اختر رحمن (ابن عبد الرحمن) جو آئی اے رحمن کے نام سے معروف ہوئے مظلوم طبقات اور خواتین کی حقوق کی جدوجہد کا استعارہ ہیں۔ آئی اے رحمن متحدہ پنجاب کے ضلع گڑگاؤں کے قصبہ حسن پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا، والد وکیل تھے۔ آئی اے رحمن تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ اطہر رحمن ملتان میں وکالت کرتے تھے۔ اب ریٹائر ہوگئے ہیں۔
تیسرے بھائی اظہر رحمن جوانی میں انتقال کرگئے تھے۔ آئی اے رحمن نے ابتدائی تعلیم پلول میں حاصل کی، بعد ازاں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بھیج دیے گئے۔ ان کے والد عبد الرحمن خان قوم پرست خیالات کے حامل تھے اور مولانا ابو الکلام آزاد کے نظریہ کے اسیر تھے۔ عبدالرحمن خان کی قریبی دوستی انڈین کمیونسٹ پارٹی کے رہنما مطلوبی فرید آبادی سے تھی۔ دہلی کی کمیونسٹ پارٹی کے متحرک کارکن انیس ہاشمی جو بعد میں دہلی مسلم لیگ کے سیکریٹری مقرر ہوئے، ان کے دوستوں میں شامل تھے، یوں آئی اے رحمن ایک ترقی پسند ماحول میں پروان چڑھے، وہ علیگڑھ یونیورسٹی میں ترقی پسند طلبہ کے گروپ سے منسلک تھے۔
ستمبر 1947 میں ہندو بلوائیوں نے حسن پور پر حملہ کیا۔ اس حملہ میں آئی اے رحمن کے بہت سے قریبی عزیز جاں بحق ہوئے۔ رحمن صاحب اس وقت علی گڑھ یونیورسٹی میں تھے۔ رحمن صاحب نے بتایا تھا کہ فسادات کے دوران سب راستے بند تھے۔ انھیں ہوسٹل میں ایک فرد نے جو گاؤں گاؤں اشیاء فروخت کرتا تھا بتایا تھا کہ بلوائیوں نے حسن پور میں تمام افراد کو قتل کر دیا ہے۔ رحمن صاحب نے ہوسٹل کے وارڈن سے اپنے گاؤں جانے کی اجازت طلب کی مگر وارڈن صاحب نے کہا کہ انھیں ہوسٹل سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ ان کے والد فوجی ٹرک میں انھیں لینے آئے اورپلول میں ان کی اہل خانہ سے ملاقات ہوئی، یوں ایک مال گاڑی میں یہ قافلہ پاکستان روانہ ہوا اور ملتان کے قریب شجاع آباد میں یہ مال گاڑی کھڑی ہوگئی۔
آئی اے رحمن نے پنجاب یونیورسٹی سے فزکس میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور سپیریئر سروس کا امتحان دیا اورکامیاب قرار پائے۔ مگر کوٹہ نہ ہونے کی بناء پر سرکاری افسر نہیں بنے مگر انھوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ یہ اچھا ہی ہوا۔ آئی اے رحمن نے پہلا مضمون لاہورکے ایک اردو اخبار کے لیے لکھا تھا، وہ ایک انگریزی اخبار میں ملازم ہوئے۔
معروف شاعر فیض احمد فیض اس وقت اس اخبار کے ایڈیٹر تھے، سینئر صحافی مسعود اشعر اپنی یادداشتوں پر زور دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 50کی دہائی میں آئی اے رحمن انگریزی اخبار اور علی سفیان آفاقی اردو روزنامہ میں فلمی رپورٹنگ کرتے تھے مگر جلد ہی آئی اے رحمن اخبار کی ایڈیٹوریل ٹیم کا حصہ بن گئے۔ انھوں نے اداریہ اور آرٹیکل لکھنا شروع کیے۔ 1959 میں ایوب خان کی حکومت نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات پر قبضہ کیا اور ان اخبارات کی پالیسی تبدیل ہوئی۔
آئی اے رحمن نے اخبار کے اس وقت کے ایڈیٹر پر واضح کیا تھا کہ ان سے یہ توقع نہ ر کھی جائے کہ وہ ایوب خان کی حکومت کی مدح سرائی کے لیے اداریے تحریرکریں گے، یوں ان کی ایڈیٹر صاحب سے کچھ مفاہمت ہوئی اور ان کے سپرد بین الاقوامی امور، اسپورٹس اور دیگر سماجی موضوعات ہوئے۔
رحمن صاحب صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے متحرک کارکنوں میں سے تھے۔ پی ایف یو جے کے سینئر کارکنوں کا کہنا ہے کہ 1970 تک ان دونوں تنظیموں کے اجلاسوں میں منظور کی جانے والی قراردادیں ِآئی اے رحمن، عزیز صدیقی اور طاہر مرزا تحریر کیا کرتے تھے۔
آئی اے رحمن کو ان کے دوستوں نے 1967 میں ڈھاکا میں ہونے والی پی ایف یو جے کے انتخابات میں صدر کے عہدہ کے لیے نامزد کیا مگر ان انتخابات میں اسرار احمد کامیاب ہوئے۔ پی ایف یو جے کے سابق صدر منہاج برنا، اسرار صاحب کے سب سے بڑے سپورٹر تھے مگر آئی اے رحمن اور برنا صاحب کی مثالی دوستی میں فرق نہیں آیا۔
پی ایف یو جے نے 1970 میں غیر صحافی عملے کو عبوری امداد دلانے کے مطالبہ کے لیے 12 دن ہڑتال کی اورکوئی اخبار شایع نہیں ہوا۔ اس ہڑتال کے خاتمہ پر آئی اے رحمن سمیت 200 کے قریب صحافیوں کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا۔ ان کے پاس معافی مانگ کر ملازمت بچانے کا آپشن موجود تھا مگر مصلحت ان کی سوچ سے بہت دور تھی۔
