برطانیہ کو مادرجمہوریت کا اعزاز حاصل ہے، برطانیہ کو یہ اعزاز عوام کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں ملا ہے، جس جدوجہد کے نتیجے میں پارلیمنٹ کو تمام اداروں پر بالادستی حاصل ہوئی۔ برطانیہ میں 13ویں صدی میں میگنا کارٹا معاہدہ ہوا۔
اس معاہدے کے تحت بادشاہ اورچرچ کو پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کرنا پڑی، یوں جمہوری اداروں کا ارتقا شروع ہوا مگر برطانیہ کے ایک ہیرو جنرل کرام ویل نے جمہوری اصولوں کو نظر اندازکرتے ہوئے پارلیمنٹ کو توڑا۔ اپنی مرضی کی پارلیمنٹ نامزدکی مگر کرام ویل کو مرنے کے بعد پھانسی کا مستحق قرار دیا گیا، اس کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دی گئی۔
کرام ویل 15اپریل1959ء کو پیدا ہوا، تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ برطانیہ کے بادشاہ ہنری viiiکی بہن سے کرامویل کے خاندان کا تعلق تھا۔ کرامویل ایک مذہبی انسان تھا جس کا اللہ تعالی پر مضبوط اعتقاد تھا، اس نے 1630ء میں اپنا عقیدہ تبدیل کیا Independant Puritan ہوگیا۔
کرام ویل متعدد بار پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا، اسے 1628ء میں Parliment of Huntingdon اور 1660ء کیمبرج پارلیمنٹ کا مختصر عرصے کے لیے اور 1640ء میں پھر آئرلینڈ پارلیمنٹ کا رکن رہا۔ کرامویل نے برطانیہ کی سول وارکے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا، وہ اپنی بہادری اور جوان مردی کی بنا پر مقبول ہوا۔ اسے مختصر عرصے بعد ہی ایک کیولری دستے کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ کرامویل نے جرنل تھامس فیرئیر فیکس کی قیادت میں رائلسٹ فوج کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا، کرامویل ان چیدہ چیدہ لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے بادشاہ چارلس کی موت کے وارنٹ پر دستخط کیے تھے۔
کرامویل کو اس کی بہادری کی بناء پر 1649ء میں آئرلینڈ میں فوج کی کمانڈ سونپی گئی تھی۔ اس نے فوج کی قیادت کرتے ہوئے آئر لینڈ میں Confedrantاور رائلسٹ اتحادی فوجوں کی شکست دی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ میں کیتھولک فرقے کے پیروکاروں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے قوانین نافذ ہوئے تھے۔ کرام ویل نے 1650ء میں اسکاٹ لینڈ کی فوج کی سرکوبی کی مہم کی قیادت کی اور اس جنگ میں کامیابی حاصل کی، اس نے اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے 20اپریل 1653ء کو پارلیمنٹ کو توڑ دیا اورBareboni پارلیمنٹ کے نام سے نئی پارلیمنٹ قائم کی۔ کرامویل نے اس پارلیمنٹ کے لیے اراکین کو خود نامزد کیا۔
برطانیہ کی تاریخ لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کرامویل، ویلز اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کا مطلق العنان حکمران بن گیا تھا، کرامویل کے خاندان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امراء سے تعلق رکھتے تھے۔ کرامویل کے والد رابرٹ ایک معتدل انسان تھے، ان کی hunting Donshireمیں زرعی جائیداد تھی۔
تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے، رابرٹ کی سالانہ آمدنی 300 پاؤنڈ تھی، کرامویل نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ وہ ایک ایسے جینٹلمین کے ہاں پیدا ہوا جہاں نہ دولت کی فراوانی تھی اور نہ ہی غربت تھی۔ کرامویل کا داخلہ کیمبرج یونیورسٹی میں ہوا مگر وہ ڈگری حاصل نہ کرسکا، اس کی وجہ اس کے والد کی اچانک موت بتائی جاتی ہے۔
