عوام حکومت سے نوکریاں نہ مانگیں۔ روزگار دینا حکومت کا نہیں، نجی شعبہ کا کام ہے۔ سرکار صرف ماحول پیدا کرتی ہے۔ 40 محکمے بند کرنے پر غورکر رہے ہیں۔ سائنس وٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری نے ملازمتوں کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت کی حکمت عملی واضح کردی۔
دوسری طرف بین الاقوامی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈکی رپورٹ ملک کی معیشت کی زبوں حالی کو افشاں کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی برقرار رہے گی۔ اگلے سال بے روزگاری میں معمولی اضافہ ہوگا۔ بین الاقوامی ادارہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی 13 فیصد رہے گی اور بے روزگاری کی شرح اگلے سال تک 6.2 فیصد تک جائے گی۔
عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے گزشتہ ہفتہ نیویارک میں ہونے والے اجلاس کے موقعے پر جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جی ڈی پی کی شرح اگلے سال تک 2.4 فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکے گی۔ جی ڈی پی کی شرح افزائش میں مزیدکمی آئے گی۔ موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا مگر ملک کی معیشت تنزلی کا شکار ہے۔ وزیروں کے دعوؤں کے باوجود معیشت میں کوئی بہتری کی امید نظر نہیں آئی۔
روزگارکے نئے دروازے کھل نہیں سکے اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ اقتدار سنبھالا۔ احتساب کا دائرہ کار بڑھ گیا۔ پہلے نیب والوں نے مخالف سیاست دانوں کو گرفتار کرنا شروع کیا پھر بیوروکریٹس کا نمبر آگیا۔ سینئر اور دس، دس سال قبل ریٹائرڈ ہونے والے بیوروکریٹس کو مہینوں نیب والے اپنی حراست میں رکھتے ہیں۔ ہر سیاست دان اور بیوروکریٹس کو حراست میں لیتے ہوئے نیب کے پریس ریلیز میں کروڑوں اور اربوں روپے غبن اور بدعنوانی کے الزامات روزمرہ کا معمول بن گئے۔
سیاستدان تو ہمیشہ سے بد نام ہیں، یوں سیاستدانوں اور ان کے حامیوں کے لیے ذرایع ابلاغ میں شور مچانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔ مگر بیوروکریٹس نے منصوبوں کو آخری شکل دینے اور منصوبوں کی منظوری کے عمل میں حصہ لینے سے گریزکرنا شروع کر دیا۔ چیئرمین پالیسی بورڈ ایس ای سی پی کے چیئرمین خالد مرزا نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بیوروکریٹس میں پھیلے ہوئے خوف کا ذکر کیا ہے۔
یاد رہے کہ ایس ای سی پی سے لوگوں کو پکڑاگیا ہے۔ ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید نے بھی اس صورتحال کا ادراک کیا۔ انھوں نے کہا کہ بیوروکریٹس کسی کاغذ پر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ معاملہ صرف سیاست دانوں اور بیوروکریٹس تک محدود نہیں رہا بلکہ صنعتکاروں اور تاجروں نے کاروبار محدود کیا۔
ایوان ہائے صنعت و تجارت اور مختلف شہروں کے ایوان صنعت وتجارت کے اجلاسوں میں صنعت کاروں اور تاجروں کی شکایت کی گونج سنائی دی جانے لگی اور ہڑتالوں کے فیصلے ہونے لگے۔ صورتحال اس حد تک پہنچی کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے کاروباری شخصیات نے ملاقات کی۔
پھر تاجروں کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی۔ نیب کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال نے تاجروں اور صنعتکاروں کو نیب کے عملے کے ہاتھوں ہراساں ہونے سے روکنے کے لیے کچھ اقدامات کا اعلان کیا۔ بہرحال حکومت کے اقدامات سے سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری سے اجتناب کیا تو دوسری طرف اقوام متحدہ کی مالیاتی دہشت گردی کی روک تھام کی ایشیا اور مشرق بعید کے لیے قائم ٹاسک فورس ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر ہونے والے اقدامات سے معیشت تنزلی کا شکار ہوئی۔