آئی اے رحمن نے معروف صحافیوں حمید اختر اور عبداﷲ ملک کے ساتھ مل کر لاہور سے نئے اخبار "آزاد" کا اجراء کیا۔ روزنامہ آزاد نے 1970 کے مشرقی بنگال میں آنے والے سمندری طوفان میں ہلاکتوں کی خبرکو بھرپور کوریج دی۔ اخبارات میں پیپلزپارٹی سمیت دیگر ترقی پسند جماعتوں کی حمایت کی مگر جب مارچ 1971 میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی لیگ کے حق اقتدارکو چیلنج کیا اور جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع کیا تو روزنامہ آزاد نے اس آپریشن کی مخالفت کی۔ یوں روزنامہ آزاد بند ہوا اور پھر بے روزگاری کا سلسلہ شروع ہوا۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے برطرف ہونے والے صحافیوں کو بحال کیا اورحکومت کے قائم کردہ نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (NFDC) کے رسالے "سینما" کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ یہ فلم کے موضوع پر شایع ہونے والا انگریزی کا جریدہ بین الاقوامی معیار کے مطابق شایع ہوتا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی آئی اے رحمن کو ملازمت سے برطرف کیا۔ وہ بائیں بازو کے معروف صحافی مظہر علی خان کے ہفت روزہ رسالہ Viewpointسے جڑ گئے۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے 1981 میں آئی اے رحمن سمیت ترقی پسند صحافیوں کو اسیر کیا۔
رحمن صاحب لاہور اور بہاولپور جیلوں میں قید رہے مگر مفاہمت کی ہر پیشکش کو مسترد کیا اور جیل میں وقت کتابوں کے مطالعہ اور مضامین تحریر کرتے ہوئے گزارا۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے آئی اے رحمن کو ایک انگریزی اخبار کا چیف ایڈیٹر مقررکیا۔ اس عرصہ میں اس اخبار کے قارئین کو فیض احمد فیض کی زیر ادارت شایع ہونے والے اخبارکی جھلک نظر آنے لگی۔ بے نظیر بھٹو برطرف ہوئیں۔ غلام مصطفی جتوئی نگراں وزیر اعظم بنے اور آئی اے رحمن کو پھر برطرفی کا خط تھما دیا گیا۔
یہ وہ دور تھا جب سوویت یونین بکھر گئی تھی۔ رحمن صاحب جیسے مارکسٹ کا خواب بکھر گیا تھا، مگر انھوں نے نئی راہ تلاش کی۔ وہ مظلوم طبقات، خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دراب پٹیل کی قیادت میں انسانی حقوق کمیشن HRCP میں شامل ہوئے اور انسانی حقوق کی پاسداری کو اپنا مشن بنایا۔ انھوں نے انسانی حقوق کی اہمیت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے صرف تحریری کام نہیں کیا بلکہ HRCP کے بینر تلے کارکنوں کی ایسی فوج تیار کی جن میں عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، حسین نقی، زمان خان اور دیگر سیکڑوں افراد شامل ہیں۔
آئی اے رحمن نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ پاکستان میں ترقی و خوشحالی اور جمہوری اداروں کا استحکام بھارت سے معمول کے تعلقات میں مضمر ہے۔ پاکستان انڈیا پیپلز فورم کو منظم کیا۔ وہ بھارت کے دور دراز شہروں میں گئے اور دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی اہمیت کو دلائل سے ثابت کیا، یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت کے ترقی پسند حلقوں میں بھی مقبول ہوئے۔
رحمن صاحب کا خاندان ہندوستان کے بٹوارہ میں فسادات کا بدترین شکار ہوا تھا۔ ان کے خاندان کے زخم اتنے گہرے تھے کہ اب بھی ان فسادات کا آنکھوں دیکھا حال بزرگ ایسے بیان کرتے ہیں جیسے کل کی بات ہو، مگر آئی اے رحمن نے ان فسادات کا انتقام بھارت سے اچھے تعلقات میں تلاش کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی سے یہ سبق سیکھنا ضروری ہے کہ نفرت کا جواب محبت سے دیا جائے، اسی طرح نفرت ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکتی ہے اور اس خطہ میں خوشحالی کا دور آسکتا ہے۔
آئی اے رحمن مارکس ازم کے اسیر تھے، مگر اس کے ساتھ ہمیشہ ایک پروفیشنل جرنلسٹ رہے جو ہمیشہ معروضیت کو اہمیت دیتا ہے۔ آئی اے رحمن، حمید اختر اور عبداﷲ ملک کو پی ایف یو جے سے نکال دیا گیا۔ رحمن صاحب زندگی کی آخری رمق تک پی ایف یو جے کو متحد کرنے کی جستجو کرتے رہے، وہ ہمیشہ حکمرانوں سے دور رہے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے آئی اے رحمن کو عبوری وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی تھی مگر رحمن صاحب نے اس پیشکش پر معذرت کرلی۔ وہ اس ملک میں سماجی جمہوریت اور استحصال سے پاک معاشرہ کے لیے سرگرداں رہے اور اپنے پیچھے صرف مسلسل جدوجہد کی وراثت چھوڑ گئے۔ فیض احمد فیض نے اپنی اسیری کے ساتھی میجر اسحاق کے انتقال پر مرثیے میں جو شعر کہے تھے، ان میں سے یہ ایک شعر دراصل رحمن صاحب ہی کے لیے ہے:
جنھیں جرم عشق پر ناز تھا، وہ گنہگار چلے گئے