تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ کراچی کو مسلسل پسماندہ رکھا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان پیر27 ستمبر کو کراچی تشریف لائے۔ انھوں نے ایک دفعہ پھر کراچی سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس صدی کے 21 برسوں میں کراچی سرکلر ریلوے کا تیسری دفعہ سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے۔
موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اس طرح کی تقریب دو دفعہ منعقد ہوچکی ہے۔ وزیر اعظم نے اس تقریب کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھی مدعو کیا۔ وزیر اعظم کو اس موقع پر دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت کے سی آر منصوبہ پر 207 بلین روپے خرچ کرے گی۔
یہ منصوبہ 18سے 24 ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہوگا۔ سرکلر ریلوے کے لیے جدید ترین ڈبے اور انجن درآمد کیے جائیں گے اور سرکلر ریلوے کو اس طرح جدید خطوط پر تعمیر کیا جائے گا کہ اس پر دوسرے ٹریفک کو روکنے کے لیے کوئی پھاٹک نہیں ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فوراً ایک وڈیو بیان میں کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت دراصل کراچی شہرکی ترقی کے لیے کام کررہی ہے۔
اخبارات میں شائع شدہ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ منصوبہ سابق صدر ایوب خان کے دور میں 1964 میں شروع ہونے والی سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ ہے۔ بنیادی طور پر پاکستان ریلوے نے یہ منصوبہ اپنے ملازمین کو اپنے گھروں سے ڈیوٹی کے مقام تک لے جانے کے لیے تیارکیا تھا۔ سٹی اور کینٹ اسٹیشن سے شروع ہونے والی ریلوے کی مرکزی لائن پپری مارشلنگ یارڈ پر ختم ہوتی ہے۔ دوسری طرف سٹی اسٹیشن، شیر شاہ، وزیر منشن، سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد اور گلشن اقبال سے ہوتی ہوئی اس مقام پر داخل ہوتی ہے۔
جہاں اب گلستانِ جوہر آباد ہے۔ وہاں سے یہ سی او ڈی اسلحہ ڈپو سے ہوتی ہوئی شاہراہ فیصل سے گزرتی ہوئی ڈرگ روڈ اسٹیشن پر مرکزی ریلوے لائن سے منسلک ہوجاتی ہے۔ ڈرگ کالونی اور لانڈھی سے ایک ریلوے لائن ملیر بھی جاتی ہے۔ ابلاغیات کے استاد پروفیسر سعید عثمانی جنھوں نے برسوں سرکلر ریلوے سے سفر کیا ہے اپنی یاد داشت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کراچی کے مضافاتی علاقوں سے سٹی اسٹیشن آنے کا سب سے تیز رفتار، سستا اور محفوظ ذریعہ سرکلر ریلوے تھا۔
صبح کے اوقات میں پپری اور لانڈھی سے ہر دس سے پندرہ منٹ بعد ریل گاڑی چلتی اور ہر اسٹیشن پر اس کا اسٹاپ ایک سے دو منٹ ہوتا تھا اور یہ 45 منٹ میں سٹی اسٹیشن پہنچ جاتی۔ اس زمانہ میں صدر سے کینٹ اسٹیشن تک ٹرام چلا کرتی، یوں صبح اپنے دفاترکام پر جانے والے آسانی سے وقت پر پہنچ جاتے۔ اس زمانہ میں کراچی میں آبادیاں محدود تھیں۔ سائٹ انڈسٹریل ایریا اور لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں کارخانے لگ رہے تھے، یوں مزدوروں کی بستیاں آباد ہورہی تھیں۔ اس بناء پر سرکلر ریلوے شہر کے بیشتر علاقوں کے نزدیک سے گزرتی تھی۔
کراچی میں آبادیاں بلوچستان کے سرحدی شہر حب سے متصل علاقوں سے شروع ہوتی ہیں اور ایک طرف اورنگی، نیو کراچی، نارتھ کراچی، خدا کی بستی، منگھوپیر اور سپر ہائی وے کے اطراف کی بستیوں اور ایک طرف ضلع ٹھٹھہ کی حدود کے آغاز گھگھر پھاٹک تک پہنچ گئی ہیں۔ سمندر کے کنارے کورنگی، گزری، شیری جناح کالونی، بابا بھٹ اور ہاکس بے و مبارک گوٹھ کے علاقہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔
اب 1964میں ہونے والی منصوبہ بندی کے تحت سرکلر ریلوے کی بحالی شہر کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ سرکلر ریلوے کی لائن حب سے سپر ہائی وے پر زیرو پوائنٹ تک اور دوسری طرف حب سے بلدیہ ٹاؤن سے ہوتی ہوئی کلفٹن کے ساحل تک وسیع ہونی چاہیے۔ دنیا کے جدید شہروں کی طرح سرکلر ریلوے کی ایک لائن جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک جانی چاہیے تاکہ دیگر شہروں اور خاص طور پر خلیجی ریاستوں سعودی عرب، امریکا اور یورپی ممالک سے آنے والے پاکستانیوں کو سفر کی جدید اور محفوظ سہولتیں مل سکیں۔
