ایچ آر سی پی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔ ایچ آر سی پی کے شریک چیئر پرسن اسد اقبال بٹ، سندھ کے وائس چیئر پرسن قاضی خضر اور سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف نے 2021 میں رپورٹ کے اجراء کے وقت کہا کہ گزشتہ سال کورونا وائرس نے تباہی مچائی۔
وفاقی حکومت نے ایک مربوط حکمت عملی کے لیے NCOC قائم کی۔ مگر اس ادارے کی کارکردگی زیادہ متاثرکن نہیں رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے پوری دنیا میں SOPs پر عمل درآمد کیا گیا، مگر وفاقی حکومت ان SOPs پر مکمل عمل درآمد میں سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ مذہبی اداروں اور مذہبی جلسوں میں ان SOPs پر عملدرآمد نہیں کرایا گیا۔ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی تھی، اگر وائرس نامعلوم وجوہات کی بناء پر کمزور نہیں ہوتا تو پاکستان میں بھارت سے بھی زیادہ بدترین حالات ہوتے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال بھی میڈیا کا بحران جاری رہا۔ اس بحران کے نتیجے میں کئی ہزار میڈیا ورکرز بے روزگار ہوئے، معاشی بحران کے دباؤ کی بناء پر کئی نوجوان صحافی جاں بحق ہوئے اور بہت سے ذہنی دباؤ، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔ اسد بٹ نے اس بحران کی براہِ راست ذمے داری حکومت پر عائد کی۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چاروں صوبوں میں منتخب بلدیاتی اداروں کا وجود نہیں ہے۔ پنجاب حکومت نے بغیر کسی جواز کے بلدیاتی اداروں کو ان کی مدت پوری ہونے سے پہلے توڑ دیا، صرف سندھ میں بلدیاتی اداروں نے اپنی آئینی معیاد پوری کی۔ سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کے بلدیاتی اداروں کو توڑنے کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا مگر حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر عملدرآمد نہیں کیا اور بلدیاتی ممبرز نے اپنے دفاتر کو واپس لینے کی کوشش کی تو پولیس نے تشدد کا راستہ اختیارکیا۔
سندھ میں حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے تیار نہیں ہے۔ سندھ کا بلدیاتی اداروں کا قانون اتنا ناقص ہے کہ منتخب اداروں کے پاس کوڑے، سیوریج اور صفائی کے اختیارات نہیں، جس کے نتیجہ میں سندھ کے کوڑے کا مسئلہ اب بین الاقوامی شہرت اختیار کرچکا مگر حکومت سندھ پیپلز پارٹی کے اساسی دستاویز میں درج حقوق کو تسلیم کرنے اور ان پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے۔
ملک میں مجموعی طور پر تعلیم کا شعبہ پسماندہ ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم کا دعوی ہے کہ سندھ میں 35 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ ایچ آر سی پی سندھ کے وائس چیئرمین قاضی خضر کہتے ہیں کہ حقیقی طور پر سندھ میں 70 سے 80 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ یہی صورتحال باقی صوبوں کی ہے۔
چاروں صوبائی حکومتوں نے بچوں کو چائلڈ لیبر سے بچا کر اسکول میں داخلے دلوانے کے لیے وہ اصلاحات نہیں کیں جو پہلے امریکا اور یورپی ممالک نے بچوں اور ان کے والدین کے لیے اسکول میں داخلوں کے عمل کو پرکشش بنانے کے لیے نافذ کی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک خواندگی کا تناسب صد فی صد نہ ہوسکا اور آج بھی کئی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال چاروں صوبوں میں سیاسی کارکنوں کے اچانک لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ شہریوں کو لاپتہ ہونے کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے مسودہ قانون کو قانون میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے مگر بعض عناصر اس بل کے حق میں نہیں۔ اسد بٹ اور قاضی خضر نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قانون سازی انتہائی ضروری ہے۔
