Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Inteha Pasandi Aur Grohi Siyasat

Inteha Pasandi Aur Grohi Siyasat

ایک اسسٹنٹ کمشنر نے آئین پاکستان کی تشریح کرتے ہوئے نوجوانوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آئین پاکستان کے تحت تمام اقلیتی فرقوں کے اراکین کے یکساں حقوق ہیں۔ مذہبی جنونی نوجوانوں نے ایک قابل افسر کے عقیدے پر سوال اٹھا دیے۔ ضلعی انتظامیہ بے بس ہوگئی۔

نوجوان ڈاکٹروں نے حالات کار کو بہتر بنانے کی جدوجہد کے ساتھ فاشسٹ رویوں کو اپنے رویہ میں شامل کرلیا اور تشدد کو ہتھیار بنا لیا۔ آئین اور قانون کے نفاذ کے لیے عدالتوں میں دلائل دینے والے وکیل پر تشدد سے وہ گروہوں میں تبدیل ہوگئے۔ پہلے مجسٹریٹ اور پولیس والوں پر تشدد کرتے تھے، پھر ججوں کی بے عزتی کی اور پھر ایک ڈاکٹر کی وڈیو وائرل ہونے پر دل کے اسپتال پر حملہ کردیا۔

یوں کئی مریض جاں بحق ہوئے۔ دل کا اسپتال کئی دنوں تک بند رہا۔ پولیس نے اس بلوے میں ملوث وکلاء کو گرفتار کیا تو وکیلوں نے ہڑتال کردی اور عدالتیں بند ہوگئیں۔ اس مسئلہ کا حل معافی تلافی کی صورت میں نکل آئے گا۔ انتہائی تعلیم یافتہ افراد کے رویوں میں تشدد کے رجحانات پر تحقیق ہی ان مسائل کا بنیادی حل ہے۔ بنیادی طور پر جنرل ضیاء الحق کا دور پاکستانی معاشرے کی معتدل روایات کی پامالی کا باعث بنا۔ جنرل ضیاء الحق نے برسر اقتدار آتے ہی اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ لگایا۔ جنرل ضیاء الحق نے متنازعہ قوانین نافذ کیے۔

ان قوانین کی بناء پر ایک طرف غیر مسلم پاکستانیوں اور خواتین کے حقوق پامال ہوئے تو دوسری طرف فرقہ وارانہ گروہ بندی کو تقویت ملی۔ بعض مدارس کے نصاب تو رجعت پسندی کو تقویت دیتے ہی تھے جدید تعلیم دینے والے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب کو بھی رجعت پسندی سے جوڑ دیا گیا۔ اس نصاب میں قدامت پرستی کو تقویت دی گئی۔ سائنسی طرز فکر کو ختم کیا گیا۔

دنیا کے ہر مسئلہ پر منطقی دلیل کے بجائے عقیدے کی بالادستی پر زور دیا گیا۔ پھر پورے ملک میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر عام ہوا۔ ہتھیار سستے ہوئے، کتابوں کی قیمتیں اور تعلیمی اداروں کی فیس زیادہ ہوگئی۔ پھر اس دور میں افغان جنگ میں امریکا اور یورپی ممالک کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔

افغان مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں پاکستان آئے۔ امریکی امداد سے استفادہ کرنے والے جنرل اور مذہبی رہنما ارب پتی ہوگئے۔ یوں معاشرے میں امیر بننے کی دوڑ شروع ہوئی تو دولتیے خاندانوں کے پاس کوئی روایت نہیں تھی۔ یہ تصور عام ہوا کہ جس کے پاس دولت ہوگی معاشرہ میں اس کی عزت ہوگی۔

تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) نے جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خاتمے کے خلاف 1983میں تحریک شروع کی۔ سندھ میں اس تحریک کی عوامی سطح پر پذیرائی ہوئی۔ سندھ کے کئی شہروں میں نیشنل ہائی وے پر احتجاج کرنے والے مظاہرین پر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔ اس تحریک کی بناء پر ضیاء الحق کو انتخابات کرانے اور امن کی بحالی کا منصوبہ دینا پڑا مگر پھر حکومتی سرپرستی میں اندرون سندھ ڈاکوؤں کا راج قائم ہوا۔ اغواء برائے تاوان قانونی کاروبار بنا اور شہری علاقوں میں لسانی تنظیموں کے مسلح گروہ مضبوط ہوئے۔

ان گروہوں نے طاقت کے ذریعہ اپنے مسائل حل کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ضیاء الحق حکومت نے طلبہ یونین کے ادارہ پر پابندی لگا دی۔ طلبہ تنظیموں کو بے لگام چھوڑ دیا گیا۔ اب نظریات کے بجائے فرقہ وارانہ لسانی ذات برادری کی بناء پر طلبہ تنظیمیں مضبوط ہوئیں، یوں نوجوانوں میں برداشت، رواداری اور سیکھنے کے مواقعے ختم ہوئے۔ مذہبی جماعتوں نے طلبہ میں مذہبی معاملات اور غیر ضروری مسائل کو حکومتوں کی بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔

بدقسمتی یہ ہوئی کہ صرف مذہبی جماعتوں ہی نہیں بلکہ بعض اداروں نے بھی ان معاملات کو اپنے مقاصد کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ پھر نئی صدی نائین الیون کی دہشت گردی کے ساتھ شروع ہوئی۔ پرویز مشرف کی ناقص پالیسیوں کی بناء پر کابل میں لڑی جانے والی لڑائی کوئٹہ اور پشاور کے راستہ کراچی تک پہنچی۔ مذہبی انتہاپسندوں نے اپنے مخالف فرقوں کی مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا۔ مخالف فرقوں کے سرکردہ افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ طالبان نے خواتین کے تعلیمی اداروں کو ڈھانے کا فریضہ انجام دیا۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک طرف امریکا کی اتحادی تھی تو دوسری طرف انتہاپسند مذہبی گروہوں کی سرپرستی کی جا رہی تھی جس کا سارا نقصان پاکستانی معاشرے کو ہوا۔ اس لڑائی میں ہزاروں شہریوں کے علاوہ پولیس، رینجرز اور فوج کے جوان اور افسران بھی جاں بحق ہوئے۔ حکومتی دہری پالیسی کی بناء پر مذہبی انتہاپسندوں کو فروغ حاصل ہوا اور سماجی تقسیم گہری ہوگئی۔

2007میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی کے خلاف وکلاء کی تحریک شروع ہوئی۔ تمام مخالف جماعتوں نے وکلاء کی تحریک کی حمایت کی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری بحال ہوئے اور پرویز مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ پھر وکلاء میں اجتماعی تشدد کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے کا رجحان پیدا ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ رجحان مستحکم ہوا۔ وکلاء نے گروہوں کی شکل میں قوت حاصل کی، پولیس اور سرکاری محکموں کے افسران اور عملے پر حاوی ہونے لگے۔

وکلاء کی انجمنوں کے ہر سال باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ یہ تحصیل اور شہر کی سطح سے لے کر ملک کی سب سے بڑی عدالت میں پیش ہونے والے وکلاء کی انجمنوں کے ہوتے ہیں۔ اس بناء پر وکلاء کے ووٹ انتہائی اہمیت اختیار کرگئے۔ افتخار چوہدری کی بحالی کے کچھ عرصہ بعد تحریک چلانے والے وکلاء میں تقسیم ہوئی۔ ایک گروہ حامد خان اور دوسرا عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کی قیادت میں منظم ہوا۔ اگرچہ یہ ایک صحت مندانہ مقابلہ تھا مگر ووٹ کی اہمیت بڑھنے سے ووٹ کو گروہی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا گیا۔

