Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Khan Ki Diary

Khan Ki Diary

تنہا اس کتاب کو پڑھنا عالموں، دانشوروں اور نقادوں کی صحت کے لیے مضر ثابت ہوسکتا ہے، وزارت ادبی امور۔ کراچی پریس کلب میں شام خاصی دلفریب ہوتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں کئی نئے چہرے نظر آنے لگے ہیں۔ ان میں ایک طویل القامت شخص بھی شامل ہے جو عمومی طور پر مفلرگلے میں لٹکائے ہوتے تھے اور خاموشی سے لان میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔

کراچی پریس کلب کے پرانے مکین عمومی طور پر اجنبیوں کو اہمیت نہیں دیتے اور اجنبی افرادکے کسی خفیہ ایجنسی سے تعلق کے تصور سے خوفزدہ رہتے ہیں، تو سیکولر نظریات کے ارکان کے کارنر میں بھی اس اجنبی کی موجودگی کو پسند نہیں کیا گیا مگرکچھ عرصہ میں اس اجنبی کے خیالات عیاں ہوئے تو پھر پتہ چلا کہ محمد اصغر خان کی شخصیت کتنی جاذب نظر ہے۔

محمد اصغر خان 2 فروری 1940 کو شورکوٹ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ملازمت کے سلسلہ میں بلوچستان منتقل ہوگئے۔ محمد اصغر خان نے کوئٹہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بقول اصغر خان ان کی خواہش تھی کہ آرٹس پڑھوں اور والد کا اصرار تھا کہ انجینئر بنوں۔ دو مرتبہ ایف ایس سی میں ناکامی میں میری خواہش کا دخل زیادہ تھا اور نالائقی کا کم، والد صاحب سے عرض کیا کہ میرا رجحان آرٹس کی جانب ہے۔

مصنف اپنی خان کی ڈائری میں "کیا ہے؟ " کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ آخر کو وہ میرے بھی باپ تھے، کہنے لگے تم نے وہ محاورہ نہیں سنا، پڑھو فارسی بیچو تیل تو سائنس کا روگ لگانا ہوگا، یوں محمد اصغر خان نے زراعت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ والد نے تصدیق کے بعد زراعت سائنس یا آرٹس ہے اس کی اجازت دے دی۔ اصغر خان نے زرعی کالج ٹنڈو جام سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور سرکاری وظیفہ پر امریکی یونیورسٹی آف بیروت چلے گئے اور ایک دفعہ پھر سندیافتہ ہوگئے۔

محمد اصغر خان نے سرکاری اداروں میں ملازمت کی۔ کچھ عرصہ امریکی فرم میں گزارا اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے لیے مشاورت کی۔ اصغر خان اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ قوم کے سواتی ہیں اور درِ خانی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ خان صاحب ہوں خان صاحب نہیں، اصغر خان کی مادری زبان پشتو ہے جس خوبصورتی سے اردو بولتے ہیں اردو نثر لکھتے ہیں اور شاعری کرتے ہیں جب تک انھوں نے خود ہی بتایا کہ مادری زبان پشتو ہے تب جا کر لوگوں کو یقین آیا۔

محمد اصغر خان کی کتاب خان کی ڈائری (طنزومزاح) ان کے مضامین پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کا انتساب اپنی اہلیہ، بہنوں، بیٹوں اور بیٹیوں کے نام کیا ہے جو اردو زبان میں لکھی جانے والی کتابوں میں ایک نئی طرح ہے۔ کتاب کا آغاز مشتری ہوشیار باش کے عنوان سے ایک مضمون سے ہوتا ہے۔ مصنف پیش بندی کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ڈیڈی (میرا بیٹا مجھے ڈیڈی کہتا ہے)میرا شعبہ مارکیٹنگ کا ہے۔ میں اس کتاب کو فروخت کرنے میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں۔ وہ کیسے؟

کہنے لگا کتاب تو آپ اپنے خرچ پر چھاپ رہے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کی پہلی کتاب کی طرح اس کا بھی کوئی خریدار نہیں ہوگا۔ اس لیے ایسے کیجیے کہ کتاب کی قیمت رکھیے بہ قدر ہمت اور اخبار میں ایک اشتہار دیں "خان کی ڈائری بک اسٹال پر دستیاب ہے۔ اس کی فروخت کی مد میں جتنی رقم موصول ہوگی وہ ایدھی ٹرسٹ اور فاطمید فاؤنڈیشن کے لیے عطیہ ہوگی۔"

اصغر صاحب نے انٹرویو کے عنوان سے اس مضمون میں لکھا ہے کہ میرا پہلا انٹرویو جو میں نے 9 سال کی عمر میں دیا تھا وہ ملازمت کے لیے نہیں بلکہ وظیفہ کے سلسلہ میں تھا۔ جو بچے پانچویں درجے میں اچھے نمبروں میں پاس ہوتے تھے وہ اس وظیفہ کے لیے درخواست دے سکتے تھے۔ یہ 1949کا واقعہ ہے۔ پاکستان کو ظہور میں آئے ہوئے ابھی دو سال ہی گزرے تھے۔ وظیفے کی رقم چار روپیہ ماہانہ تھی۔ درخواستوں کی کاٹ چھانٹ کے بعد منتخب طلبہ پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں طلب کیے جاتے تھے جہاں ان کا انٹرویو ہوتا تھا۔

