سپریم کورٹ نے یک رکنی اقلیتی کمیشن قائم کیا تھا جس کا سربراہ نامور پولیس افسر ڈاکٹر شعیب سڈل کو مقررکیا گیا تھا۔ انھوں نے تعلیمی نصاب کا جائزہ لیااور مختلف سطحوں پر پڑھائے جانے والے نصاب کا تجزیہ کیا، یوں یہ حقیقت سامنے آئی کہ نصاب تعلیم کو سائنسی خطوط پر استوار کرنے کے لیے ماضی میں جوکام ہوا تھا وہ اب رک گیا ہے۔ ڈاکٹر شعیب سڈل کمیشن نے بھی نصاب میں کچھ تبدیلیوں کی سفارش کی تھی لیکن پھر بات آگے نہیں بڑھی۔
انتہا پسندی مسلمان ممالک کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی انتہا پسندی دہشت گردی کی شکل میں سامنے آئی جس کا مسلمان ممالک سمیت ساری دنیا کو نقصان ہوا، مگر سب سے زیادہ نقصان افغانستان اور پاکستان میں ہوا۔ پاکستان میں دہشت گردی نے قومی رہنماؤں، علماء، سماجی کارکنوں، وکلاء، فوجی اور سول افسروں کو لپیٹ میں لیا اور خودکش حملوں میں ہزاروں بے گناہ مارے گئے۔ بے نظیر بھٹو، راشد رحمن، بشیر بلور، سبین محمود، ڈاکٹر شکیل اوج، ڈاکٹر یاسر رضوی اور ڈاکٹر فاروق جیسے رہنما شہید کیے گئے۔
دہشت گردی کے خاتمے کی لڑائی میں ہزاروں فوجی اور پولیس افسران شہید ہوئے۔ دہشت گردی کے واقعات کو پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں سے جوڑ دیا گیا۔ سعودی عرب مسلمانوں کے لیے ایک رہنما ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ سعودی عرب اس مذہبی دہشت گردی سے متاثر ہوا۔
سعودی عرب کی حکومت نے مذہبی انتہاپسندی کے اسباب پر تحقیق کی۔ موجودہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی پالیسی میں تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسکولوں، کالجوں اور مدارس کے نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ سعودی یوگا انسٹرکٹر اور عرب یوگا فاؤنڈیشن کے بانی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ سعودی عرب کا نیا وژن 2030 اور نصاب آج کل کی نسلی ہم آہنگی، اعتدال پسندی اور رواداری پیدا کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
سعودی عرب میں یہ تبدیلی نئی نسل کو انتہا پسندی کے عفریت بچائے گی اور طالب علموں کو بین الاقوامی معیارکے مطابق تعلیم دی جائے گی تاکہ سعودی عرب کے اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان دنیا بھر میں خدمات انجام دے سکیں گے اور سعودی عرب کے نوجوانوں کا ایک اعتدال پسند چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے خواتین کو اکیلے سفر کرنے، انھیں خود ڈرائیونگ کرنے کی پہلے ہی اجازت دیدی تھی۔ پاکستان اس وقت شدید مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کا عفریت نہ صرف ملک میں معیشت اور معاشرت کو تباہ کررہا ہے بلکہ دنیا میں پاکستان کا چہرہ ایک رجعت پسند ملک کے طور پر پیش کرنے کا سبب ہے۔
پاکستان اب بھی اقوام متحدہ کی ایشیاء مشرق بعید کی ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔ اب یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے بھی پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ واپس لینے کی قرارداد منظورکی ہے، اگر یورپی پارلیمنٹ کے اس فیصلہ پر یورپی یونین کے ممالک نے عملدرآمد کیا تو پاکستان کوکئی بلین ڈالرکا خسارہ ہوگا جو وزیر اعظم عمران خان کی معاشی پالیسیوں کو سخت نقصان پہنچانے باعث بن سکتا ہے۔ نئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے معیشت کی صورت حال کو خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر شرح پیداوار 5 فیصد تک نہیں پہنچی تو ملک شدید بحران کا شکار ہوگا۔
ان کا بیان حقائق کی عکاسی کررہا ہے۔ یہ وقت جذباتی تقاریر اور لاابالی دعوؤں کا نہیں بلکہ حقیقت کو سمجھنے کا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے اسی طرح کے اقدامات کرنے ہوں گے جیسے اقدامات اب سعودی عرب نے کیے ہیں اور اس سے پہلے ترکی، مصر، ملائیشیا، کویت، متحدہ عرب امارات کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر شعیب سڈل کی رپورٹ یورپی یونین کی پارلیمنٹ کے مؤقف کو تبدیل کرنے کا سب سے بہتر آلہ ہے۔ دنیا میں ترقی کے ماڈلزکو سمجھنے والے افراد کو اس صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے اور حکومت پر اس رپورٹ پر عملدرآمد پر زور دینا چاہیے۔ یہ رپورٹ بانی پاکستان کی 11اگست 1947ء کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں کی گئی تقریرکی عملی شکل ہے، وزیر اعظم عمران خان کو اس نکتے پر غورکرنا چاہیے۔