فوری طور پر مکمل کرنے اور مجوزہ قانون کو عملی طور پر نافذ کرنے پر زور دیا ہے۔ ایچ آر سی پی کی اس رپورٹ میں غیر مسلم پاکستانیوں کی لڑکیوں کی زبردستی مذہب کی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں تحریرکیا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس مسئلہ کاجامع حل نکالنا چاہیے۔ پاکستان کے آئین میں غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق کا مکمل تحفظ موجود ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی آئین کے تحفظ اور آئین کی ہر شق پر عملدرآمدکی ذمے داری ہے۔
ایچ آر سی پی کے رہنماؤں کا مدعا ہے کہ چاروں صوبوں میں کم از کم اجرت کا قانون تو نافذ ہے مگر اس قانون پر ملک کے کسی علاقے میں عملدرآمد نہیں ہوتا۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مختلف محکموں اور خود مختار اداروں میں کم از کم اجرات کے قانون پر عملدرآمد نہیں کرایا جاتا۔ چاروں صوبائی حکومتوں نے کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کے لیے کارآمد میکنزم نہیں بنایا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کارکنوں کو ملازمت کی 3 ماہ مدت مکمل ہونے پر مستقل کرنے کے قانون پر عملدرآمد کرانے کو تیار نہیں ہیں۔
تمام حکومتیں کارکنوں کو معاہداتی بنیادوں پر ملازمت دینے یا تھرڈ پارٹی جیسی غیر قانونی پریکٹس کے خاتمہ کے لیے قانون سازی پر آمادہ نہیں ہیں۔ سندھ میں باؤنڈ لیبر کا مسئلہ کسی نہ کسی صورت ختم ہوتا جارہا ہے۔ اگرچہ حکومت نے بھٹوں میں کام کرنے والی خواتین کی بہبود کے لیے جامع قانون سازی کی ہے، ایسی ہی قانون سازی چاروں صوبوں میں ہونی چاہیے۔
انسانی حقوق کے کارکن، وزیر اعظم عمران خان کے فحاشی کے حوالہ سے ٹی وی انٹرویو میں دیے گئے ریمارکس کو خواتین کی توہین قرار دے رہے ہیں۔ اسد بٹ، خضر قاضی اور زہرا یوسف کا متفقہ مؤقف ہے کہ وزیر اعظم عمران خان خواتین کو اپنے ریپ کا ذمے دار قرار دے کر قرون وسطیٰ کی ریاستوں کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان رہنماؤں کا مدعا ہے کہ ریپ کے بیشتر واقعات میں غریب خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ ریپ کرنے والے مرد ایک خاص قسم کے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
یہ مرد صرف خواتین کو ہی نہیں بلکہ بچوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ اس کی سیکڑوں مثالیں ہیں۔ عمران خان کے اس انٹرویو سے ایسے نفسیاتی مریضوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ تحریک انصاف میں شامل باشعور رہنماؤں کو اپنے قائد کے اس بیان کا نوٹس لینا چاہیے۔ یہ محض ایک سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کی آدھی سے زائد آبادی کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا مسئلہ ہے۔
پاکستان انسانی حقوق کے بین الاقوامی انڈیکیٹرزمیں خاصا پیچھے ہے، جو ریاست انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کرتی اس ملک کے عوام اور ریاست میں فاصلے بڑھتے ہیں جس کے نتیجہ میں ترقی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ زندگی کا حق، تعلیم اور صحت حاصل کرنے کا حق جب پامال ہوگا تو لوگ محنت سے منہ چرائیں گے اور جس کے نتیجہ میں پیداوار پر فرق پڑے گا اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد اضافہ ہوگا اور ترقی یافتہ قوموں کو انسانی حقوق کی پامالی کے ذمے داری ریاستوں کو کنٹرول کرنے کے مواقع ملیں گے اور ہمارا ملک پسماندگی کا شکار رہے گا۔