انسانی معاشرہ کے ارتقاء کے ساتھ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا شعور بڑھا۔ برصغیر کی معلوم تاریخ میں بادشاہوں کی رعایا کے حقوق کے حوالہ سے اپنی روایتیں تھیں مگر برصغیر کی ہزار سال کی تاریخ کے جائزہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت وقت بے گناہ شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتی تھی مگر بادشاہ وقت کے اقتدار کو چیلنج کرنے والے سزائے موت کے مستحق ہوتے تھے یا اندھے کردیے جاتے تھے اور ساری عمر زندان خانہ میں گزارتے تھے۔
جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی پر قبضہ کیا تو پولیس کا جدید محکمہ قائم ہوا۔ 1861میں پولیس ایکٹ نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت ریاست پر یہ پابندی عائد کی گئی کہ اگر کوئی شخص قانون شکنی کا مرتکب ہوا ہے تو پہلے اس کے خلاف تھانہ میں ایف آئی آر درج کی جائے گی اور اس شخص کو 24 گھنٹے میں متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے گا اور اس شخص کو اپنے دفاع کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا حق ہوگا، اگر متعلقہ شخص خود وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتا تو ریاست وکیل فراہم کرے گی۔
متعلقہ مجسٹریٹ پولیس کو چالان مکمل کرنے، ریمانڈ پر پولیس کے حوالہ کرنے یا جیل بھیجنے کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ پولیس یا کوئی اور ادارہ کسی فرد کو اپنی تحویل میں لے گا تو قانونی تقاضے پورے نہیں کرے گا تو یہ حبس بے جا کا مقدمہ بنے گا اور متعلقہ شخص یا اس کا کوئی عزیز اس غیر قانونی گرفتاری کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گا۔
ہائی کورٹ اس گرفتاری کو غیر قانونی حبس بے جا قرار دے گی تو متاثرہ شخص ریاست پر ہرجانہ کا مقدمہ کرنے کا حق استعمال کرسکتا ہے۔ ریاست کسی فرد کو اس کی غیر قانونی سرگرمیوں کی بناء پر نظربند کرے گی تو ہائی کورٹ کے ریویو بورڈ کے سامنے حکومت وہ مواد پیش کرے گی جس کی بناء پر اس شخص کی آزادی سلب کی گئی ہے، اگر عدالت حکومت کے اس اقدام کو جائز قرار دے گی تو حکومت کو متاثرہ شخص کو الاؤنس ادا کرنا پڑے گا۔
جب ہندوستان میں آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا تو برطانوی ہند حکومت نے امتناعی قوانین نافذ کیے۔ ان قوانین کے تحت شہری آزادیوں پر قدغن لگی۔ مسلم لیگ کانگریس کمیونسٹ پارٹی وکلاء کی تنظیموں نے ان اقدامات کے خلاف مسلسل آوازیں اٹھائیں۔ ان آوازوں کو بلند کرنے میں مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابو الکلام آزاد اور بیرسٹر محمد علی جناح وغیرہ ہمیشہ سرفہرست رہے۔
پاکستان بننے کے بعد1956میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس آئین میں ان تمام بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی تھی۔ جب جنرل ایوب خان نے 1958 میں مارشل لاء نافذ کیا اور 1956 کا آئین منسوخ کیا تو بہت سے سیاسی کارکن، صحافی، وکلاء اور علماء کو سرکاری اہلکار رات گئے گھروں سے اٹھا کر لے جاتے تھے۔ اس وقت مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رستم کیانی نے عدالتی اختیار کے ذریعہ ان افراد کی دادرسی کی۔
پاکستان نے 1948 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی توثیق کی تھی۔ 1973 کے آئین میں بنیادی انسانی حقوق کا باب اقوام متحدہ کے اس چارٹر کے تناظر میں تحریر کیا گیا ہے۔ اب کسی ادارہ کو غیر قانونی طور پر کسی فرد کو حبس بے جا میں رکھنے کا اختیار نہیں ہے، پھر پاکستان نے اقوام متحدہ سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کنونشن کی توثیق کی ہے۔ وارث رضا بنیادی طور پر شاعر ہیں۔
تخلیق کار ہیں اور مارکسی وادی ہیں۔ ان کی انسانی حقوق کے بارے میں خوبصورت تحریریں مختلف اخبارات میں شایع ہوتی ہیں اور اب تک سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کے بلاگ خوب وائرل ہوتے ہیں اور Like کیے جاتے ہیں۔
