام دیں مگر فخرو بھائی نے گورنر کے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور اقتدار میں فخر الدین کو اٹارنی جنرل مقرر کیا گیا۔
وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے سرحد اسمبلی کے منحرف اراکین کے خلاف مقدمہ کی پیروی کے لیے شریف الدین پیرزادہ کی خدمات حاصل کیں تو فخر الدین نے فوری طور پر استعفیٰ دیدیا۔ جب صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی تیسری حکومت کو برطرف کیا۔ ملک معراج خالد کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ فخر الدین کو وزیر قانون مقرر کیا گیا۔ فخر الدین نے جاننے کے حق کے تحفظ کے لیے جامع مسودہ تیار کیا۔ انھوں نے احتساب سے متعلق قانون کے مسودہ کو آخری شکل دی مگر جیسے ہی انھیں اندازہ ہوا کہ یہ حکومت انتخابات سے زیادہ احتساب پر زور ڈال رہی ہے تو وہ فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے۔
18ویں ترمیم میں خودمختار الیکشن کمیشن کا ذکر ہوا۔ انسانی حقوق کی رہنما عاصمہ جہانگیر نے فخر الدین کو چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالنے پر تیار کیا۔ سینئر وکیل عاقل لودھی کہتے ہیں کہ فخرو بھائی کا کہنا تھا کہ ملک کا مستقبل شفاف انتخابات میں مضمر ہے اسی بنا پر فخر الدین نے الیکشن کمیشن کے سربراہ کا عہدہ قبول کرلیا۔ انھوں نے 2018کے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے سخت محنت کی مگر ان انتخابات کو مشکوک کر دیا گیا۔ فخرالدین نے استعفیٰ دے دیا۔ فخرالدین جی ابراہیم کا انتقال ایسے وقت میں ہوا ہے جب پارلیمنٹ میں سول بالادستی کی تحریک ضعیف ہوئی ہے۔ ایسے وقت میں فخرو بھائی زیادہ یاد آرہے ہیں۔