کہا جا رہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی حکومت پر عدم اعتماد ہے۔ قومی اسمبلی میں 3 مارچ کو جو کچھ ہوا، کچھ عرصہ قبل سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس وقت حاصل بزنجوکو ناکامی ہوئی تھی اور اب حکومت شکست کھا گئی۔
تحریک انصاف نے بتدریج عوامی مقبولیت حاصل کی ہے۔ تحریک انصاف کا بیانیہ کرپشن کے خاتمہ اور انتخابی اصلاحات پر مبنی تھا، مگر 2018 کے انتخابات سے پہلے Electibles کم تعداد میں تحریک انصاف میں موجود تھے۔ حقائق ظاہرکرتے ہیں کہ جنوبی پنجاب سے بھاری تعداد میں بااثر افراد تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔
ان میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی شامل تھے۔ اخبارات میں اسی دوران "محکمہ زراعت" کا کردار بھی ابھر کر سامنے آیا۔ متحدہ حزب اختلاف نے سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔ حاصل بزنجو کو متبادل امیدوار کے طور پر سامنے لایا گیا۔
اس وقت سینیٹ میں حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد 64 تھی۔ سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں 64 اراکین کھڑے ہوئے مگر بیلٹ بکس سے 46 ووٹ نکلے۔ حکومت نے اراکین کی وفاداری کی تبدیلی کے لیے روایتی طریقے استعمال کیے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا قیام عمل میں آیا۔ مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے عوامی جلسوں میں دھواں دار تقاریرکیں مگر پھر پس پردہ کچھ سرگرمیاں ہوئیں۔ پی ڈی ایم نے اسمبلیوں سے استعفیٰ اور لانگ مارچ کا منصوبہ مؤخرکیا اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ حکمران قیادت گزشتہ دو برسوں میں خصوصی افراد تک محدود ہوگئی۔ گزشتہ انتخابات میں اپنی پارٹی کے لیے تن من دھن سے ذاتی طور پر متحرک ہونے والے جہانگیر ترین زیرِ عتاب آگئے اور ان کے خلاف ایف آئی اے اور نیب نے تحقیقات شروع کردیں۔
یوں واضح ہونے لگا کہ حکومتیِ قیادت سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے خاصے اراکین ناراض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے قریب آتے ہی حکومت کی پریشانی شروع ہوگئی۔ حکمران قیادت نے مؤقف تبدیل کرتے ہوئے U-turn لیا اور قومی اسمبلی کے اراکین کو ترقیاتی فنڈ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس مجلس میں خواتین اراکین بھی موجود تھیں۔ انھوں نے بھی مطالبہ کیا مگر حکومت نے واضح طور پر انکارکیا۔ اس معاملہ کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تو وزیر اعظم نے اراکین میں فنڈ تقسیم کرنے سے انکارکیا، مگر دو روز قبل وزیر اعظم نے خواتین اراکین کے لیے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈ دیے۔
حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اوپن بیلٹ کے لیے قانون کا مسودہ پیش کیا مگر حزب اختلاف کی مزاحمت پر یہ مسودہ قانون نہ بن سکا تو پہلے سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کیا گیا۔ صدر پاکستان نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ اوپن بیلٹ کا طریقہ نافذکر دیا۔
پیپلز پارٹی کے اسٹبلشمنٹ سے تعلقات میں بہتری آئی۔ کیپٹن(ر) صفدرکے معاملہ پر صوبائی وزراء کی تحقیقاتی کمیٹی نے فیصلہ سنا دیا۔ پی ٹی ایم کے ایک رہنما جو رکن قومی اسمبلی ہیں کو پشاور سے گرفتارکیا گیا تو بلاول بھٹو زرداری نے ان کی گرفتاری کی مذمت کی۔ 24 فروری کے اخبارات میں ایک چھوٹی سے خبر شایع ہوئی کہ قومی احتساب بیوروکے راولپنڈی رینج نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی Plea Bargainingکی ہے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سابق سربراہ منظورکاکا سے21 بلین روپے وصول کیے ہیں۔ اس سودے میں سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف بے نامی بینک اکاؤنٹس کے مقدمات بھی شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹ کی نمایندگی کے لیے نامزد کیا۔ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے یوسف رضا گیلانی کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ اس دوران تاریخ میں پہلی دفعہ الیکشن کمیشن کا آزادانہ کردار سامنے آیا۔ الیکشن کمیشن نے این اے 75 میں ضمنی انتخاب میں پریزائیڈنگ افسروں کے اغواء پر انتخابی نتائج منسوخ کردیے۔
سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دیا۔ اس فیصلہ کے تحت ووٹنگ کو 1973کے آئین کے تحت خفیہ قرار دیا گیا البتہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایات دیں کہ کسی شکایت کی صورت میں ووٹ کے بارے میں پتہ چلانے کے لیے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔
الیکشن کمیشن نے 2018میں فوری نتائج کے حصول کے لیے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مشتمل RTS کا نظام بنایا تھا مگر یہ نظام کام نہ کرسکا۔ تحریک انصاف کی حکومت اس نظام کے ناکام ہونے کی وجوہات کی تحقیقات کے لیے تیار نہیں۔ اب الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ انتخابات خفیہ رائے دہی کی بنیاد پر ہونگے اور سپریم کورٹ کی ہدایات پر عملدرآمد کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی ہے اور بیلٹ پیپرز کے بارے میں پتہ چلانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ایک دو رکنی کمیٹی بنائی ہے جو اپنی سفارشات تیار کرے گی جن پر اگلے انتخابات میں عملدرآمد ہوگا۔
صورتحال اتنی پیچیدہ ہوگئی کہ وزیر اعظم گزشتہ کئی دنوں سے قومی اسمبلی میں رہے اور مسلسل اراکین اسمبلی سے رابطے کیے۔ ٹیکنوکریٹ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے بھی ہر رکن قومی اسمبلی سے ملاقات کی اور اپنی انتخابی مہم کے لیے لاہور اورکراچی بھی آئے۔ پیپلز پارٹی کی کوشش تھی کہ ایم کیو ایم کو ساتھ ملا لیا جائے مگر ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کی پیشکش پر توجہ نہ دی۔ اس طرح جی ڈی اے اور دیگر اتحادیوں نے بھی ڈاکٹر حفیظ شیخ کی حمایت کا اعادہ کیا۔
جماعت اسلامی گزشتہ دو برسوں سے وفاقی حکومت پر سخت تنقید کرتی آئی ہے۔ جماعت اسلامی نے پہلے تو وفاقی حکومت کی حمایت سے انکارکیا مگر پھر سننے میں آیا کہ جماعت اسلامی کے اراکین پولنگ والے دن ایوان میں موجود نہیں ہونگے۔ پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلی دفعہ حکومت کو قومی اسمبلی میں شکست ہوئی ہے، کیا یہ بحران وزیر اعظم کے اعتماد کے ووٹ سے حل ہو جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان کو اب "محکمہ زراعت" کے کردارکے خاتمہ پر سوچنا چاہیے۔ حزبِ اختلاف کے ساتھ مل کر جامع انتخابی اصلاحات پر توجہ دینی چاہیے۔ حزبِ اختلاف کو نئے انتخابات کے مطالبہ کے بجائے پارلیمنٹ کی تمام اداروں پر بالادستی کو یقینی بنانے کی تحریک کو جلا دینی چاہیے۔