وارث رضا نے ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جہاں ان کے بزرگوں نے ہندوستان میں انگریز راج کے خلاف جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا تھا۔ ان کے ماموں علی مختار رضوی 60ء کی دہائی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اہم رہنماؤں میں شامل تھے، وہ ایوب خان کے نافذ کردہ تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف جدوجہد میں شہر بدر ہوئے۔ بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر شاہی قلعہ میں ہاتھوں اور پاؤں کے ناخن اکھاڑنے تک کے تشدد کو برداشت کیا۔
وارث رضا اپنے ماموں کی پیروی کرتے ہوئے پیدائشی حریت پسند ہوئے۔ کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل امام علی نازش کی نگرانی میں تنظیم سازی کا کام کرتے رہے، وہ آزادئ صحافت اور صحافیوں اور غیر صحافتی عملے کے حالات کار کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ بدھ 22ستمبر کو رات تین بجے کے قریب ان کے گھر پر دھاوا بولا گیا، وارث رضا کی آنکھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ دی گئیں۔
سیاہ رنگ کی ڈبل کیبن گاڑی میں انھیں سہارے سے سوار کرایا گیا۔ ان کی صاحبزادی لیلی رضا سیاسی کارکن ہیں، انھوں نے ساتھیوں کو یہ اطلاع دی، سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہوئی۔ معروف صحافیوں نے اپنے ٹویٹس میں وارث کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے دو گروپوں نے یک زبان ہو کر واث رضا کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ پی ایف یو جے نے پورے ملک میں احتجاجی جلسوں کا اعلان کیا، شاید یہ صحافیوں کی یکجہتی تھی کہ نامعلوم افراد شام گئے وارث رضا کو مبینہ تھانہ کے سامنے چھوڑ کر چلے گئے۔
وارث رضا پہلے صحافی نہیں ہیں جن کے ساتھ یہ بیہمانہ سلوک ہوا۔ ایسی خبریں بھی اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں کہ بعض سیاسی گروہ ایک دوسرے کے کارکنوں اور مخالف نظریات رکھنے والے صحافیوں کو اغوا کرلیتے اور انھیں جان سے مار دیتے ہیں۔ اسلام آباد سے بھی بعض صحافی اغوا ہوئے مگر اغوا کنندگان کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔
ایک بلوچ قوم پرست کارکن نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صحافی خوش قسمت ہیں کہ واپس آجاتے ہیں، سیاسی کارکن لاپتہ ہوں تو ان کی لاشیں ملتی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو اس طرح کے واقعات کا نوٹس لینا چاہیے۔
تاریخ کے طالب علموں کو30ء اور40ء کی دھائی میں اٹلی کے آمر Mussolini کا دور یاد آرہا ہے۔ Mussolini نے اپنے نظریہ کے نفاذ کے لیے جس کو پولیٹیکل سائنس کی کتابوں میں فاشزم کا نظریہ کہا جاتا ہے اپنے مخالفین کو جن میں صحافی، دانشور، ادیب اور فنکار خاص طور پر شامل تھے اسی طرح لاپتہ کرنے اور کنسنٹریشن کیمپوں میں نظربند کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
جرمنی میں ہٹلر نے بھی اسی فلسفہ کو اپنایا تھا مگر تاریخ شاہد ہے کہ اٹلی اور جرمنی دوسری جنگ عظیم میں تباہی کا شکار ہوئے تھے۔ بھارت میں مودی حکومت کشمیر میں ایسے ہی حربے استعمال کررہی ہے۔ اسی طرح کے واقعات سے پوری دنیا میں پاکستان کا امیج خراب ہوا ہے۔
یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بناء پر پاکستان سے جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس واپس لینے کی قرارداد منظور کی تھی مگر یورپی یونین کمیشن نے اس قرارداد کو وقتی طور پر مؤخر کردیا ہے اور حکومت پاکستان کو انتباہ کیاہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جائے، حکومت کو دعوئوں کے بجائے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