اس کے کئی سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ کرام ویل نے برطانیہ کی قانون کی سب سے بڑی درسگاہ لنکن اِن میں تعلیم حاصل کی مگر لنکن اِن کے ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوتی۔ کرامویل کو اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنے گھرکا بوجھ سنبھالنا پڑا تھا، اس کی سات بہنوں کی شادی نہیں ہوئی تھی، وہ اپنی ماں اور بہنوں کا واحد سہارا تھا۔ کرامویل نے 1598ء میں ایلزبتھ بروچر نامی خاتون سے شادی کی تھی، کرامویل اپنی اہلیہ کی بنا پر لندن اور ہالینڈ کی تاجر برادری سے آشنا ہوا، کرام ویل کو تاجر برادری سے تعلقات کی وجہ سے فوجی اور سیاسی کیریئر بنانے میں بڑی مدد ملی تھی۔
کرامویل کی پارلیمنٹ میں کارکردگی بہت زیادہ بہتر نہیں رہی، اس نے ایک تقریر بشب رچرڈ ڈین کے خلاف کی تھی مگر اس پارلیمنٹ کے اراکین نے گرم جوشی سے خیرمقدم نہیں کیا تھا۔ کرام ویل کا حقیقی کارنامہ برطانیہ میں ہونے والی دو سول وار میں مخالفین کو شکست دینا تھا۔
کرام ویل کو 1644ء میں مارس ٹون مورکی جنگ کے دوران لیفٹنٹ جنرل کا عہد ہ تفویض کیا گیا، یہ عہدہ مانچسٹر آرمی نے دیا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ مارس ٹون کی جنگ میں پارلیمنٹ کی کامیابی کا سہرا کرام ویل کے سر تھا۔ لیفٹننٹ جنرل کرامویل اس جنگ میں زخمی ہوا اور اس کا بھانجا مارا گیا۔ جنرل کرامویل نے ایک تاریخی خط اپنے بہنوئی کے نام لکھا، اس جنگ میں کامیابی سے پارلیمنٹیرین کی شمالی برطانیہ میں بالا دستی حاصل ہوگئی تھی۔ اس جنگ کے دوران کرام ویل اور اسکاٹ لینڈ کے جرنیلوں کے درمیان بعض اختلافات پیدا ہوئے۔
اس کی جنگی حکمت عملی اور فوجیوں کی بھرتی کے طریقہ کار پر اعتراضات ہوئے۔ اس جنگ کے خاتمے کے بعد 1644ء میں پارلیمنٹ نے ایک قانون نافذ کیا، اس قانون میں ایوان نمایندگان کے اراکین کو پابند کیاگیا کہ سول اور فوجی عہدے میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ کرامویل نے فوجی عہدہ برقرار رکھا تھا، جنرل کرامویل نے فوج میں اصلاحات کے لیے اہم خدمات سرانجام دی تھیں، یوں سرتھامس فن فئیرکی قیادت میں ماڈرن فوج منظم ہوئی، کرامویل کو کیولری کے لیفٹنٹ جنرل اور سیکنڈکمانڈ کے عہدے پر تعینات کیا گیا، اس فوج نے 1645میں نیزبے کی جنگ میں بادشاہ کی فوج کو تہس نہس کردیا، اس جنگ میں بھی کرامویل کا بہت کردار تھا۔
کرامویل نے نہ صرف بادشاہ کی فوج کو شکست دی بلکہ بہت سارے سپاہیوں کو گرفتارکیا، اس پر ہتھیار ڈالنے والے سو سپاہیوں اور قیمتی املاک پر قبضے کا الزام بھی لگا۔ کرامویل اور جنرل تھامس فن فیئرکی کمانڈ میں فوج 1649ء میں ایک اور تاریخی کامیابی حاصل کی اور بادشاہ کے حامیوں نے شکست تسلیم کرلی اور برطانیہ کی پہلی سول وار ختم ہوگئی، یہ بھی کہاجاتا ہے کہ کرام ویل نے کبھی فوج کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی۔
سوانح نگار لکھتے ہیں کہ کرامویل مسلح طاقت کے بجائے حکمت عملی پر یقین رکھتا تھا اورجنرل کی حیثیت سے ڈسپلن کی رعایت دینے پر تیار نہیں ہوتا تھا۔ جنرل کرام ویل نے جنگ کے دوران کلوز ڈورکیولری فارمیشن کو رائج کیا۔ اس فارمیشن میں سپاہی knee knee to گھوڑے پر سوار ہوتے، اس فارمیشن کی بنا پرکرامویل کی فوج کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ جنرل کرامویل نے برطانیہ میں دوسری سول وارکے خاتمے میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا۔