مزدور رہنما منظور رضی جن کی ساری زندگی ریلوے میں خدمت کرتے ہوئے گزری ہے، اس منصوبہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ پورے شہر کے لیے تیار نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکلر ریلوے کا کم سے کم کرایہ 50 روپے رکھا گیا ہے، یوں مزدوروں کے لیے قریبی اسٹیشنوں پر جانے کے لیے بھی 50 روپے دینا ممکن نہ ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ کم سے کم کرایہ 10روپے ہونا چاہیے۔
منظور رضی نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ فی الحال روزانہ ایک ریل گاڑی چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ شہریوں کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے اور روزانہ کم سے کم پانچ گاڑیاں چلنی چاہیئیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ 25 ماہ میں تیا رہوگا، اگر ریلوے انجنیئرز کی خدمات حاصل کی جائیں تو وہ 6 ماہ میں پورا ٹریک تعمیرکرسکتے ہیں۔ کراچی کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ اس شہر میں ایک زمانہ میں ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتیں میسر تھیں جنھیں ایک منصوبہ کے تحت ختم کیا گیا۔
2008 میں پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف علی زرداری صدرکے عہدہ پر فائز ہوئے اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے۔ اسی دوران شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ آصف زرداری نے چین کے بے شمار دورے کیے۔ اسی طرح وہ مہینہ میں کئی دفعہ دبئی جاتے۔ لندن اور نیویارک میں سرکاری طور پر گھومتے رہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتوں کے لیے چین، ترکی، دبئی اور لندن وغیرہ کے جدید ماڈلز کی طرح ایسا کوئی منصوبہ شروع کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ شہباز شریف ترکی کی بسوں کا جدید ترین نظام لاہور میں لے آئے۔
پیپلز پارٹی کے اکابرین کہتے ہیں کہ چین کی مدد سے تعمیر ہونے والے ترقیاتی کاریڈور سی پیک کی منصوبہ بندی ان کے دور میں ہوئی۔ اس دعویٰ میں حقیقت بھی ہے مگر سی پیک کی منصوبہ بندی میں کراچی کا پبلک ٹرانسپورٹ کا منصوبہ شامل نہیں ہوا مگر جب میاں نوازشریف وزیر اعظم بنے تو انھوں نے لاہور کے لیے اورنج ٹرین کا منصوبہ سی پیک کے تحت منظورکرلیا۔
صرف یہی نہیں راولپنڈی، اسلام آباد اور ملتان میں بس ریپڈ ٹرانسپورٹ کے منصوبے تعمیر ہوئے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی کے لیے گرین لائن کا منصوبہ شروع کیا تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ریڈ لائن، یلو لائن سمیت بسوں کے جدید نظام کی تعمیر کے دعوے کیے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے گرین لائن کے لیے بڑا بورڈ سے نمائش تک منصوبہ کا اعلان کیا تھا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت ریڈ لائن کی تعمیرکے ذریعہ گرین لائن کے منصوبہ کو ٹاور تک پہنچائے گی مگر یہ سب کچھ اخبارات کی فائلوں تک محدود رہا۔
مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو گرین لائن منصوبہ پر کام رک گیا۔ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور سندھ کے گورنر عمران اسماعیل ہر پانچ، چھ مہینہ بعد یہ اعلان کرتے ہیں کہ گرین لائن پر بسیں جلد چلنا شروع ہونگی اور اب تین سال گزرنے کے بعد 40 بسیں کراچی کی بندرگاہ پہنچی ہیں۔ اس سال کے اختتام تک گرین لائن پر جدید بسوں کے دوڑنے کے امکانات مبہم ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے بارہ سالہ دور میں 20 سے زائد بسیں نہیں چلائیں۔ جب بھی کوئی بس چلتی ہے تو کچھ دانشور و سوشل میڈیا پر ایسے خوشی سے پوسٹیں لگاتے ہیں جیسے پیپلز پارٹی نے کراچی میں انڈرگراؤنڈ بسوں کا نیٹ ورک بنا لیا ہے۔
تحریک انصاف نے کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ صدرِ مملکت کے علاوہ کئی طاقتور وزراء کا تعلق کراچی سے ہے۔ اس بناء پر کچھ دور اندیش دانشوروں نے یہ امید باندھ لی تھی کہ وفاقی حکومت کراچی کے لیے انڈر گراؤنڈ ٹرین، الیکٹرک ٹرام اور جدید بسوں پر مشتمل نظام کی بنیاد رکھے گی مگر آخری تجزیہ یہی ہوسکتا ہے کہ دونوں جماعتوں کو کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