ہر اکاؤنٹ ہولڈرکا بائیومیٹرک، انعامی بانڈ اسکیم پر پابندیاں اور 50 ہزار روپے سے زائد رقم کے چیک کے بارے میں تحقیقات سے صورتحال مزید خراب ہوگئی۔ موجودہ حکومت کے وزراء نے شہروں میں فلک شگاف نعرے لگائے تھے کہ سوئٹزرلینڈ اور یورپی ممالک کے بینکوں میں رکھے گئے اربوں روپے واپس لائے جائیں گے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت مالیاتی بدعنوانی میں ملوث افراد جو یورپ، امریکا اورکینیڈا میں مقیم ہیں انھیں گرفتارکر کے ملک میں لایا جائے گا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ محسوس ہونے لگا کہ سوئٹزرلینڈ اور دیگر ممالک حکومت سے تعاون نہیں کریں گے۔
یوں قومی خزانے میں اربوں روپوں کی واپسی کا معاملہ ہنوز دور رہا۔ حکومت نے پہلے تو آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیا، حکومت نے چین اور سعودی عرب سے ملنے والے قرضہ پر کام چلانے کی کوشش کی، مگر جب ہر طرف سے مایوسی ہوئی تو آئی ایم ایف سے مہنگی ترین شرائط پر قرضہ حاصل کیا گیا۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ملک کی تاریخ میں کسی غیر ملکی مالیاتی ادارہ سے اتنی سخت شرائط پر قرضہ نہیں لیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے یوٹیلٹی سروس سے سبسڈی واپس لینے کا سلسلہ شروع ہوا، یوں بجلی، پیٹرول اورگیس کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ گزشتہ سال روپے کی قیمت کم ہونے سے غیر ملکی قرضوں کا حجم بڑھ گیا تھا اور درآمدی اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں۔
فروری میں بھارت سے ہونے والی کشیدگی سے مالیاتی بحران پر منفی اثرات برآمد ہوئے۔ اس تمام صورتحال کا بوجھ عوام پر پڑا۔ ایک زمانے میں کہا جارہا تھا کہ سی پیک کے منصوبوں کے مکمل ہونے سے ملازمتوں کے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا پیشگوئی کررہے تھے کہ کراچی کے قریب سمندر سے تیل کے وسیع ذخائر برآمد ہونے والے ہیں مگر یہ تجربہ ایک دفعہ پھر ناکام ہوا۔ وفاقی حکومت نہ تو روزگار کے نئے منصوبے شروع کرپائی نہ اسٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلوے کو خسارے سے نکال پائی۔
ریلوے کے وزیر شیخ رشید نئے نئے ناموں سے ریل گاڑیاں چلانے کا جس رفتار سے اعلان کرتے ہیں اس رفتار سے ریل گاڑیوں کے حادثات کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ ریلوے میں نچلے درجے کی آسامیوں پر قرعہ اندازی کے ذریعے بھرتی کی گئی جس کے نتیجے میں مجبورا لاہور ہائی کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں یہ اعلان کر بیٹھے کہ ایک کروڑ آسامیاں آنے والی ہیں مگر کچھ نہ ہوا۔ اب فواد چوہدری کہتے ہیں کہ حکومت ملازمتوں کے نئے مواقعے فراہم نہیں کرسکتی۔ بلکہ حکومت قومی اثاثوں کی نجکاری کرنے پر غور کررہی ہے۔
دوسری طرف نجی شعبہ کسی قسم کی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ صرف طبعی شعبہ میں نئی آسامیاں خالی ہیں۔ بینکنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیا اور تمام شعبوں میں حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کوگرے لسٹ سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور نئی ہدایات جاری کی ہیں۔ حکومت جب ان ہدایات پر عمل کرے گی تو معیشت پر مزید برا اثر پڑے گا۔
حکومت سرکاری محکموں کی نجکاری کرکے حالات کو مزید خراب کرے گی۔ اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ حکومت کے پاس معاشی بد حالی کے حل کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ فواد چوہدری کا اعلان حکومت کی ناکامی کا اعلان ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگلے کئی سال پاکستان کے عوام کے لیے مزید مشکلات کے سال ہوں گے اور ساری مشکلات غریب عوام کو ہی اٹھانا پڑیں گی۔