دوسری سول وار1648ء میں شروع ہوئی، بادشاہ نے دوبارہ طاقت کے ذریعے اپنی فوجوں کو منظم کرنے کی کوشش شروع کی۔ کرامویل کی کامیاب حکمت عملی نے اس کو اپنی کامیابی دلائی، کم افرادی قوت والی فوج نے اپنے سے بڑی فوج کو شکست دی۔ کرامویل نے بادشاہوں کو پھانسی دینے کے بعد کامن ویلتھ آف انگلینڈ کا اعلان کیا تھا۔ یوں رم پارلیمنٹ وجود میں آئی جس کو محدود انتظامی اختیارات حاصل تھے۔ بادشاہ چارلس 1کی پھانسی کے بعد کرامویل نے سرجان کی قیادت میں منحرف اوریجنل رائلسٹ کو متحدکرنے کی کوشش کو ناکام بنایا۔
جنرل کرامویل نے 1649ء میں آئرلینڈ پر حملہ کیا اور پھر ایک نئی کامیابی حاصل کی، بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی عسکری سے زیادہ ڈپلومیٹک نوعیت کی تھی۔ جنرل کرامویل کا ایک اورکارنامہ ڈن بار (Dunbar)کی جنگ میں کامیابی کا ہے۔ کرام ویل نے اس جنگ میں اسکاٹ لینڈ کی فوج کو شکست دی، اس جنگ میں اسکاٹ لینڈ کے چار ہزار فوجی ہلاک ہوئے اور ایک ہزار فوجیوں کو گرفتارکیا گیا۔
کرامویل 1658ء میں ملیریا کے مرض کا شکار ہوا اورانسٹھ سال کی عمر میں انتقال کرگیا۔ اس کی تدفین بڑے شاندار انداز میں ہوئی مگرکرامویل کو اس کی موت کے بعد پارلیمنٹ توڑنے کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ اس کی لاش کو قبر سے نکال کر تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
بیسویں صدی میں جنرل کرامویل کی شخصیت اور خیالات کو نازی جرمن اور اٹلی کے فاشزم کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، یوں برطانیہ کے ہیروکو پارلیمنٹ توڑنے کی سزا اس کی موت کے بعد ملی۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقارسیٹھ نے برطانیہ کی جمہوری روایات اور برطانیہ کے ہیرو جنرل کرامویل کو پارلیمنٹ توڑنے کے جرم میں مرنے کے بعد سزائے موت دینے اور لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دینے کے واقعے کو جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ دیتے وقت اپنے ذہن میں رکھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جنرل کرامویل کی سزاکے بعد کسی فوجی جنرل نے برطانیہ میں پارلیمنٹ کوتوڑنے اور اپنے اقتدارکو قائم کرنے کی جرات نہیں کی، یوں برطانیہ کی جمہوریت کی جڑیں انتہائی گہری ہوگئیں۔
اب اکیسویں صدی میں سزائے موت کو ختم کرنے کی تحریک دنیا بھر میں پھیل چکی ہے، دنیا کے بہت سارے ممالک نے یہ سزا ختم کر دی ہے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کی جدوجہد کرنے والے کارکن اس سزا کو انسانیت کے خلاف سمجھتے ہیں، یوں پرویز مشرف کو سزائے موت دینا اور اس کی لاش کو ڈی چوک پر لٹکانے کے فیصلے کی ستائش نہیں ہوسکتی مگر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے آخری ریفرنس میں بڑے واضح انداز میں کہا کہ عدلیہ کے خلاف مذموم مہم چلائی جا رہی ہے۔
دراصل خصوصی عدالت کایہ فیصلہ ایک علامتی فیصلہ ہے، دنیا میں آئین ہی کو بالا دستی حاصل ہوتی ہے، آئین کے تحت تین بنیادی ادارے انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ ہیں، تمام سرکاری وزارتیں، صوبائی محکمے، قانون نافذ کرنے اور ملک کادفاع کرنے والی ایجنسیاں، ان اداروں کی بالادستی تعظیم کی پابند ہیں۔ عوا م کے نمایندوں نے 1973ء کا آئین بنایا ہے، اس آئین کو توڑنے اور معطل کرنے والا سزا کا مستحق ہے، جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کا یہ واحد راستہ ہے۔
آج 25دسمبر اور ملک کے بانی محمد علی جناح کی سالگرہ کادن ہے، جناح صاحب نے ساری زندگی آئین اور قانون کی بالادستی کا درس دیا۔ برطانیہ اور جنرل کرامویل کی تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے کہ آئین اور قانون سے کوئی بالا دست نہیں ہوتا۔