پولیٹیکل ایجنٹ ایک انگریز تھا جس کا نام اینڈرسن یا سائمن تھا۔ مجھے صحیح سے یاد نہیں۔ میں ملیشیا کے لباس میں ملبوس خشخشی بال گول مٹول تین فٹ کا قد، پاؤں میں پشاوری چپل پہنے باقی بچوں کے ساتھ اپنے بھائی کے ہمراہ انٹرویوکے انتظار میں کھڑا تھا۔ باقی بچوں میں اکثر صاف، نیکر اورسفید رنگ کی قمیضیں زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ایک بچے سے ہاتھا پائی کے نتیجہ میں میرا شلوارکا پانچا بھی پھٹ گیا، میرا بھائی پریشان ہوگیا۔

ایک طرف ہمدرد چپڑاسی نے ہماری پریشانی کو بھانپتے ہوئے ایک سیفٹی پن کے ذریعے وقتی طور پر ہمارا مسئلہ حل کردیا۔ اپنا نام پکارے جانے پر میں سہما سہما چک اٹھا کر کمرے میں داخل ہوا۔ ایک لمبا ترنگا مونچھوں والا انگریز منہ میں سگار لیے بیٹھا تھا۔ ایک لمحہ کو گھبرا گیا، پھر ہمت کر کے اسے سلوٹ مارا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے کچھ پوچھتا، میں اپنے ایک بزرگ کے سکھائے اور رٹائے ہوئے جملے ایک ہی سانس میں بول گیا۔ وہ جملے انگریزی میں تھے جن کا مفہوم مجھے نہیں آتا تھا۔ مجھے پتہ نہیں میری انگریزی اس کے پلے پڑی یا نہیں لیکن وہ اپنی کرسی سے کھڑا ہو کر میری جانب آیا اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا " شاباش، تم کو وجیفہ ملے گا۔"

وہ لکھتے ہیں کہ سفارشی رقعوں کی اقسام بھی ہوتی ہیں۔ سیاسی رقعہ (مارشل لاء دور میں یہ فوجی رقعہ کہلاتا ہے)، مالی رقعہ، برادری رقعہ، بیگمی رقعہ (یہ رقعہ سے زیادہ حکم کی صورت میں ہوتا ہے) بعض امیدوار ملازمت کے حصول کے لیے ملازمت دینے کے مجاز افسرکی بیگم کا رقعہ استعمال کرتے ہیں اور بعض اپنی بیگم کا۔ مالی رقعہ کے بعد یہ بیگمی رقعہ سب سے زیادہ کارگر ہوتے ہیں۔ آج کل ایک اور رقعہ کا اضافہ ہوا ہے وہ ہے دھمکی رقعہ (لیکن اس رقعہ میں رقعہ سے زیادہ ٹیلی فون کا استعمال ہوتا ہے۔ ) وہ مزید لکھتے ہیں کہ محکمہ زراعت کے ایک سیکریٹری ہوا کرتے تھے جو قوم کے نیازی تھے۔

میرے ایک دورکے عزیز گجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنر تھے اور نیازی تھے میں نے ان سے رقعہ لکھنے کوکہا۔ انھوں نے یوں رقعہ لکھا: "محترمی نیازی صاحب، سلام ممنون، حامل رقعہ اگرچہ نیازی نہیں تاہم میرا عزیز ہے۔ امید واثق ہے کہ آپ اس کی ہر حالت میں مدد کریں گے۔ خیر اندیش نیازی۔" یہ رقعہ پڑھ کر میرے در خانیت (میرا تعلق درخانی قبیلہ سے ہے)کو بہت ٹھیس لگی۔ میں نے اس رقعہ کے استعمال کو اپنے قبیلے کے غیرت کے منافی جانا اور ایک اچھے عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

محمد اصغر خان کا ایک مضمون مزاحمتی ادب کے عنوان سے ہے۔ انھوں نے عظیم شاعر خالد علیگ کی پچاس سالہ ادبی خدمات کے اعتراف میں ہونے والی تقریب کا ذکر کیا ہے۔ اصغر صاحب لکھتے ہیں کہ تقریب میں تمام مقررین نے خالد علیگ کی درویشی، خودداری اور حسن گوئی کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس کے ثبوت میں یہ دلیل بھی پیش کی کہ اب تک ان کی کتاب بھی منظرعام پر نہیں آئی۔ اس لیے کہ انھیں نمودونمائش سے کوئی رغبت نہیں ہے لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے سوسائٹی کے صدر سے درخواست کی تھی کہ ان کی کتاب کا انتظام کیا جائے جوکہ نہ صرف ہوٹل کے مالک بھی تھے بلکہ سامراج کے نمایندے بھی۔

اصغر خان نے حقائق کو معلوم کیے بغیر یہ مضمون لکھا۔ خالد علیگ کی درویش زندگی حکمرانوں سے دوری اورکسی سے مراعات نہ لینے کی روایت کے سیکڑوں لوگ امین ہیں۔ میوچل ایڈ سوسائٹی ترقی پسند کارکنوں نے سماجی کاموں کے لیے بنائی تھی۔ محمود باویجہ ترقی پسند سماجی کارکن ہیں۔ وہ اس سوسائٹی کے صدر تھے۔ خالد علیگ نے اپنا دیوان شایع کرنے کی درخواست کبھی بھی نہیں کی۔ وہ ساری زندگی اپنا دیوان شایع کرنے کی مخالفت کرتے رہے۔ ان کا دیوان ان کے شاگرد اورمنہ بولے بیٹے ایوب ملک نے شایع کیاجس پر وہ خاصا عرصہ ناراض رہے۔ خالد علیگ روزنامہ مساوات کے ایڈیٹر ہونے کے ناتے بھٹو خاندان سے قریب تھے مگر انھوں نے بے نظیر بھٹوکی حکومت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔

خوبصورت اردو کے متلاشی قارئین کے لیے خان کی ڈائری ایک تحفہ ہے۔