جب مختلف شہروں میں وکلاء کی عدالتوں میں لڑائی جھگڑے کی خبریں عام ہوئیں تو وکلاء کی اعلیٰ قیادت نے اس نئے تضاد کی طرف توجہ نہیں دی۔ پھر یہ حقیقت ہے کہ وکلاء کی اعلیٰ قیادت جمہوریت اور آئین پاکستان سے وابستگی پر فخر کرتی ہے۔ اس قیادت نے آئین کی بالادستی کو حقیقی طور پر محسوس کیا ہے اور قانون کی پاسداری کو معاشرے کے استحکام کی بنیاد جانا ہے مگر نوجوان وکلاء گزشتہ 36 برسوں کی مدت میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ اس نسل کو جنونیت، غیر سائنسی سوچ، عدم برداشت پر مبنی نصاب پڑھنے کو ملا ہے۔

ایسے اساتذہ ملے ہیں جو سائنسی طرز فکر کو اپنے عقیدے کے منافی جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرنے اور وکیل کا لائسنس ملنے کے باوجود ان کا آئین اور قانون کی بالادستی پر مکمل یقین نہیں ہے۔ ان وکلاء کا یہ تصور ہے کہ گروہوں میں جڑتے رہنے اور قانون توڑنے سے ان کا مقاصد پورے ہونگے۔ وکلاء قیادت اکثریت کی اسیر ہے۔

مسرور حسن نے این ایس ایف کے رہنما کی حیثیت سے نوجوانی کے دن گزارے۔ پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ کراچی کے مختلف تھانوں اور شاہی قلعہ میں تھرڈ ڈگری تشدد برداشت کیا اور ملک کی مختلف جیلوں میں برسوں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مسرور حسن 80کی دھائی کے آخری عشرے سے وکالت کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔

وہ وکلاء میں گروہوی تشدد کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑے وکلاء کے چہرے ججوں کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ نوجوان وکلاء نے 2007 کی وکلاء تحریک سے یہ سبق سیکھا کہ گروہ کی شکل میں طاقت کے ذریعہ اپنی مرضی کے فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔

ایک مراسلہ نگار نے الزام لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ کئی سو وکلاء کی ڈگریوں کی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تصدیق نہیں کی مگر بار کونسل نے ان وکلاء کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ گروہ بندی اور تشدد کے ذریعہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کا رجحان صرف سویلین تنظیموں میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ دوسرے اداروں نے بھی طاقت کا استعمال متعدد بار کیا۔ جب وکیلوں کی یہ صورتحال ہوگی تو ڈاکٹروں کے حالات تو اور زیادہ برے ہیں۔ پنجاب میں نوجوان ڈاکٹروں نے ایک طویل جدوجہد کر کے ورکنگ کنڈیشنز کی شرائط کو بہتر کردیا ہے مگر یہ ڈاکٹر اب تشدد کے ہتھیار کو اپنے بچاؤ کے لیے استعمال کرنے پر فخر کرتے ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (P.M.A) کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر شیر شاہ سید نے وکلاء کے دل کے اسپتال کے حملے سے پہلے ملک کے سب سے بڑے انگریزی کے اخبار کے میگزین میں لکھا کہ گزشتہ دنوں جب ینگ ڈاکٹر ہڑتال کررہے تھے تو ایک نوجوان ڈاکٹر نے ہڑتال کا وقت شروع ہونے پر مریض کو جان بچانے کے لیے لگائی جانے والی ٹیوب کو بند کردیا۔ حبس کے اس ماحول میں اچھی خبر یہ ہے کہ عابد حسین منٹو اور رضا کاظم جیسے وکلاء نے وکلاء کے اس تشدد آمیز رویہ کی مذمت کی ہے۔

مگر اٹک کی اسسٹنٹ کمشنر کے اپنے خیالات کی بناء پر ہجوم کے جبر کا سامنا کرنے کا معاملہ ہو یا وکلاء اور نظم و نسق کے شاہکار ادارہ کے افراد کی گروہ کی شکل میں قانون شکنی ہو تمام مسائل ریاست کی بالادستی سے منسلک ہیں۔ ایک اعتدال پسند سیکیولر معاشرہ ہی ان خرابیوں کو دور کرسکتا ہے۔