Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Insani Huqooq Aur Muslim League (N)

Insani Huqooq Aur Muslim League (N)

اقوام متحدہ نے 1948 میں انسانی حقوق کا چارٹر منظورکیا۔ یہ چارٹر تاریخ انسانی کی اہم دستاویز سمجھی جاتی ہے، پاکستان نے اس اہم دستاویزکی فوری طور پر توثیق کی۔

پاکستان میں نافذ ہونے والے 1956 اور 1963کے آئین میں انسانی حقوق کے چارٹر سے بہت سی شقیں شامل کی گئیں۔ پاکستان کی پہلی منتخب قومی اسمبلی نے 1973 میں نیا آئین منظورکیا۔ اس آئین کے مصنفین نے زیادہ جامع انداز میں انسانی حقوق کے چارٹرکو شامل کیا۔ اس آئین کے تحت قومی اسمبلی کے علاوہ صوبوں کی نمایندگی کرنے والی سینیٹ بھی وجود میں آئی۔

آئین کے تحفظ اور انسانی حقوق کی بالادستی کو یقینی بنانے کی ذمے داری پارلیمنٹ اور عدلیہ پر عائد ہوئی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں انسانی حقوق کے تحفظ کی کمیٹیاں قائم ہوئیں۔

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آئین کے نفاذ کے فورا بعد آئین کی انسانی حقوق سے متعلق شقوں کو معطل کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے آئین کے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور تقریباً 9 سال آئین کو معطل رکھا۔

1988 میں جنرل ضیاء الحق ایک فضائی حادثے کے نتیجے میں تاریخ کے آمروں کے خانے میں محفوظ ہوئے اور پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو پہلی دفعہ وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئیں، یوں جزوی طور پر آئین بحال ہوا۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مختلف وزارتوں سے متعلق ذیلی کمیٹیوں کا قیام عمل میں آیا تو انسانی حقوق کی کمیٹی میں شامل تھیں مگر 1999 تک یہ ذیلی کمیٹیاں فعال نہیں تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں جب نئی پارلیمنٹ منتخب ہوئی تو پہلی دفعہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں انسانی حقوق کی کمیٹیوں کا کردار ابھرکر سامنے آیا۔

اسی طرح 2010 میں سینیٹ، صحت کی وزارت کی کمیٹی نے وفاقی وزرات صحت کے سیکریٹری کو طلب کیا اور ان سے سوال کیا گیا کہ جیکب آباد، سکھر اور ملحقہ علاقوں میں سیلاب سے متاثرین کو سیلابی پانی سے نکالنے اور امدادی اشیاء کی فراہمی میں تاخیر کی بنیادی وجوہات کیا تھیں۔ سیکریٹری صاحب نے یہ حقیقت آشکارکی کہ جیکب آباد کا فضائی اڈہ امدادی کاموں کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکا۔

2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو پارلیمنٹ میں نمایندگی کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے 18ویں ترمیم پر اتفاق رائے کیا۔ اس ترمیم اور معاملات کے علاوہ اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہونگے اور اس بات پر غیر رسمی طور پر اتفاق ہوا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹیوں کی سربراہی بھی حزب اختلاف کے ہی فاضل اراکین کو سونپی جائے گی۔ اس شق کے تحت مسلم لیگ کے سابق رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔

انھوں نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں مختلف وزارتو ں کے اکاؤنٹس پر سخت اعتراضات کیے، یوں مختلف نوعیت کی بدعنوانیاں افشاں ہوئیں۔ نئے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں انسانی حقوق کمیٹی کی سربراہی بلاول بھٹو کو ملی۔

پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو اپنی سیاسی مصروفیات کی بناء پر اس کمیٹی کے لیے زیادہ وقت نکال نہیں پارہے ہیں مگر سینیٹ میں انسانی حقوق کمیٹی کے سربراہی اسلام آباد سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نوازکھوکھر کے حصے میں آئی۔

نواز کھوکھر ایک سیکیولر اور ترقی پسند سوچ کے حامل ہیں۔ ان کے دور میں مکران ڈویژن کے شہر تربت میں فرنٹیئرکانسٹیبلری کے ایک اہلکار کی گن سے کھیت میں کام کرنے والا نوجوان مارا گیا تھا۔ سینیٹ کی اس کمیٹی نے متعلقہ اہلکار کو معطل کرکے مقامی پولیس کے حوالے کیا اور یوں قتل کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔

اسی زمانے میں لاہور میں اپنے داخلوں اور وظائف کے لیے مظاہرے کرنے والے بلوچ طلبہ کے خلاف مقدمات درج ہوئے تھے۔ انسانی حققوق کمیٹی نے طلباء کو طلب کیا۔ ان طلبہ نے کمیٹی کے اراکین کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے داخلوں اور وظائف کے حق کے لیے احتجاج کررہے تھے، کمیٹی نے حکومت پنجاب کو ہدایات جاری کیں کہ ان طلبہ کے جائز مطالبات پر توجہ دی جائے اور غداری کے مقدمات واپس لیے جائیں۔ اسی طرح معروف فنکار سرمد کھوسٹ کی فلم پر پابند ی لگادی گئی۔ رجعت پسندوں نے شوروغوغا کیا تھا، یوں کمیٹی کا مناسب فیصلہ سامنے آیا۔

مصطفی نواز کھوکھر نے مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات کی حکمت عملی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی قیادت سے اختلاف کیا تھا یا کوئی اور نامعلوم وجوہات تھیں کہ پیپلز پارٹی نے مصطفی نوازکھوکھر کو انسانی حقوق کمیٹی کے لیے نامزد نہیں کیا۔

یہ خبریں شایع ہوئیں کہ پیپلز پارٹی نے اس کمیٹی کی سربراہی مسلم لیگ ن کے حوالے کردی ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے سینیٹر مشاہد حسین کو اس عہدہ کے لیے نامزد کیا۔ مشاہد حسین، میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں وزیر اطلاعات تھے مگر جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا اور چوہدری شجاعت حسین نے مسلم لیگ ق قائم کی تو وہ اس کے سرکردہ رہنماؤں میں شامل تھے، جب دور تبدیل ہوا تو وہ میاں شہباز شریف کے بیانیہ سے متاثر ہوئے اور دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے۔

مسلم لیگ ن نے ان کی قربانیوں پر سینیٹر بنوا دیا۔ لیکن حیران کن طور پر سینیٹر مشاہد حسین نے انسانی حقوق کی سربراہی تحریک انصاف کی حکومت کے حوالے کی اور خود دفاعی کمیٹی کے سربراہ بن گئے۔ یہ اہم کمیٹی تحریک انصاف کے سینیٹر اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے پوتے کے حصے میں آئی۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمن کو اس کمیٹی کی اہمیت کا بخوبی احساس ہے۔ ان کا یہ بیان اخبارات کی زینت بنا کہ وہ اور سینیٹر رضا ربانی دن رات کوشش کرتے رہے کہ انسانی حقوق کمیٹی کی سربراہی حزب اختلاف کی کسی جماعت کے حصہ میں آئے مگر ان کی کوشش رائیگاں گئی۔

اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے ان کمیٹیوں کی سربراہی کے لیے اپنے اتحادیوں کو خوب نوازا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے حصہ میں ملنے والی 6 اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں سے 5کی سربراہی اپنے اتحادیوں کے حوالے کی۔ ان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹروں کے علاوہ جماعت اسلامی اور اے این پی کے سینیٹر بھی شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن نے جے یو آئی اور جمعیت اہلحدیث کے ایک ایک سینیٹر کو نوازا۔ تحریک انصاف نے مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کو حصہ دیا۔

اس صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کا ہوا۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت گزشتہ تین برسوں سے انسانی حقوق کی پامالی پر احتجاج کررہی ہے۔

میاں نواز شریف اور مریم نواز قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں بے گناہ افراد کے قتل کے خلاف آواز بلندکرتے رہے ہیں، اسی طرح مریم نواز نے کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین سے یکجہتی کا بھرپور اظہارکیا تھا مگر سینیٹ میں ان کے ایک معزز رکن کے رویہ اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی خاموشی ان لوگوں کو مایوسی کررہی ہے جن کا یہ مفروضہ ہے کہ اب مسلم لیگ ن انسانی حقوق کی بالادستی کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھے گی۔