صوبہ سندھ میں کپاس ایک اہم فصل ہے۔ کپاس سندھ کے ضلع مٹیاری، سانگھڑ، گھوٹکی، ٹنڈو الہ یار اور نواب شاہ میں پیدا ہوتی ہے۔ کپاس کا پودا ایک مختلف نوعیت کا پودا ہے۔ کپاس چننا ایک محنت طلب اور مشکل کام ہے۔ سندھ میں تقریباً 5 لاکھ خواتین کپاس چننے کا کام کرتی ہیں۔ کپاس کی چنائی شدید گرمیوں کے مہینوں جون سے اکتوبر تک ہوتی ہے۔
یہ خواتین 12، 12 گھنٹے صبح سے شام تک محنت کرتی ہیں اور بہت کم معاوضہ ان کے حصہ میں آتا ہے۔ یوں یہ خواتین اور ان کے خاندان والے غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کپاس چننے والی خواتین کے شوہر اور دیگر مرد عمومی طور پرکام نہیں کرتے یا کبھی کبھی کسی کام کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ ان خواتین کے ہاں کم بچے پیدا کرنے کا تصور نہیں ہے، یوں ان پر اضافی بوجھ پڑجاتا ہے۔
سندھ کے مختلف اضلاع میں ان خواتین کی اجرتوں کا مختلف معیار پایا جاتا ہے۔ جن خواتین کے اپنے گھر ہیں ان کو ایک من کپاس چننے کے تقریباً400 روپے ملتے ہیں اور جو خواتین وڈیروں کی زمینوں پر قائم مکانات میں رہتی ہیں انھیں ایک من کپاس کے 300روپے ملتے ہیں۔ خواتین گرمی میں کپاس چننے کا کام کرتی ہیں۔
وڈیروں نے زیادہ زمین پرکپاس کے پودے لگانے کے لیے درخت کاٹ دیے ہیں، یوں ان خواتین کو سارا دن دھوپ سے بچنے کے لیے سایا میسر نہیں آتا، یوں موسم کی سختی اورکپاس چننے کے دوران فضا آلودہ ہونے کی بناء پر مختلف بیماریاں ان خواتین پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ فصلوں پر جراثیم اور کیڑے کو مارنے کے لیے زرعی ادویات کا اسپرے دمہ، ٹی بی، پیچش، الٹی اور دیگر بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔
ان علاقوں میں سرکاری ڈسپنسریاں موجود نہیں ہیں، یوں بیمار خواتین کا علاج نہیں ہو پاتا اور ان کا انحصار دیسی ٹوٹکوں تک محدود ہوتا ہے۔ کپاس کی فصل میں سانپ پائے جاتے ہیں جو عمومی طور پر ان خواتین کو کاٹتے ہیں جس کی بناء پر بعض خواتین مرجاتی ہیں اور جو زندہ بچ جاتی ہیں انھیں علاج کے لیے طبی مراکز لے جایا جاتا ہے جہاں سانپ کاٹنے کی ویکسین نایاب ہوتی ہے، یوں ان خواتین کے علاج معالجہ پر 40 سے50 ہزارکی رقم خرچ ہوتی ہے۔ ان خواتین کی قوت مدافعت کم ہونے کی بناء پر پیدا ہونے والے بچے لاغر اورکمزور ہوتے ہیں۔
سندھ میں زچہ وبچہ کے مرنے کی شرح خطرناک حد تک بڑھی ہوئی ہے۔ ان محنت کش خواتین نے ایک نشست میں بتایا کہ جن خواتین کے اپنے گھرنہیں ہیں وہ وڈیروں کی مقروض ہوتی ہیں، اس بناء پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کہانیاں علیحدہ سنائی دیتی ہیں۔ یہ خواتین کپاس کے چنے کا موسم ختم ہونے کے بعد ان علاقوں میں سبزیوں کے کھیتوں میں کام تلاش کرتی ہیں جہاں انھیں کم معاوضہ ملتا ہے۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ ان کی لڑکیاں اور لڑکے پرائمری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر جب کپاس چننے کا وقت ہوتا ہے تو با اثر وڈیرے اسکول بند کرا دیتے ہیں تاکہ بچے بڑے سب ماؤں کے ساتھ کپاس چننے کا کام کریں۔ کپاس چننے کا سیزن ختم ہونے پر ان خواتین کو دیگرکام کرنے پڑتے ہیں۔
سندھ میں ہاریوں اور مزدوروں میں آگہی پھیلانے کی تنظیم سندھ کمیونٹی آرگنائزیشن ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ اس کے صدر جاوید سوز نے بتایا کہ کپاس چننے والی خواتین مختلف معاملات اور مسائل کا شکار ہیں مگر تنظیمی صلاحیتیں نہ ہونے سے مسائل حل نہیں ہوپاتے۔ اب تک مختلف اضلاع میں ان خواتین کی 5 سے 6 مزدور یونین بنائی گئی ہیں، یوں پہلی دفعہ ان خواتین کے قانونی حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز ہوا ہے۔ یہ وہ حقوق ہیں جن کی بین الاقوامی کنونشن اور پاکستانی قوانین توثیق کرتے ہیں۔ حکومت سندھ کے نافذکردہ قوانین کا ان خواتین کارکنوں پر اطلاق نہیں ہوتا، لیبرکا محکمہ انتہائی کمزور ہے۔ یہ محکمہ بڑے صنعتی اداروں کے مزدوروں کو تحفظ نہیں دیتا تو پھر دیہات کے مزدوروں کی حمایت کیسے کرے گا۔
وزیر محنت کا کہنا ہے کہ اب سندھ میں کم ازکم اجرت 17ہزار ہے مگر یہ محکمہ ان خواتین کو اپنی تیار کردہ اجرتوں کے تعین کے مطابق اجرتیں دلوانے میں ناکام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کپاس چننے والی خواتین کو بہت کم تنخواہ ملتی ہے۔ اسی طرح The Sindh Occupational Safety and Health Act اخبارات کی فائلوں میں تو نافذ ہے مگر اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ بتایا گیا ہے کہ ایک عالمی ادارے نے خواتین کی کپاس چننے کی صلاحیتوں کو سائنسی انداز میں بہتر بنانے کا پروجیکٹ شروع کیا تھا مگر خواتین کی صحت اور اجرتوں کے بارے میں کچھ نہیں ہوا۔
جاوید سوز اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ حقیقت آشکارکرتے ہیں کہ Sindh Industrial Act مزدوروں کو یونین سازی کا حق دیتا ہے مگر سندھ میں یونین رجسٹرڈ کرانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ یونین کی رجسٹریشن کو التواء میں ڈالنے کے لیے مختلف نوعیت کے حربے استعمال ہوتے ہیں۔ پھر وڈیروں کی طرف سے یونین کے رہنماؤں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کا معاملہ علیحدہ ہوتا ہے۔ محکمہ لیبرکے پاس مزدوروں کی شکایات کی تحقیقات کے لیے انسپکٹرکم ہیں اور سندھ میں بیشتر انسپکٹر اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ نہیں دیتے۔
صوبہ سندھ کی حکومت نے 2019ء میں Sindh Women Agriculture Act نافذ کیا۔ دانشوروں نے اس قانون کو ایشیاء کا سب سے بہتر قانون قرار دیا تھا۔ حقیقتاً یہ ایک بہتر قانون ہے مگر اس قانون سے کپاس چننے والی خواتین کو تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ اس قانون کے دائرہ میں وسعت کی ضرورت ہے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ کپاس چننے والی خواتین میں اپنے حقوق کے تناظر میں شعور پھیل رہا ہے اور یہ ناخواندہ خواتین اجتماعی طور پر جدوجہدکو درست راستہ جان رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کو ان ورکرز خواتین کے حالات کارکو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ ان خواتین کے حالاتِ کار بہتر ہونگے تو ان کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی اور ایک وقت آئے گا کہ یہ خواتین کارکن سندھ کے ہاریوں کے ساتھ مل کر اپنی جدوجہد کو منظم کریں گی اور حیدر بخش جتوئی کا خواب پورا ہوگا۔